ہماری زمین نظامِ شمسی کا ایک خُوب صُورت اور زندگی سے بھرپور سیارہ ہے، جو اپنی ابتدا سے آج تک مسلسل طبعی و ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ کبھی ہماری زمین برف سے ڈھک جاتی تھی، تو کبھی سبزے میں نہا جاتی تھی اور کبھی بتدریج تپتے ریگستان کا رُوپ دھار لیتی تھی۔
آج بھی ہم اپنے ارد گرد متواتر رُونما ہونے والی جو موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں، یہ بھی دراصل فطرت کا یہی پرانا چکر ہے، البتہ فرق یہ ہے کہ اب تبدیلی کی رفتار خطرناک حد تک تیز ہوگئی ہے اور اس تیزی کا ذمّے دار انسان خُود ہے۔ ماضی میں جب بھی زمین نے کروٹ بدلی، تو قدرت نے کبھی اسے یخ بستہ کر دیا اور کبھی دہکا دیا، مگر پھر اس کا ماحول اور موسم متوازن بھی ہوگیا۔
ماہرین کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلیوں کے یہ مختلف ادوار مختلف وجوہ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے۔ مثال کے طور پر آج سے 56ملین سال قبل ’’پیلیوسین ایوسین تھرمل میکزیمم‘‘ کا دَور تھا، جو کُرّۂ ارض کی تاریخ کا ایک غیر معمولی گرم دَور تصوّر کیا جاتا ہے۔
اس دَور میں صرف چند ہزار برسوں میں زمین کے درجۂ حرارت میں 8ڈگری کا اضافہ ہوا اور اس کی عمومی وجوہ ماہرین یہ بیان کرتے ہیں کہ اُس دَور میں زمین کی اندرونی آتش فشانی سرگرمیوں کے سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہت بڑی مقدار خارج ہو کرماحول کا حصّہ بنی۔
اس کے علاوہ سمندروں کے نیچے جمع میتھین گیس کے اخراج نے ’’گرین ہاؤس ایفیکٹ‘‘ میں بھی اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں کُرّۂ ارض پر موجود برف پگھل گئی، سمندر تیزابی ہوگئے اور بہت سی جان دار انواع ناپید ہوگئیں۔ اس کے علاوہ برفانی ادوار (Ice Ages) اور بین الگلیشیائی زمانے (Interglacial Periods) بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بنے۔
گزشتہ 26لاکھ سال میں زمین نے کئی بار برفانی اور گرم ادوار دیکھے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مختلف فلکیاتی تغیّرات (Astronomical Changes) کو سمجھا جاتا ہے، جن میں زمین کے مدار (Orbit) میں معمولی جھکاؤ، محور کی سمت میں تبدیلیاں اور سورج کی شعاؤں کے زاویے میں فرق وغیرہ شامل ہیں، جن کو بہ حیثیتِ مجموعی ماہرین ’’ملانو کووِچ سائیکلز‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔
آج سے تقریباً 9,000 تا5,000 سال قبل یہ دَور زمین کے لیے نسبتاً خوش گوار تھا۔ اس وقت زمین کا درجۂ حرارت معتدل، موسم سازگار اور فطرت متوازن تھی اور غالباً اس کا سبب اُس وقت سورج کی حدّت میں معمولی اضافہ اور زمین کے مدار میں ہلکی سی تبدیلی تھی۔
اس دَور ہی میں دریائوں نےبہنا شروع کیا، زراعت نےجنم لیا اور انسانی تہذیب نے قدم جمانا شروع کیے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ دَور میں ماضی کی نسبت موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار میں خطرناک حد تک اضافہ مشاہدے میں آرہا ہے۔ تاہم، اس وقت رُونما ہونے والی تبدیلیاں قدرتی نہیں، بلکہ انسانی سرگرمیوں کا شاخسانہ ہیں۔
آج صنعتوں میں حد درجہ اضافے سے فضا میں کاربن، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ جیسی گیسز کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ سے عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور درجۂ حرارت میں اضافے کے سبب قطبین پر جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے، سمندروں کی سطح بلند ہورہی ہے اور بے وقت کی بارشیں، خُشک سالی، جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات اور کیچڑ کے سیلاب مسلسل اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔
اگر یہی سلسلہ جاری رہا، تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے سر سبز گھنے جنگلات مستقبل میں بے آب و گیاہ ریگستانوں میں تبدیل ہو جائیں اور ریگستان لہلہاتے کھیتوں اور جنگلات کی صُورت اختیار کر لیں۔ لہٰذا، ہمیں آج ہی اس عالمی مسئلے کا کوئی پائے دار حل تلاش کرنا ہو گا، کیوں کہ اسی میں ہماری بقا ہے۔
موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں پر کئی ذرائع سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم اب بھی اپنی زمین کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور اس ضمن میں ہمیں فطرت سے لڑنے کی بجائے اس کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور اپنے جنگلات کی حفاظت کریں، کیوں کہ درخت ہی فضا کو صاف اور زمین کو ٹھنڈا رکھنے کا اہم ذریعہ ہیں۔
اس کے علاوہ ہمیں قابلِ تجدید توانائی کا استعمال بڑھانا ہو گا اور فطری ذرائع سے توانائی حاصل کرنا ہی ہمارے مستقبل کی ضمانت ہے۔ علاوہ ازیں، پانی و بجلی کے زیاں میں کمی لانی ہوگی اور بالخصوص نئی نسل میں ماحولیاتی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔ ہماری نوجوان نسل کو زمین کی اہمیت سمجھنی ہوگی۔
نیز، ہم سب کو قانونی اقدامات پر بھی توجّہ دینا ہوگی۔ مزید برآں، صنعتی فُضلے کے اخراج پر کنٹرول، پلاسٹک کے استعمال میں کمی اور قدرتی ذخائر کے تحفّظ کے ذریعے بھی اس اہم مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے، زمین میں خُود کو بدلنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے، مگر اب یہ تبدیلی اتنی تیز ہے کہ اگر ہم نےخُود کو نہ بدلا، تو شاید یہ کُرّۂ ارض ہمارے رہنے کے قابل نہ رہے۔ (مضمون نگار، سابق چیئرپرسن شعبہ جیالوجی، وفاقی اردو یونی ورسٹی، کراچی ہیں)