• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: شائستہ اظہر صدیقی، سیال کوٹ

ماڈل: مہک

ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو، ڈی ایچ اے، لاہور

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

لفظ عموماً دھوکا دے جاتے ہیں، جیسے اِک چھوٹا سا لفظ ’’وچھوڑا‘‘۔ اس کا اختصار معنی جاننے کی دعوت تو نہیں دیتا، البتہ مفہوم صرف وہی دل، جان سکتے ہیں جن پر’’وچھوڑے‘‘ کبھی سایہ فگن ہوئے۔ پورے جہان کا بوجھ، صدیوں کی اداسی خُود میں سموئے اُس لمحے کے شاہد، جب دل کے اندر کوئی دروازہ آہستگی سے بند ہوا ہوگا۔ کپکپاتے لبوں سے سرسراتی ہوئی خُود کو بھی نہ سُنائی دینے والی دھیمی سی آواز، جس نے دُعا، دہائی یا شاید آخری خواہش کا رُوپ دھارا ہو، مگر خامشی کی اس آواز سے رُوح میں سناٹا سا درآیا۔ 

خُود میں سمٹ کر منظر سے غائب ہوجانے کی بےسُود خواہش کرنا اور اپنے من کی بچی کھچی پونجی کو یوں سمیٹنا، جیسے ٹھنڈمیں بیٹھا اِک مسافر ناکافی چادر میں چُھپ جانےکی کوشش کرتا ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں، ’’جدائی‘‘ایک حادثہ ہے۔دنیا کی نظرمیں یہ صرف ایک واقعہ ہو، پر جن پہ بیتے، وہی جانیں کہ یہ تو ایک سانحہ ہے۔ مسلسل رِستا ہوا زخم، جو وقت گزرنے کے ساتھ بھی نہیں بھرتا، البتہ تکلیف کو خاموش رہنا سِکھا لیتا ہے۔ 

دل کے اندر اجاڑ پن کا چھایا ہوا پورا موسم، جس میں ہر احساس پر گرتی برف، جذبوں کے دروبام پر خاموشی کی خزاں رقصاں اور دیکھتے ہی دیکھتےخزاں کا بڑھ کرایسی سردرُت میں تبدیل ہوجانا، جس میں کوئی رنگ، آواز، خوشبو، پیغام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی۔ 

بقول پروین شاکر ؎ ’’بچھڑا ہے جو اِک بار تو مِلتے نہیں دیکھا…اس زخم کو ہم نے کبھی سلتے نہیں دیکھا…اِک بار جسے چاٹ گئی دھوپ کی خواہش…پھر شاخ پہ اُس پھول کو کِھلتے نہیں دیکھا…یک لخت گرا ہے تو جڑیں تک نکل آئیں…جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا…کانٹوں میں گِھرے پھول کو چوم آئے گی لیکن…تتلی کے پروں کو کبھی چِھلتے نہیں دیکھا۔‘‘

ایک جیتا جاگتا انسان، کیسے’’بےدرد دسمبر‘‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے کہ دسمبر کا وچھوڑا تو پانی بھی نہیں مانگتا۔ دسمبریں راتیں اپنے ساتھ کیا کچھ نہیں لاتیں۔ خلفشار، احتساب، پچھتاوے، بچھڑنے والوں کے لمس، لفظ، چہرے، خوشبو، ماضی اور اپنے ہی قدموں کےنشاں۔ گزرے وقتوں کو پھر سے جینا کہ کون سا لمحہ، کب بگڑ گیا، کس بات نے دُوری بڑھا دی تھی اور کب وہ پہلا دن تھا، جب دل کے اندر برف جمنا شروع ہوئی تھی۔ اِس آخری ماہ کے تو دن بھی سنجیدہ، نم اور ہوا میں تیرتی اداسی لیے طلوع ہوتے ہیں۔ زندگی کے سب کام بظاہر روزمرّہ طریقے سے نمٹتے ہیں، مگر ’’وچھوڑے کے ڈسے‘‘ دل یہ جانتے ہیں کہ یاد کی پگڈنڈیاں زوال کے سارے رنگ لیے میپل کے پتوں سے اٹ چُکی ہیں۔

یہ میپل بھی ناں، اُسی وقت جوبن پر آتے ہیں، جب دل، جذبات خزاں رسیدہ ہوچُکے ہوتے ہیں۔ ویسے اِن گرتے پتوں اور دسمبر میں بَھری جانے والی سِسکیوں میں ایک قدر تو مشترک ہےکہ دونوں کی آواز کوئی نہیں سُنتا۔ مگر وقت کے بھی اپنے ہی تقاضے ہیں کہ مَن کی دنیا پر جو کچھ بھی بیتے، تن کا حال شادہی لگنا چاہیے۔ 

جیسے میپل کا ہر گرتا پتّا، بچھڑتی یاد یا ٹوٹے احساس کا استعارہ بننے کے باوجود زمین کی طرف اپنا آخری سفر پوری شان اور وقار سے کرتا ہے، ایسے ہی ہم انسانوں پر بھی لازم ٹھہرا کہ دسمبر کے وچھوڑوں کے ڈنک دل میں چُھپائے خوش پوشاکی سے اپنا مان، وقار برقرار رکھیں۔ وہ کیا ہے کہ؎ نہ جذبات سے یہ سفر طے ہوا…نہ دل سے کبھی یہ زباں تک گئے…کہ حاصل یہی موسموں کا رہا…بہاروں کے پتّے خزاں تک گئے۔

چلیں، اب بزم پہ بھی اِک نگاہِ خاص ڈالے لیتے ہیں۔ گہرے سبز رنگ کی قمیص، شلوار پر سفید دھاگے کی نفیس کڑھت اور دامن پر پھول پتّوں کی باریک ڈیزائننگ کے ساتھ آستینوں، دامن پر سفید لیس کیسا باوقار، تہذیبی رنگ دیتی نظر آرہی ہے۔ را سلک فیبرک میں سیاہ رنگ کی سادہ شلوار قمیص کے گلے اور دامن کے دونوں اطراف ہلکے گلابی پھولوں کی کڑھت تازگی سی دیتی معلوم ہورہی ہے، تو ہم رنگ شیفون دوپٹے کے کناروں پر خُوب صُورت کٹ ورک پیٹرن میں گلابی ہی پھولوں کی کڑھت مزید نفاست پیدا کررہی ہے۔ پِیچ رنگ کے لباس پر ہم رنگ باریک دھاگے کا کام روشنی پڑنے پرمدھم سی چمک کا شائبہ دیتا ہے۔

گلے کا ڈیزائن گرچہ سادہ مگر ترتیب کے ساتھ ہے، جب کہ ہلکی سی لیس اِس کی تکمیل کا اشارہ دے رہی ہے، پھر ٹراؤزر کے پائنچوں پر بھی دامن ہی کے آہنگ میں کٹ ورک اور کڑھت کا جلوہ ہے۔

نیلے رنگ کی قمیص پر گلابی، سبز رنگ پھول پتّوں کی کڑھت، بیل کی مانند اوپر سے نیچے کی طرف جارہی ہے، تو آستینوں پر جالی دار کام کے ساتھ گلابی پھولوں کی ہم آہنگی اور ٹراؤزر پر سنہری جیومیٹریکل ڈیزائن ہے، جس نے لباس کا حُسن دوآتشہ کر دیا ہے۔

باٹل گرین قمیص پر تیز گلابی اور سنہری شیڈزکا کام یک دَم توجّہ مبذول کرواتا ہے۔ آستینوں، دامن پر پھول نسبتاً بڑے سائز میں کاڑھے گئے ہیں، تو توازن کی برقراری کے لیے انہی رنگوں کے پھولوں کی ہلکی کڑھت گلے پر بھی موجود ہے اور اس لباس میں ٹراؤزر کا ڈیزائن سب سے منفرد ہے کہ نیچے کی طرف ہلکی سی کٹنگ سے جالی دار ڈیزائن اور اوپر پتلی لیس اور پھر پلیٹیں ڈال کر اُسے بےحد اسٹائلش لُک دے دیا گیا ہے۔