’’مَیں تو ہر ایک سے بھلائی کی کوشش کرتی ہوں، لیکن مجھےصلہ ہمیشہ بُراہی ملتا ہے…‘‘، ’’کل شازیہ مجھ سے فِری ہونے کی بہت کوشش کر رہی تھی، یقیناً کوئی کام ہوگا مجھ سے۔‘‘، ’’فرح بھابھی تو میرے آگے بچھی جارہی تھیں۔ دراصل اب اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہ رہی ہیں، تو یقیناً میرے بیٹے پر نظر ہوگی اُن کی…‘‘، ’’عافیہ کو دیکھا ہے، دن بہ دن موٹی ہو رہی ہے۔
نہ جانے کون سی خوشیاں مل رہی ہیں کہ پھیلتی ہی چلی جارہی ہے۔‘‘،’’ہماری تو بھئی، ماشاءاللہ پوری فیملی پنج وقتہ نمازی، تہجّد گزار ہے، پڑوسیوں کو کبھی سجدہ کرتے نہیں دیکھا، تو اللہ نے پکڑ توکرنی ہی تھی ناں اُن کی۔‘‘، ’’سرجی! راشد کو رتّی بھر کام نہیں آتا۔ سب مجھ سے پوچھ پوچھ کر کرتا ہے اور پھر بھی ترقّی اُسی کی ہوگئی۔‘‘
مذکورہ بالا جملے اور اِن سے ملتے جلتے دیگر کئی کلمات ہمیں روز ہی اپنے گھر، خاندان اور دفاتر میں سُننے کو ملتے ہیں۔ دراصل ایسی باتیں کرنے والے مَرد و خواتین فطری طور پر منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ اپنی اِس منفی سوچ کے سبب خُود بھی ہمہ وقت ذہنی اذیّت کا شکار رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف، پریشانی میں مبتلا رکھتے ہیں۔
درحقیقت ایسے افراد صرف فساد برپا کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور ہر خاندان، محلے اور دفتر میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ آپ اِن لوگوں کے ساتھ چاہے کتنا ہی اچّھا برتاؤ اور بھلائی کیوں نہ کرلیں، یہ ہر معاملے کاکوئی نہ کوئی منفی پہلو ضرور ڈھونڈ نکالتے ہیں اور آپ اکثر یہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ایسا تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، جو انہوں نے سمجھ لیا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتاہے، یہ لوگ ہرایک ہی کے لیے مُہلک ہوجاتے ہیں۔ اِن کی موجودگی دوسروں کو بےچین کرتی ہے، اِن کے کسی جگہ ہونے سے سارا ماحول بوجھل ہوجاتا ہے۔
اب ذرا غور کریں، کہیں یہ عیوب آپ میں بھی تو نہیں پائے جاتے اور اِس بنا پر لوگ آپ سے اپنا دامن بچانے کی کوشش تو نہیں کرتےیا آپ جہاں جاتے ہیں، لوگ وہاں سے رفوچکر ہونے کا تو نہیں سوچنے لگتے۔ اگر ایسا ہے، تو آپ کو فوری اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے، تو آپ یقیناً نسبتاً بہترانسان ہیں۔
ویسے آپ غورکریں، تو اندازہ ہوگا کہ عمومی طور پر ہمارے اطراف ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں، جن کی موجودگی سے ماحول میں کشیدگی، قنوطیت محسوس ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں، نیگیٹو وائبز آنے لگتی ہیں، تو پھر فوری ہوش یار ہوجائیں، کیوں کہ ایسے لوگ کسی وبا کی طرح ہوتے ہیں، جو اپنے اطراف موجود لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لےلیتی ہے اور اُس کے اثرات اردگرد موجود سب ہی لوگوں پر مرتّب ہونے لگتے ہیں۔
یہ افراد اپنے آس پاس موجود لوگوں کو ہرایک سے متنفّر کرنے کا کام بھی بڑی دل جمعی سے کرتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں چاہتے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے بارے میں کچھ مثبت سوچے۔ انہیں اپنی لفّاظی، لچّھےدار باتوں سے لوگوں کو گُم راہ کرنا بخوبی آتا ہے، یہاں تک کہ ان کی منفی باتوں سے متاثر ہونے والا شخص صحیح، غلط میں تفریق سے قاصر ہو جاتا ہے۔
کیا یہ منفی سوچ کے حامل افراد ہمیشہ کام یاب ہوتے ہیں؟ بالکل نہیں، کیوں کہ بہرحال ہر شر کا سَر کُچلنے کے لیےخیر موجود ہے۔ وقتی طور پر ایسے لوگوں کے دام میں کچھ سادہ لوح پھنس جاتے ہیں، لیکن جلد یا بدیر اُنہیں اٍس بات کا ادراک ہوہی جاتا ہے کہ منفیت پسند محض باتوں سے فساد پھیلانے کے درپے ہیں اور جب عقل آجاتی ہے، تو آہستہ آہستہ ایسے لوگوں سے دُوری اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں، دامن چُھڑانے لگتے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے، جب قنوطیت پسند خُود تنہا رہ جاتے ہیں۔
ایسے افراد کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اگر اِنہیں کچھ سمجھایا جائے، اِن کی غلطیوں کی نشان دہی کی جائے، تو یہ فوراً مظلوم بن جاتے ہیں کہ ’’چوں کہ ہمارے ساتھ ہمیشہ زیادتی وناانصافی ہوئی ہے، تو ہم ردِعمل کےطور پر یہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔‘‘
یہ اپنی غلطی کبھی نہیں مانتے۔ اِس لیے کوشش کریں، اگر آپ کے اطراف ایسے لوگ موجود ہیں، تو ایک حد تک ہی اُن کی اصلاح کی سعی کریں،کہیں ایسانہ ہو، اِس سعیٔ لاحاصل میں آپ خُود ان کے رنگ میں رنگتے چلے جائیں۔ علاوہ ازیں، ہمیشہ مثبت سوچیں اور مثبت سوچ رکھنے والوں ہی کی صحبت اختیار کریں، تاکہ اپنی زندگی کو بہتر، کارآمد بنا سکیں۔ یاد رہے، ہمیں یہ زندگی ایک ہی مرتبہ ملی ہے، لہٰذا اِسے اپنے اور دوسروں کے لیے آسان بنانے کی کوشش کریں۔
جب آپ دوسروں کے لیے اچّھا، مثبت سوچیں گے، تو ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ اللہ آپ کے لیے بھی آسانیاں پیدا نہ کرے۔ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ ہم جب بھی خلوصِ نیّت سے کسی کے کام آتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہماری راہ کی مشکلات کو آسانیوں، ہر تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے۔
زندگی میں کئی خوشیوں، آسانیوں کے ساتھ مشکلات، مسائل کا سامنا کِسے نہیں کرنا پڑتا کہ زندگی تو نام ہی اُتار چڑھاؤ، اونچ نیچ کا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ہم مثبت سوچ اور عمل کے ساتھ آگے بڑھیں، تو اللہ ایسے ایسے راستوں اور ذرائع سے مدد و نصرت فرماتا ہے کہ انسان خود دنگ رہ جاتا ہے، بےاختیار اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں بھی گمان ہوتا ہے، جیسے اللہ نے انسانوں کے رُوپ میں فرشتے بھیج کر مدد فرمائی۔ وہ فرشتے آئے، اپنا کام کیا اور چل دیے۔
جب بھی کوئی عمل انجام دیتے ہوئے ذہن میں صرف نیکی و بھلائی ہی ہو، تو ایسا ہو ہی نہیں سکتاکہ اُس کا نتیجہ اچّھا نہ نکلے۔ سو، اگر آپ خلوصِ نیّت سے کسی کی مدد کریں اور وہ آپ کو اُس کا صلہ بُرائی کی شکل میں بھی دے، تو قطعاً افسردہ اور مایوس نہ ہوں، کیوں کہ اللہ آپ کی نیکی ہی اپنے پاس نہیں لکھتا، اُس کا بہترین اجر بھی لکھ رکھتا ہے۔ آپ کی نیک نیّتی اور نیکی کے بدلے وہ آپ کو کب اور کتنی آسانی عطا فرمائے گا، یہ وہ ہی بہتر جانتا ہے۔
جب کہ اُس بدنصیب کے نامۂ اعمال میں نہ صرف گُناہ لکھ دیا گیا، بلکہ آئندہ کے لیے کوئی اُس سے بھی بڑی آزمائش رکھ دی گئی۔ درحقیقت انسان کوتاہ نظرہے، اُسے اپنی غلطیوں، کوتاہیوں کا جلد ادراک نہیں ہوتا، وہ اپنے گریبان میں جھانکنا پسند نہیں کرتا، الٹا اللہ سے شکوے شکایات کرتا رہتا ہے ’’اےاللہ! تُو نے میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا؟‘‘ اللہ رب العزت بہت رحیم و کریم ہے۔
وہ کبھی اپنے کسی بندے کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتا، حقیقتاً ہم جو بوتے ہیں، وہی کاٹتے ہیں۔ آج نیکی کا بیج بوئیں گے، تو کل بھلائی کی فصل کاٹیں گے۔ خدانخواستہ بدی کا بیج بویا، تو پھر کانٹے ہی سمیٹنے ہوں گے۔
اس لیے ہمیشہ یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنی شخصیت میں مثبت رویّوں، تعمیری سوچ اور نیک اعمال کو پروان چڑھائیں۔ ایمان افروز سرگرمیوں میں حصّہ لیں، مفید مشاغل اختیار کریں، اچّھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں اور ہررات سونے سے پہلے اپنا محاسبہ ضرور کریں کہ ہم نے دن بَھر میں کتنے اچّھے کام کیے اور کتنے بُرے۔ یہ طرزِعمل اختیار کرنے سے نہ صرف اپنی شخصیت کے سنوار ونکھار میں بہت مدد ملےگی، بلکہ اِس کے نتیجے میں گھر، گردو پیش اورمعاشرے میں بھی واضح بہتری آتی محسوس ہوگی۔
یاد رہے، منفی سوچ سب سے پہلے خُود اُس انسان کو ذہنی و جسمانی طور پر تباہ و برباد کرتی ہے کہ جو اُسے اختیار کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سےہمیشہ دُعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ہر قسم کے شر اور شرپسندوں سے محفوظ و مامون رکھے۔ آمین۔
ہو سالِ نو بہشت کا درپن خدا کرے…
سنڈے میگزین کا سلسلہ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘نہ صرف ایک دِل کی آواز، دوسرے دِل تک پہنچانے میں پُل کا کردار ادا کررہا ہے، بلکہ مختلف مواقع پر کئی خُوب صُورت، اَن مول رشتوں کے دِلی جذبات کی عکّاسی و ترجمانی بھی کرتا ہے۔
اب چوں کہ نئے سال کی آمد آمد ہے، تو اگر آپ اپنے پسندیدہ صفحے (ایک پیغام، پیاروں کے نام) کے لیے سالِ نو کی مناسبت سے کوئی بھی پیغام (شعر یا نثر کی صورت) بھیجنا چاہیں، تو ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کردیں۔
ایڈیٹر، سنڈے میگزین، صفحہ’’ایک پیغام، پیاروں کےنام‘‘
(سالِ نو ایڈیشن) روزنامہ جنگ، شعبۂ میگزین ،
اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ ، کراچی۔
یاد رہے، پیغام بھیجنے کی آخری تاریخ20دسمبر 2025ء ہے۔