• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی یونین کے 7 رکنی مانیٹرنگ مشن نے گزشتہ دنوں GSP پلس ڈائریکٹوریٹ کے مشیر سرجیو بلیریا کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا۔ وفد میں یورپی کمیشن کے انٹرنیشنل افیرز کے پولیٹکل اور ٹریڈ کے سینئر ارکان شامل تھے۔ دورے کا مقصد یورپی یونین کی پاکستان کو دی گئی ڈیوٹی فری GSP پلس سہولت کیلئے اُن 27 کنونشنز پر عملدرآمد کا جائزہ لینا تھا جس پر پاکستان نے یورپی یونین سے GSP پلس سہولت حاصل کرنے کیلئے دستخط کئے تھے۔ وفد نے اپنے دورے میں وفاقی وزیر انسانی حقوق سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، وزیر تجارت جام کمال خان کے علاوہ 24 نومبر کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) میں پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندوں سے کراچی میں ملاقاتیں کیں۔ قومی اسمبلی کے رکن اور بزنس کمیونٹی کے نمائندے کی حیثیت سے مجھے خاص طور پر اس میٹنگ میں مدعو کیا گیا تھا۔ یہ میٹنگ پاکستان کیلئے نہایت اہم تھی کیونکہ یورپی یونین کے27 ممالک کیلئے ڈیوٹی فری سہولت کی تجدید کا دارومدار جائزہ مشن کو مطمئن کرنا تھا کہ پاکستان، یورپی یونین معاہدے کے 27 کنونشنز پر عملدرآمد کررہا ہے جبکہ مانیٹرنگ مشن نے پاکستان میں انسانی حقوق، جبری گمشدگیوں، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق، چائلڈ لیبر اور پھانسی کی سزاؤں پر اپنے تحفظات پیش کئے۔ اس کے علاوہ مشن نے لیبر قوانین، ماحولیات، گورننس، سیاسی عدم استحکام اور آزادی اظہار رائے کے متعلق بھی اپنے خدشات ظاہر کئے۔ یورپی یونین کے جائزہ مشن کے پاکستان میں پھانسی کی سزا پر تحفظات پر میں نے انہیں بتایا کہ ملک میں بڑھتی دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم کی وجہ سے 2024ء تک 6161 مجرموں کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں لیکن دسمبر 2019 سے اب تک کسی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی ہے بلکہ زیادہ تر پھانسی کی سزائیں عمر قید میں تبدیل کردی گئی ہیں۔ فیکٹریوں میں یورپی یونین کے چائلڈ لیبر سے متعلق تحفظات پر انہیں بتایا کہ عالمی خریدار پاکستان کی فیکٹریوں کا باقاعدگی سے آڈٹ کرتے ہیں جن میں چائلڈ لیبر اور کیمیکل فضلے کے ڈسچارج سے پہلے ٹریٹمنٹ لازمی ہوتا ہے اور اس پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں غیر ملکی خریدار نہ صرف اپنے آرڈرز منسوخ کردیتے ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کے جرم میں ان فیکٹریوں کو بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے لہٰذا ہماری ایکسپورٹ انڈسٹریز چائلڈ لیبر اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے عالمی قوانین کی سختی سے پابندی کررہی ہیں۔ یاد رہے کہ یورپی یونین نے سری لنکا سے انسانی حقوق کی پامالی پر GSP پلس کی سہولت واپس لے لی تھی۔ چند روز قبل یورپی یونین کے سفیر رائمنڈوس کاروبلس نے بھی واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے تاکہ وہ اس اسکیم کی شرائط پوری کرسکے۔IMF نے بھی اپنی حالیہ گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ (GCD) رپورٹ میں پاکستان میں کرپشن اور گورننس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومت اور پارلیمنٹ دونوں کیلئے چارج شیٹ قرار دیا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قائمہ کمیٹی خزانہ کو گورننس، ٹیکسیشن، کرپشن، ریگولیٹری امور اور قانون کی بالادستی سمیت IMF کے 15 اہم مطالبات سے آگاہ کیا اور 31دسمبر 2025 تک ان پر عملدرآمد کا ایکشن پلان پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔GSP پلس سے میرا گہرا تعلق رہا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں وزیراعظم کے مشیر ٹیکسٹائل کی حیثیت سے میں نے یورپی یونین کو ایک نئی نظرثانی اسکیم پیش کی تھی جسکے بعد پاکستان GSP سہولت کا حقدار بناتھا۔ میرے دوست سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی GSP پلس سہولت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یورپی یونین (EU) نے 2014ء میں پاکستان کو 5 سال کیلئے ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی GSP پلس سہولت دی تھی جسے مزید 5 سال کیلئے بڑھا کر دسمبر 2023ء اور پھر 2027 تک کردیا گیا۔ GSP پلس کے تحت پاکستان کو یورپی یونین ایکسپورٹ پر ٹیکسٹائل سمیت 6300 سے زائد مصنوعات پر 9.6 فیصد (800 ملین یورو) کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی تھی جس سے پاکستان کو اپنے مقابلاتی حریفوں بھارت، ترکی، ویت نام اور چین پر ڈیوٹی فری سبقت حاصل ہوگئی جسکی وجہ سے پہلے 5سال میں یورپی یونین کو ایکسپورٹ میں 15 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ 2024 میں پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹ 9 ارب ڈالر جو پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹ کا تقریباً25 فیصد ہے جبکہ پاکستان کی یورپی یونین سے امپورٹ 3.2 ارب ڈالر ہے، اس لحاظ سے ہماری مجموعی تجارت 12.3 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان نے GSP پلس سہولت سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی یورپی یونین ایکسپورٹ میں یقیناً فائدہ اٹھایا اور 2014 سے 2022 تک ہماری یورپی یونین ایکسپورٹ میں سالانہ تقریباً6 ارب ڈالر اور مجموعی طور پر 108 فیصد اضافہ ہوا لیکن ہم ایگریکلچر، فشریز، اسپورٹس، سرجیکل گڈز، آئی ٹی، کینو اور آم کی یورپین مارکیٹ میں جگہ نہیں بناسکے۔ میں نے یورپی یونین جائزہ مشن سے درخواست کی کہ وہ پاکستان سے سی فوڈز ایکسپورٹ پر پابندی ہٹائے تاکہ پاکستان عالمی حفاظتی قوانین کے مطابق یورپی یونین کو سی فوڈز ایکسپورٹ کرسکے۔

میں نے اپنی تقریر میں یورپی یونین جائزہ مشن کا اپنے ایکسپورٹرز کی جانب سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کی پاکستان کو دی گئی ڈیوٹی فری سہولت سے ایکسپورٹ میں اضافے کے باعث ہم نئی ملازمتیں دے سکے اور نوجوانوں کو دہشت گردی سے دور رکھا جس سے ملک میں غربت میں کمی آئی لہٰذا پاکستان کیلئے GSP پلس سہولت کا جاری رہنا اشد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں میری 9 دسمبر کو جرمن سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن سے اسلام آباد میں ملاقات ہوگی جس میں ان سے GSP پلس سہولت کی تجدید کیلئے جرمنی کی سپورٹ کی درخواست کرونگا۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے اور یورپی یونین سے ڈیوٹی فری سہولت واپس لینے کی صورت میں پاکستان کی یورپی یونین ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہوگی جس کا ملک موجودہ حالات میں متحمل نہیں ہوسکتا۔

تازہ ترین