آج بات ہوگی ایک بہت بڑے دکھ کی، اتنا بڑا دکھ کہ جس کا اندازہ نہ میں لگا سکتا ہوں اور نہ آپ لگا سکتے ہیں، کوئی بنی بشر بے انتہا بڑے دکھ کی شدت کا اندازہ نہیں لگا سکتا، سوائے اس شخص یا اشخاص کے کہ جن کو دکھ کے کھولتے ہوئے سمندر سے گزرنا پڑتا ہے۔ اتنا بڑا دکھ جھیلنے کے بعد آپ کی زندگی میں بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ آپ وہ نہیں رہتے جو کبھی آپ ہوا کرتے تھے۔لکھنے والے نے یا لکھانے والوں نے کراچی کے مقدرمیں لکھ دیا تھا کہ اگست انیس سو سینتالیس کے بعد کراچی کی سڑکوں سے گٹروں کے لوہی ڈھکن غائب کردیے جائینگے۔ سنا ہے کہ گٹروں کے ڈھکن برطانوی شہر برمنگھم سے بنکر آتے تھے، چونکہ میں لوہے کے ڈھکنوں کی برآمد اور درآمد سے کبھی وابستہ نہیں رہا، اسلئے میں تصدیق سے نہیں کہہ سکتا کہ سڑکوں پر گٹروں کو ڈھانکنے کے لیے لوہے کے ڈھکن کس برطانوی شہر سے بن کر آتے تھے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تب تک ہندوستانیوں نے لوہے کے ڈھکن بنانے کا ہنر سیکھا نہیں تھا۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ چوکور گٹروں کیلئے لوہے کے چوکور ڈھکن بیرون ملک سے بن کر آتے تھے۔ ڈھکن کافی بھاری بھرکم ہوتے تھے۔ دو، دو فٹ کی لمبائی چوڑائی میں بنے ہوئے ہوتے تھے۔ اگست انیس سو سینتالیس سے کراچی کی سڑکوں کے لوہی ڈھکن پابندی سے غائب ہونا شروع ہوئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کی سڑکوں پر چپے چپے پر بنے ہوئے گٹروں کے لوہی ڈھکن غائب ہونا شروع ہوگئے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد کراچی وہ شہر کراچی نہ رہا جو شہر کراچی اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ انگریز نے تقریباً ہوبہو چھوٹا سا لندن کراچی میں بنایا تھا۔ مطلب یہ کہ انگریز دور کے روڈ راستے اور خاص طور پر ایلفنسٹن اسٹریٹ اور وکٹوریا روڈ صدر پر بنی ہوئی عمارتیں لندن کی یاد دلواتی تھیں، چونکہ تب تک تعمیرات میں سیمنٹ، کنکریٹ اور بجری کا استعمال شاذو نادر ہی ہوتا تھا۔ اسلئے انگریز دور کی عمارتیں زیادہ تر کاری گروں کے ہاتھ سے تراشے ہوئے سرخ اور پیلے پتھروں کے بلاکوں سے بنتی تھیں۔ ہاتھ سے تراشے ہوئے پیلے پتھروں سے بننے والی انگریز دور کی آخری عالی شان عمارت این جے وی گورنمنٹ ہائی اسکول کی تھی۔ این جے وی ہائی اسکول کی عمارت سن انیس سو چھیالیس میں بن کر تیار ہوئی تھی اور اسکول کے استعمال میں آئی تھی۔ رتن تلاؤ گورنمنٹ پرائمری اسکول سے پرائمری تعلیم کے چار سال پورے کرنے کے بعد میں نے انیس سو چھیالیس میں این جے وی ہائی اسکول کے پہلے اسٹینڈرڈ میں داخلہ لیا تھا۔ سیکنڈری اسکول کے سات برس مکمل کرنے کے بعد میں نے انیس سو تریپن میں این جے وی ہائی اسکول سے میٹرک کیا تھا۔ مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میں این جے وی ہائی اسکول کی نئی عمارت میں آنیوالے طلبہ کے نئے بلکہ پیلے بیچ یعنی ٹولے یا جتھے میں شامل تھا۔این جے وی ہائی اسکول کی عمارت سندھ سرکار کو بہت اچھی لگی تھی۔ سندھ سرکار کو اسکول کا تیسرا فلور یعنی تیسری اور آخری منزل بہت اچھی لگی تھی۔ سندھ سرکار نے اسکول کی تیسری سطح یعنی تیسرے فلور پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا اور سندھ اسمبلی کیلئے مختص کرلیا۔ سندھ اسمبلی کی اپنی عمارت میں مرکزی حکومت لگتی تھی۔ اس وقت پاکستان کا دارالحکومت Capital کراچی تھا۔ عجیب ماحول ہوتا تھا کہ دو حکومتیں، یعنی سندھ حکومت اور مرکزی حکومت کراچی شہر سے چلتی تھیں۔ تب سے کراچی کی سڑکوں کے لوہے کے ڈھکن غائب ہونا شروع ہوئے تھے۔ بچے، بوڑھے گٹروں میں گرتے تھے اور مر جاتے تھے۔
میں یہی بات آپ کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ شہر کے بیچوں بیچ ڈھکن کے بغیر ابلتے ہوئے گٹر کراچی والوں کیلئے نئی بات نہیں ہے۔ جتنا پاکستان پرانا ہے، اتنے ہی بغیر ڈھکن کے گٹر ملک بلکہ بیرون ملک اپنی ساکھ رکھتے ہیں۔ کراچی میں نئے آنے والوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ سرخ بتی پر رواں دواں رہنا معمولی بات ہے۔ بس تم کراچی کے بغیر ڈھکن والے گٹروں سے بچتے رہنا، اپنا اتاپتا ہمیشہ جیب میں رکھنا تاکہ گر جانے کے بعد آپ کو گٹر سے نکال کر صحیح پتے پر آپ کو اپنے گاؤں بھیج دیا جائے۔ ایسا نہ ہوکہ چیچہ وطنی کی بجائے چوا سیدن شاہ یا ٹنڈو آدم کی بجائے آپ کو ٹنڈو باگو بھیج دیا جائے۔ ایسا اکثر خاص طور پر سندھ میں ہوتا رہتا ہے۔ حال ہی میں ایک لاوارث عورت فوت ہوگئی۔ دفن کردی گئی، دفن ہو جانے کے کئی روز بعد لاوارث عورت کے بے شمار وارث پیدا ہوگئے۔ کورٹ کچہری کو بیچ میں پڑنا پڑا۔ لاش قبر سے نکال کر پوسٹ مارٹم کروائی گئی، پتہ چلا کہ وہ عورت نہیں مردکی تھی۔دوبارہ بے چاری کو دفن کردیا گیا۔ وارثوں اور لاوارثوں کے درمیان جھگڑا طول پگڑ گیا۔ سرکار نے دوسری مرتبہ لاش قبر سے نکال کر سرکاری ڈاکٹروں سے پوسٹ مارٹم کروایا ۔ پتہ چلا کہ وہ عورت نہیں، مرد تھی۔ لاش دوسری مرتبہ دفن کردی گئی۔ وارثوں اور لاوارثوں کے درمیان بات بڑھ کر خون خرابے تک پہنچ گئی۔ سرکار نے تیسری مرتبہ قبر کشائی کروائی۔ لاش کا تیسرا مرتبہ سرکاری ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کیا، پتہ چلا کہ وہ لاش کسی عورت کی نہیں، کسی مرد کی تھی۔ سرکار نے غصہ میں آکر ایس ایچ او کو معطل کردیا۔ اب سرکار یہ چھان بین کررہی ہے کہ مر جانے کے بعد یا مار دیے جانے کے بعد ایک عورت کیسے مرد بن گئی۔ اب چھان بین اس بات کی نہیں ہورہی کہ عورت کو کس نے مارا اور کیوں مارا۔ اب چھان بین اس بات کی ہورہی کہ مر جانے والی عورت دفن ہوجانے کے بعد مرد کیسے بن گئی؟
آخر میں میری گزارش ماؤں سے ہے۔ میری ماؤں اور بہنوں آپ یہ امید مت رکھیں کہ بغیر ڈھکن کے گٹروں میں پچاس ہزار بچے اور بوڑھے گرکر اللہ سائیں کو پیارے ہوجانے کے بعد سرکار کھلے گٹروں پر ڈھکن لگوانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ آپ خود اپنے بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کریں۔ بے بس سرکار کو آپ بالائے طاق رکھ دیں۔ کراچی کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پچھلے ستر، اسی برسوں سے کراچی شہر کی سڑکوں سے گٹروں کے ڈھکن کون چراتا ہے۔ بس آپ کی سرکار نہیں جانتی کہ ڈھکن چور کون ہیں۔