عالمی مالیاتی ادارے IMF نے پاکستان میں کرپشن اور گورننس پر فروری 2025ء میں تیار کی گئی ایک تہلکہ خیز ’’گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگنوسٹک اسسمنٹ‘‘ (GCDA) رپورٹ گزشتہ دنوں جاری کی جسے حکومت پاکستان نے اگست تک روک رکھا تھا لیکن جب IMF نے مذکورہ رپورٹ کی اشاعت اور اس پر قانون سازی آئندہ ماہ دسمبر میں ہونیوالے اپنے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں 1.2ارب ڈالر کی تیسری قسط کی منظوری سے مشروط کی تو حکومت کو رپورٹ شائع کرنا پڑی۔ یہ رپورٹ پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں کے سربراہان، اراکین پارلیمنٹ، اعلیٰ حکومتی شخصیات، گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین FBR اور چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقاتوں کے بعد پاکستان میں شفافیت اور احتساب کے پہلوؤں پر معلومات حاصل کرکے تیار کی گئی ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں پھیلی بدترین کرپشن جسکا حجم 6 ہزار ارب روپے سالانہ سے بڑھ چکا ہے، کو روکنے کیلئے IMF نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ IMF کی 92اصلاحات پر فوراً عملدرآمد کرے۔ IMF کے مطابق پاکستان میں کمزور حکمرانی، بیڈ گورننس اور کرپشن نے ملک کی معاشی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے، اگر پاکستان آئندہ 3 سے 6 ماہ میں IMF کا گورننس اصلاحات پیکیج نافذ کرے تو 5 سال میں ملکی معاشی ترقی میں 5 سے 6.5فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں ریاستی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا کہ گزشتہ 2 سے 3 سال کے دوران پاکستان میں کرپشن پر کنٹرول انتہائی کمزور ہوا ہے، ملک میں بجٹ سازی اور مالیاتی معلومات کی رپورٹنگ، ترقیاتی اخراجات، حکومتی اور پارلیمانی نظام میں وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کے غیر ضروری اخراجات، سرکاری پروکیورمنٹ، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں (SOEs) اور ڈسکوز میں موجودہ خامیوں کی وجہ سے پاکستان کرپشن کے شدید اثرات سے دوچار ہے۔
IMF کے مطابق FBR میں بدعنوانی ایک سنگین مسئلہ ہے اور ادارے کے ٹیکس نظام میں اصلاحات ناگزیر ہوگئی ہیں جس کیلئے ضروری ہے کہ FBR موجودہ پیچیدہ ٹیکس نظام کو آسان بنانے کیلئے ان ڈائریکٹ ٹیکسز، ودہولڈنگ اور ایڈوانس انکم ٹیکسز میں کمی کرکے ڈائریکٹ ٹیکس وصولی کی حکمت عملی اپنائے، وفاقی وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کیلئے ایک اتھارٹی قائم کی جائے اور ان اثاثوں کو عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ حکومت اور اراکین پارلیمنٹ پر عوام کا اعتماد بحال ہوسکے۔ IMF نے کرپشن کے ناسورکے خاتمے کیلئے 15ترجیحی شعبوں میں ٹھوس اصلاحات پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے زور دیا کہ اعلیٰ سرکاری افسران کا محاسبہ اور احتساب کیا جائے، انکے اثاثوں کی تفصیلات 2026ء تک عوام کو سامنے رکھی جائیں، نیب، SECP اور CCP کے سربراہان کی تقرری میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر کی جائے، SIFC کے تمام فیصلے اور ٹیکس چھوٹ کی مراعات عوام کے سامنے لائی جائیں، سرکاری اداروں میں ٹھیکوں میں رعایت ختم کی جائے اور تمام ریگولیٹری عمل ڈیجیٹل بنایا جائے۔ IMF نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی کہ پاکستان کا ٹیکس نظام حد سے زیادہ پیچیدہ اور غیر شفاف ہے جسے ایسے ادارے چلارہے ہیں جن کی صلاحیت ناکافی ہے، ملک میں ٹیکس اہلکاروں کو لامحدود اختیارات دینا بدعنوانی کو جنم دے رہا ہے اور ٹیکس دہندگان کا اعتماد کم کررہا ہے، پبلک ڈیٹ مینجمنٹ پر متعدد ادارے ایک ہی کام کر رہے ہیں جس سے فیصلے سست اور بے ربط ہورہے ہیں۔ IMF نے آڈیٹر جنرل پاکستان (AGP) جو مختلف حکومتی اداروں کے 40 کھرب روپے کا آڈٹ کرتا ہے، کو مکمل آزاد ادارہ بنانے کی سفارش کی ہے۔ IMF کے مطابق اگر مئی 2026ء تک رپورٹ میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو پاکستان نہ صرف عالمی مالیاتی اداروں کی سپورٹ سے محروم ہوسکتاہے بلکہ ملکی معیشت پر اسکے انتہائی منفی اور خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اپریل 2025 ء میں IMF نے پاکستان کی معیشت پر ’’ورلڈ اکنامک آؤٹ لک‘‘ رپورٹ بھی شائع کی تھی جس میں IMF نے ٹیکس وصولی اہداف حاصل نہ کرنے اور سرکاری ملازمین کے پنشن فنڈز میں ناقابل برداشت اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا جس پر میں نے کالم بھی تحریر کیا تھا۔ IMF کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں کرپشن اور گورننس پر اٹھائے گئے تحفظات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان اُن بدعنوان ممالک میں شامل ہے جہاں کرپشن اور بیڈ گورننس انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ IMF نے 180ممالک کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ زیادہ بدعنوان ممالک میں اشرافیہ اور امیر طبقہ ٹیکس سے بچنے کیلئے رشوت دیکر کم ٹیکس کی ادائیگی کرتا ہے۔ ان بدعنوان ممالک میں شامل جارجیا اور روانڈا نے کرپشن کے خاتمے کیلئے اصلاحات میں بدعنوانی میں ملوث افراد کو پھانسی اور عمر قید جیسی سزائیں سنائیں جسکے نتیجے میں کرپشن میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں شفافیت میں پہلے نمبر پر ڈنمارک، دوسرے پر فن لینڈ، تیسرے پر سوئیڈن، چوتھے پر نیوزی لینڈ اور پانچویں نمبر پر ہالینڈ ہے جبکہ پاکستان کا نمبر 117 ہے یعنی ہم کرپشن میں دنیا کے 116 ممالک کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ حال ہی میں میری زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ ذیلی کمیٹی برائے کامرس نے شوگر اسکینڈل میں ملوث بااثر افراد اور حکومتی اداروں کے نام اپنی رپورٹ شائع کی ہے اور ملوث بااثر افراد اور اداروں کیخلاف سخت کارروائی کی سفارش کی ہے جسکی وجہ سے آج چینی 220 روپے فی کلو فروخت کی جارہی ہے۔ نیب کو چاہئے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے میرٹ کی بنیاد پر طاقتور سیاسی شخصیات کو سخت سزائیں دے تاکہ آئندہ کوئی قوم کے ٹیکسوں پر کرپشن کا تصور بھی نہ کرسکے۔