• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے حکومتیں اپنی عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ بہتر طرز زندگی مہیا کرنے کے لئے منصوبہ بندی اور قانون سازی کرتی رہتی ہیں لیکن ان منصوبوں کی کامیابی یا ناکامی کا دار و مدار ان اداروں کی اہلیت، کارکردگی اور حکمت عملی پر ہوتا ہے جنہیں ان منصوبوں کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔عوامی منصوبوں پر ناکامی کی شرح اس لئے زیادہ ہے کہ حکومت ان کی ذمہ داری تمام تر جائز اور ناجائر اختیارات کے ساتھ کسی آزمودہ یا غیر آزمودہ اداروں کو سونپ دیتی ہیں جو ان کا نفاذ ریاستی طاقت کے ذریعے کرنے پر یقین رکھتی ہیں لیکن حکومت ان کی غیر ذمہ دارانہ کارکردگی پر نگرانی کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی توجہ ہٹا لیتی ہے، نتیجتاً یہ منصوبے نااہل سرپرستی کی بنیاد پر مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہے یا اہل قیادت اور بہتر منصوبہ بندی انہیں پریشان حال عوام کے لئے آسودگی اور آسانیوں کے باعث کامیاب ہوتی ہیں اور حکومتوں کے ماتھے کا جھومر بنتی ہیں۔ لیکن عموماً انتظامیہ کی طرز حکمرانی کا انحصار "کارکردگی" سے زیادہ "کارگزاری" پر رہا جو حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے کی بجائے بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ پیرا فورس، پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (PERA) کا ایک ادارہ ہے جو انتظامیہ کے ماتحت کام کرتا ہے، جو 2024 میں عوامی بہبود کے لیے قوانین کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنانے کے مقصد سے قائم کیا گیا۔ پیرا فورس ضلعی انتظامیہ کے تحت کام کرتی ہے، اور مہنگائی، تجاوزات اور عوامی مقامات کی بہتری جیسے مسائل کے حل میں کردار ادا کرتی ہے۔

پیرا فورس کا بنیادی مقصد پنجاب کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص اقدامات کرنا اور مثبت طرز عمل کے ذریعے عوام اور حکومت کے درمیان دوریاں مٹانا اور قربتیں بڑھانا ہے۔فورس کو مہنگائی اور تجاوزات جیسے اہم مسائل سے نمٹنے، اور عوامی سہولت و تحفظ کو بہتر بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ فورس ضلعی انتظامیہ کے اختیارات کے تحت کام کرتی ہے اور ان کی مقرر کی گئی ضروریات کے لیے ایک خصوصی شاخ کے طور پر خدمات انجام دیتی ہے۔ اس میں تعینات کئے گئے اعلیٰ افسران سمیت مختلف چھوٹے بڑے عہدوں کے ملازمین شامل ہیں۔

PERA فورس کے قیام کا مقصد تو شائد یہ تھا کہ طاقتور مہنگائی اور تجاوزات مافیا کی ریاستی طاقت کے ذریعے سرکوبی کے لئے کوئی قابل عمل منصوبہ بندی کی جائے، مہنگائی اور بیروزگاری کی چکیوں میں پسے لوگوں کی عزت نفس مجروح کئے بغیر انہیں رزق حلال کمانے کے راستے اور ذرائع بتائے جائیں،لیکن پولیس کی مشابہت کی یونیفارم پہنے اس فورس کو شائد ایسے اختیارات عطا کر دئیے گئے جن کی بنیاد پر اس فورس کا ایک سپاہی بھی اپنی ریاست طاقت صرف بے آواز طبقہ کو سربازار بے توقیر کرنے کے لئےاستعمال کرنا اپنا قانونی حق تصور کرتا ہے۔ اس "فورس" کی جانب سے آئے روز ایسے کئی بے سہارا اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کے باوجود زرق حلال کے لئے سرگرداں لوگوں کو لب سڑک بے عزت ہوتے اور انہیں گھسیٹ کر ڈالوں میں پھینکنے کے مناظر پر مبنی کئی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی دیکھی جا سکتی ہیں۔گزشتہ دنوں لاہور کے ایک مصروف بازار کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک نوجوان کو "پیرا فورس" کی گرفت میں اس انداز میں دکھایا گیا جیسے پولیس کی اینٹی ٹیررسٹ فورس نے عین اس وقت گرفت میں لیا ہے جب وہ نوجوان دہشتگردی کی واردات کررہا تھا تاہم بڑی تعداد میں لوگ یہ جاننے کے لئے اکٹھے ہو گئے اسے کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے، اس ہجوم میں موجود ایک وی لوگر خاتون نے ہمت کرکے نوجوان کی گرفتاری کے بارے میں استفسار کیا تو پیرا فورس کے آفیشل نے فخریہ انداز میں جواب دیا کہ "ملزم" شولڈر سلنگ یعنی اپنے کندھے پر لنڈے کے پرانے کپڑے بیچنے رہا تھا۔کیا ایسا جرم کر رہا ہے جس سے وہ مہنگائی میں اضافے یا دہشتگردی کا سبب بن رہا ہے اور وہ ان جرائم کی پاداش میں سرعام بے توقیر کئے جانے کا سزاوار ہے۔

یہ درست کہ اس بات سے قطع نظر کہ غربت کی شرمناک سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والے ہر شہری کو اپنے بچوں کو حلال کا لقمہ مہیا کرنے کے لئے کن کن دشواریوں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ریاستی طاقت کے زور پر"عوام کی اصلاح" کے "ذمہ داروں" کی اصلاح اور تربیت ان کی بنیادی ٹریننگ کا اہم جزو ہونا چاہیئے تھا لیکن سڑکوں اور بازاروں میں بکھرے ہوئے کارناموں پر مبنی وائرل ہونے والی وڈیوز اس فورس کی غلط تربیت کی نشاندہی کرتی ہیں اور ان کو عطا کئے گئے اختیارات مستقبل میں حکومت کی مقبولیت کو "Revers" کرنے کے لئے کافی ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین