گزشتہ برس دنیا میں اسلحے کی فروخت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ ایک سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیز نے679 ارب ڈالرز کا اسلحہ فروخت کیا، جو پاکستانی روپے میں 1830کھرب روپے بنتے ہیں۔ اب ذرا اِس کے مقابلے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں پر نظر ڈالیں، جو اِس وقت سری لنکا، تھائی لینڈ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک بُھگت رہے ہیں، جب کہ دوسری طرف، امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں برف باری نے زندگی مفلوج کر رکھی ہے۔
موسمیاتی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ہر سال چار ٹریلن ڈالرز درکار ہیں، جب کہ اسلحے کی خریداری پر سالانہ2.5 ٹریلین ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں۔ جب کہ ہم نے ابھی اُس غربت کا تو ذکر ہی نہیں کیا، جس سے اربوں انسان بھوک وافلاس اور بیماریوں کی زَد میں ہیں۔ حالیہ برس جنگوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں رہی۔
اسلحے کی فروخت سے حاصل ہونے والی یہ رقم صرف ایک سو بڑی کمپنیز تک محدود ہے، جب کہ چھوٹی کمپینز نے بھی خاصے پیسے کمائے۔ یہ اعداد وشمار اُس عالمی تحقیقی ادارے نے جاری کیے، جو اسٹاک ہوم انٹرنیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔’’ سپری‘‘ کے مطابق اسلحے کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم پچھلے سال کے مقابلے میں5.9 فی صد زیادہ ہے۔
اِس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بڑی اور اسلحہ فروخت کرنے والی طاقتیں، جو بظاہر امن، امن کی رَٹ لگائے رکھتی ہیں ہیں، درحقیقت دنیا بَھر کے لوگوں کے ساتھ کس قسم کی ریا کاری یا دھوکا دہی میں مصروف ہیں۔ اُنہیں بس سرمایہ چاہیے، خواہ وہ انسانی لاشوں کے کاروبار ہی سے کیوں نہ ملے۔
کیا یہ اعداد وشمار اِس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا امن کی طرف جارہی ہے؟ ہرگز نہیں۔ باقاعدہ جنگیں ہوں، جیسے یوکرین یا غزہ کی لڑائیاں یا پھر دہشت گردی کی کارروائیاں، اُن میں گولا بارود اور اسلحہ تو اِنہی کمپنیز کا استعمال ہوتا ہے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف تو امن کے لیے حکمتِ عملی تیار کی جاتی ہے، کانفرنسز ہوتی ہیں، اجلاس ہوتے ہیں اور دوسری طرف، جنگ کے لیے کُھلے عام ایندھن فراہم کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دو عالمی جنگوں نے دنیا، خاص طور پر طاقت وَر ممالک کو انسانیت کا سبق پڑھایا، انسانی حقوق کی پاس داری کی راہیں کھولیں، امن کے راستے وا کیے، مگر عملاً ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہم اُس وقت حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جب اسلحہ فروخت کرنے کے لیے نمائشیں لگتی ہیں۔ کیا یہی انسانیت کی فلاح کی راہیں ہیں؟
اِس کا جواب اُنہی ممالک کے پاس ہوگا، جو ڈپلومیسی یا سفارت کاری کی باتیں تو کرتے ہیں، لیکن اُن ممالک اور گروپس کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں، جنہیں مارنے مرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ اگر افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپس کے پاس مالیاتی وسائل نہیں ہیں، تو وہ دہشت گردی کے لیے اسلحہ کیسے خریدیں گے؟اِس سوال کا جواب اِس عفریت کے خاتمے کے لیے کافی ہے۔
امریکا اسلحہ مارکیٹ کا سب سے بڑا تاجر رہا ہے۔ گزشتہ برس امریکا کی39 ڈیفینس کمپنیز کی مجموعی آمدنی بڑھ کر334ارب ڈالرز ہوگئی، جو عالمی اسلحے کی فروخت کا تقریباً نصف ہے، جب کہ یورپ میں بھی اسلحہ سازی اور فروخت میں ریکارڈ اضافہ نوٹ کیا گیا۔ یورپی کمپنیز کی آمدنی13 فی صد اضافے کے ساتھ،151 ارب ڈالرز تک جا پہنچی۔حیرت کی بات ہے کہ چیک سلووک گروپ کا اضافہ سب سے نمایاں رہا، جو 9فی صد ریکارڈ کیا گیا۔
یہ وہی مُلک ہے، جو تیس، چالیس سال پہلے امن کی بھیک مانگتا رہا کہ وہاں خانہ جنگی میں بے تحاشا ہلاکتیں ہو رہی تھیں اور اب اُسی مُلک نے اسلحہ بیچ کر3.6 ارب ڈالرز کمائے۔ اِس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ یورپ تیزی سے فوجی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے، جس کے ذمّے دار بہرحال روس کے صدر پیوٹن بھی ہیں، جو چار برس سے یوکرین میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، جسے یورپی ممالک دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا فوجی تصادم قرار دیتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ اسلحے کی خریداری اور فروخت کا ایک بڑا مرکز بن گیا ہے کہ اِس کی نو کمپنیز پہلی مرتبہ’’ سپری‘‘ کی ٹاپ100 کمپنیز میں شامل ہوئیں۔ ان کمپنیز کی آمدنی31 ارب ڈالر رہی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں14فی صد زیادہ ہے۔ اِس ضمن میں اسرائیل نے سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کیا اور اُس کی آمدنی میں 16 فی صد اضافہ ہوا۔ اِس طرح یہ خطّہ صرف اسلحہ خریدتا ہی نہیں، فروخت بھی کرتا ہے۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ وہی ممالک جنگ میں ثالث کا بھی کردار ادا کرتے ہیں، جو اسلحے کی فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔
ایک اہم بات یہ بھی کہ انڈوپیسیفک ریجن یعنی بحرالکاہل کے خطّے میں اسلحے کی فروخت میں کمی آئی ہے۔ چین جیسی بڑی طاقت نے ماضی کی نسبت دس فی صد کم اسلحہ فروخت کیا، حالاں کہ اس کی اسلحہ سازی کی صنعت جدید سے جدید تر ہوتی جا رہی ہے۔چین اِس سلسلے میں باقاعدہ تحقیقات بھی کر رہا ہے کہ آخر اُس کی فروخت میں کمی کیوں آئی؟
اسلحے کی مانگ بڑھنے کی بنیاد یوکرین کی جنگ، غزہ کی لڑائی، سوڈان کی خانہ جنگی، مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی اور کئی خطّوں میں عدم تحفّظ کا احساس ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی ملیشیاز اور خانہ جنگیوں تک محدود تھی، جس میں ایران، اسرائیل جنگ بھی شامل ہوگئی۔
افغانستان میں فعال دہشت گرد گروپس اور اُن کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا اثر زیادہ تر بلیک مارکیٹ کے ہتھیاروں کی فروخت پر ہوا۔ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں غیر یقینی فضا پیدا ہوئی، پھر پاک، بھارت کشیدگی میں اضافہ جنگ کی صُورت سامنے آیا، اِس سے بھی اسلحے کی اہمیت سامنے آئی۔
نیز، یوکرین کی جنگ گولا بارود، ڈرونز، بکتر بند گاڑیوں اور فضائی دفاعی نظام کی مانگ کی وجہ بنے۔ درحقیقت، تنازعات ہتھیاروں کی مانگ اور سپلائی کی سب سے بڑی وجہ بن رہے ہیں۔ ہر مُلک دفاع کے نام پر زیادہ سے زیادہ جدید اسلحہ جمع کر رہا ہے، لیکن مذاکرات کی میز پر جانے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسلحے کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اِن ممالک کے عوام منہگائی میں پِس رہے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے دفاعی بجٹ بڑھ رہے ہیں۔
موسمیاتی تباہ کاریاں اِن ممالک میں تباہی مچا رہی ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں کہ سارا بجٹ دفاع پر خرچ ہو رہا ہے۔ تنازعات کے نتیجے میں جنگ ہوتی ہے، جس میں اسلحے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسلحے کی خریداری سیاست کا رُخ بھی موڑ رہی ہے۔ فوجوں کی اہمیت سیاست پر حاوی ہو رہی ہے، اِسی لیے اسلحہ ساز کمپنیز اور فیکٹریز اِن ممالک کے لیے اہم ہوتی جا رہی ہیں۔
ہر وقت ایسی خبروں کی گونج رہتی ہے کہ فلاں مُلک کا فلاں سے لڑاکا طیاروں کا سودا ہوگیا، اُس ملک سے ائیر ڈیفینس سسٹم کی بات ہورہی ہے۔ جدید ترین ڈرونز اور میزائلز کے تجربات شہ سُرخیوں میں آرہے ہیں۔ نت نئے ہتھیار تیار کرنے والے ممالک اہمیت اختیار کر رہے ہیں، جس سے طاقت کے توازن پر بھی اثرات مرتّب ہو رہے ہیں، خاص طور پر عالمی امن کے ادارے بے اثر ہوتے جارہے ہیں۔
بیماریوں پر ریسرچ کے لیے پیسے نہیں، تعلیم کے بجٹ سُکڑ رہے ہیں اور ترقّی محدود ہورہی ہے۔ عالمی اداروں پر سے عوام کا اعتبار کم زور پڑ رہا ہے، جو امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ کئی دہائیوں بعد ایسا ہوا ہے کہ بہت سے خطّوں میں بیک وقت اسلحے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ مشہور مقولہ ہے کہ’’ جب سیاست دان ناکام ہوتے ہیں، تو فوجی جنرل اس خلا کو پُر کرتے ہیں۔‘‘
اسلحے کی ریکارڈ فروخت اِس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ڈپلومیسی یا سفارت کاری کم زور پڑ رہی ہے، لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں کہ سفارت کاری مکمل طور پر ناکام ہو چُکی ہے۔ اصل معاملہ یہاں آکر رُک جاتا ہے کہ بہت سے ممالک سفارت کاری کو پہلا نہیں، آخری حل سمجھتے ہیں۔ یعنی پہلے طاقت کا بھرپور مظاہرہ اور پھر بات چیت۔ لیکن وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہتھیاروں سے جنگ تو جیت سکتے ہیں، لیکن امن صرف بات چیت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
اِسی لیے ہر جنگ میں، چاہے کسی بھی فریق کی جیت یا ہار ہو، فیصلہ بات چیت ہی سے ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے ویت نام اور عرب، اسرائیل جنگوں کی مثالیں ہیں، جو کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کے نتیجے میں ختم ہوئیں۔ یاسر عرفات نے فلسطینی اسٹیٹ اوسلو مذاکرات ہی سے حاصل کی۔ حال ہی میں غزہ سیز فائر بھی امن معاہدے ہی سے ہوا۔ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا بھی دوحا معاہدے کا نتیجہ تھا۔
اِن سب سے چاہے کسی کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، لیکن بہرحال جنگیں تو بند ہوئیں اور انسانی بحران ٹل گئے۔ اب اگر سیز فائر یا امن معاہدوں کے بعد قومیں خود کو سنبھال نہیں پاتیں، ترقّی ان کی ترجیح نہیں بنتی، تو یہ کسی اور کا نہیں، اُن ہی کا قصور ہے۔ جو قومیں مظلومیت کو اپنا ہتھیار بنالیتی ہیں، اُن کے عوام ہمیشہ روتے ہی رہتے ہیں۔صدیوں اور ہزاروں سال کی دشمنیوں کو باعثِ فخر اور جنگ کی دلیل بناکر پیش کرنا قوموں کی تباہی کے مترادف ہے۔
ہتھیاروں کی بے تحاشا خرید و فروخت سے کئی ممالک میں ترقّی رکی ہوئی ہے اور انسانی مسائل کو جو توجّہ ملنی چاہیے، وہ نہیں مل رہی۔ آبادیاں بہت بڑھ گئی ہیں اور عوام بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں۔ دیکھا جائے، تو کسی بھی مُلک کے شہریوں کی سب سے بڑی خواہش بہتر معیارِ زندگی ہی ہوتی ہے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے، جب وافر مقدار میں فنڈز موجود ہوں اور وہ مُلک بیرونی قرضوں سے آزاد ہو۔
منہگا اسلحہ خریدنے کے لیے ایک تو بھاری قرض لینا پڑتا ہے، جس سے عوام کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر سُود دَر سُود کا سلسلہ نسلوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ معاشرے میں بہتری کے لیے تعلیم، صحت اور شہری سہولتوں کی فراہمی ضروری ہے۔ اب اگر سارا پیسا اسلحے کی خریداری ہی پر خرچ ہوجائے، تو اس سے حفاظت کا احساس تو شاید بڑھ جاتا ہے، مگر وہ امن دُور ہوجاتا ہے، جو ترقیاتی کاموں اور معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے ضروری ہے۔
دو عالمی جنگوں کے بعد جب یورپی اور جنوب مشرقی ایشیائی اقوام نے سبق سیکھ لیا، تو اُن کے ممالک خوش حالی اور بہتر زندگی کی مثالیں بننے لگے، جب کہ تنازعات سے دوچار ممالک کے عوام کے لیے یہ سب کچھ اب تک خواب ہی ہے۔ یہ سمندروں میں ڈوب کر اور انسانی اسمگلرز کو لاکھوں روپے دے کر اُن ممالک کی طرف فرار ہو رہے ہیں، جہاں اب اُنھیں خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔ ’’اسائلم سیکر‘‘ کا لفظ ایک گالی بن چُکا ہے۔
اگر یہی خوش حالی اپنے ہی ممالک میں مل جائے، تو پھر لوگوں کو یہ اذیت کیوں برداشت کرنی پڑے۔ اگر تنازعات جنگ کی بنیادی وجہ ہیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا پرانے تنازعات ختم نہیں ہوسکتے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ امن اور خوش حالی کا عزم ہی اِنہیں ختم کرسکتا ہے، کیوں کہ یہی وہ راہ دِکھاتا ہے، جس سے ہر فریق کی وِن، وِن پوزیشن ہو۔
تنازعات فوری طور پر تو ختم نہیں ہوسکتے، لیکن سفارت کاری ممالک کے درمیان وہ اعتماد پیدا کردیتی ہے، جس سے تنازعات کا حل نکالنا ممکن ہوجاتا ہے۔دنیا کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے، جس سے اسلحے کی دوڑ کم ہوسکے۔ اِس ضمن میں سب سے پہلے تو بڑی طاقتوں کے مفادات، امن سے ہم آہنگ کرنے ہوں گے نیز، اُنہیں چھوٹے ممالک کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنا چھوڑنا ہوگا۔ خوشی کی بات ہے کہ نوجوان نسل کو جنگ سے کوئی دل چسپی نہیں، وہ بہتر زندگی کو جنگ اور تنازعات پر ترجیح دیتی ہے۔
یہ عوامی دباؤ اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ نیز، عالمی امن کے فورمز مزید مضبوط اور قابلِ اعتماد بنانے ہوں گے۔ یہ کہہ دینا کہ فلاں فورم یا سلامتی کاؤنسل بالکل بے کار ہے، مسئلے کا حل نہیں۔ ایک کے بعد دوسرے فورمز کا قیام اور نئی نئی صف بندیاں عالمی امن کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
ہاں، اگر یہ فورمز اپنی طاقت، سرمایہ اور عزم تنازعات ختم کروانے پر لگائیں، تو یقیناً یہ بہت فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ آرمز کی کمی اور انہیں محدود کرنے کے کئی معاہدے موجود ہیں، جن پر اُن کی رُوح کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔ چھوٹے ممالک کے حُکم رانوں اور عوام کو اِس امر کا بخوبی احساس ہونا چاہیے کہ وہ امن سے جو کچھ حاصل کرسکتے ہیں، وہ ہتھیاروں کی طاقت سے ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا۔