• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دنیا بھر میں معذور افراد کا عالمی دن منایا جا رہا ہےمگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تقریباً ساڑھے تین کروڑ معذور افراد، جنہیں اسپیشل پرسن کہا توجاتا ہے مگر سمجھا بالکل نہیں جاتا، کیساتھ حکومت ،معاشرے اداروں اور اپنوں کا سلوک انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں 78سال گزرنے کےباوجودمعذور افراد کو معاشرے پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے انکی حیثیت ایک بھکاری سے زیادہ نہیں یہی وجہ ہے کہ انکا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔معذور افراد کو ہم سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگتے ہی دیکھتے ہیں۔کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے معذور نہیں ہوتا بلکہ پیدائشی طور پر یا کسی حادثے کی وجہ سے معذوری اس کا مقدر بنتی ہےمگر ہمارے معاشرے میں معذوروں کو حقارت بھری نظروں اور لوگوں کی تلخ باتیں اور سخت جملے برداشت کرنا پڑتے ہیں۔معذوروں کے ساتھ امتیازی اور ظالمانہ سلوک انکے گھر سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے سے ہوتا ہوا حکومتی سطح تک جاتا ہے معذور افراد کو گھر میں بھی قبول نہیں کیا جاتا، ان کوحالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے بس بھیک مانگنی ہے، اگر کسی گھر میں معذور بچہ ہو تو والدین اسکی تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اوراس کو گھر کے کونے میں پھینک کر اس کی موت کا انتظار کیا جاتا ہے۔ بالکل یہی رویہ ہمارے معاشرے میں ہر طرف نظر آتا ہے کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ ان کیلئے کوئی سہولت یا آسانی پیدا کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا، اگر کسی معذور کو اپنے کسی مسئلےکیلئے کسی سرکاری دفتر یا ادارے میں جانا پڑ جائے تو اس کے ساتھ بھکاریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، پورے ملک میں کہیں بھی معذوروںکیلئے بنیادی سہولیات موجود نہیں، کسی دفتر کسی ادارے کسی سرکاری یا پرائیویٹ بلڈنگ میں ویل چیئرکیلئے راستے موجود نہیں، چھوٹے بڑے شاپنگ سینٹرز،پلازے، ہوٹل اور ریسٹورنٹ کہیں بھی ویل چیئر افراد کو لے جانے کا انتظام نہیں۔ ریلوے ہو یا پرائیویٹ بسیں ویگنیں کہیں بھی ویل چیئر کی رسائی نہیں ۔کہیں کوئی ایسا کلچرل سنٹر، پارک ، تفریح گاہ،سینماگھر،تھیٹریا کوئی اور جگہ نہیں جہاں معذورافراد اپنی ویل چیئر پر باآسانی جاسکیں۔ آخر یہ بنیادی اور ضروری سہولیات کب ملیں گی۔ہاں،حال ہی میں حکومت پنجاب کی طرف سے کچھ سہولیات دی گئی ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں دراصل جب کوئی بھی انسان کسی طرح کی معذوری میں مبتلا ہوتا ہے یا وہ معذور پیدا ہوتا ہے تو حکومت کی ذمہ داری ہے تو اس کیلئے وسائل پیدا کرے اسکی ری ہیبلی ٹیشن کا اہتمام کرے۔پورے پاکستان میں ایک بھی ایسا بڑاری ہیبلی ٹیشن سنٹر موجود نہیں جہاں معذورافراد کی مکمل بحالی ہو، انہیں یہیں پرمختلف ہنر سکھاکر روزگار فراہم کیا جائے اور انہیں معاشرے کا باعزت شہری بنایا جاسکے۔اجتماعی سطح پر نہ سہی انفرادی سطح پر جو معذور افراد اپنی زندگی کامیاب بنانے کیلئے اور دوسروں کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیںکسی حکومت نے آج تک انکی بھی حوصلہ افزائی نہیں ، کچھ شخصیات معذورہونے کے باوجود ایسے ایسے کارنامے سرانجام دے رہی ہیںکہ وہ نہ صرف معذوروںبلکہ نارمل افراد کیلئے بھی حیرت انگیز مثال ہیں،انکی زندگی کی جدوجہد سے ہر ایک کو حوصلہ، موٹیویشن اور عزت کے ساتھ آگے بڑھنے کا سبق ملتا ہے مگر یہاں انکی حوصلہ افزائی تو درکنار حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔جسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ 77سال میں پہلی بار ایک معذور کو سول ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا تھا، حکومت کی قائم کردہ پانچ کمیٹیوں نے اس کا نام سول ایوارڈ کیلئے فائنل کردیا اور آخر میں یہ نام حتمی منظوری کیلئے ایوانِ صدر اور وزیراعظم آفس گیاآخری وقت تک یہ نام اس سول ایوارڈ کی فہرست میں شامل تھا لیکن جب یہ فہرست میڈیا پر جاری کی گئی تواس معذور شخصیت کا نام اس میں سے غائب تھا ۔ اگر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارکسی معذور کی خدمات کے اعتراف میں سوفیصد میرٹ پر ایوارڈ دیا جا رہا تھا تواس سے پورے پاکستان کے معذوروں کو ایک حوصلہ اور موٹیویشن ملتی وہ بھی باعزت اور کامیاب زندگی گزارنے کیلئے اسی طرح جدوجہد کرتے لیکن اس شخصیت کا نام ایوارڈلسٹ نکال کر معذور کی بری طرح حوصلہ شکنی کی گئی ۔حکومت کو چاہئے کہ اجتماعی سطح پر ان کیلئے سہولیات پیدا کرے اورمعذوروں کو عزت اورباعزت روزگار فراہم کرکے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی طرف پہلا قدم اٹھائے،اگر معاشرے کے ان دُکھی افراد کی زندگی میں خوشحالی اور سہولتیںآئینگی تو اس کے پورے ملک پر خوشگوار اثرات مرتب ہونگے اور پورے ملک میں رحمتیں اور برکتیں آئیں گی۔ اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری ہمارے معاشرے کی یہ ہے کہ وہ معذور لوگوں سے محبت کریں انکو اس معاشرے کا باعزت شہری سمجھیں جہاں بھی کسی کو کسی طرح کی مدد کی ضرورت ہو ان کی مدد کریں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کیساتھ برابری کا سلوک کریں، ان کو محبت دیں ۔ حکومت اورمعاشرے کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ معذور افراد کو ان کے حقدیں ان کیساتھ محبت سے پیش آئیں۔

تازہ ترین