• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی بینکاری غیر سودی یا سودی و استحصالی؟

مصنّف: ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

صفحات: 304، قیمت: 1500 روپے

ناشر: فضلی سنز، 507/3، ٹیمپل روڈ، اُردو بازار، کراچی۔

فون نمبر: 2633887 - 0336

’’ پاکستان میں معیشت کو سُود سے پاک کرنے اور اسلامی بینکاری نافذ کرنے کا بہت غلغلہ ہے، لیکن سُود کی لعنت سے بچنے کا خواہش مند ایک مخلص مسلمان اِس بحر کی تہہ میں اُتر کر دیکھتا ہے، تو وہ اُس وقت چکرا کر رہ جاتا ہے، جب اُس کے سامنے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اسلامی بینکاری کے نام پر پھیلا ہوا کاروبار، سُودی نظام کے نقشِ پا پر چل رہا ہے۔‘‘ مصنّف کے اِن الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زیرِ مطالعہ کتاب میں اُنھوں نے مروّجہ اسلامی بینکاری سے متعلق کیا رائے یا موقف پیش کیا ہوگا۔

یہ کتاب چار حصّوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ حصّہ اوّل’’ سُود، حرمتِ سُود اور سُود کی تباہ کاریاں‘‘،’’اسلامی نظامِ معیشت- قرآنی تعلیمات/ اسوۂ حسنہؐ سے رہنمائی‘‘، ’’اسلامی بینکاری: مسائل و افکار- چشم کُشا حقائق‘‘، ’’معیشت سے سُود کا خاتمہ- 34 برسوں میں منفی پیش رفت‘‘، ’’ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق‘‘، ’’پُراسرار اور پریشان کُن حقائق‘‘ اور’’ سُود اور اعلیٰ عدلیہ کا کردار-ایک طائرانہ جائزہ‘‘ جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔

حصّہ دوم میں’’ سُودی نظام کو دوام بخشنے کا فیصلہ-تاریخ کا سیاہ دن‘‘، ’’اسلامی بینکاری کا مکمل نفاذ-معیشت اورسلامتی کے لیے خطرہ؟‘‘،’’ فیڈریشن ہاؤس کے اجلاس میں وفاقی شرعی عدالت کے غیر اسلامی فیصلے کی مکمل حمایت‘‘،’’اسلامی نظریاتی کاؤنسل-ہماری خط و کتابت‘‘،’’اسلامی بینکاری کی اساس-نفع و نقصان میں شراکت‘‘،’’اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ کے چیئرمین کو خط‘‘ اور’’26ویں ترمیم2004ء-غیر اسلامی، گہری سازش‘‘ جیسے عنوانات کے تحت اپنی آرا پیش کی گئی ہیں۔

حصّہ سوم میں’’اسلام کا نظامِ زکوۃ‘‘،’’شعبۂ بینکاری: کارکردگی کا تقابلی جائزہ‘‘، ’’اسلامی نظامِ معیشت-مسائل و افکار‘‘،’’معیشت کے کچھ اہم پہلو‘‘، ’’پاکستان اور آئی ایم ایف‘‘،’’فرینڈز آف پاکستان سے نیو گریٹ گیم تک کا سفر‘‘،’’مُلکی و بیرونی قرضے‘‘،’’تعلیم و صحت‘‘اور’’نائن الیون کے بعد امریکی بیانات، پالیسز اور ہمارے قومی مفادات‘‘ کے موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ حصّہ چہارم اِس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ اُس میں حاصلِ کلام اور سفارشات کے ضمن میں پوری گفتگو کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔ 

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ممتاز بینکار اور ماہرِ معاشیات ہیں۔30برس تک پاکستان، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے بینکس میں اہم عُہدوں پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اِس موضوع پر ان کی تین کتابیں اور500سے زاید مضامین شایع ہوچُکے ہیں، اِس لیے اِن کے اعتراضات یا اشکالات کو سرسری طور پر نہیں لیا جاسکتا۔ 

ایک موقعے پر اسلامی نظریاتی کاؤنسل کے چیئرمین، ڈاکٹر قبلہ ایاز کا بھی یہی کہنا تھا کہ’’ڈاکٹر صاحب کے تحفّظات نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات ختم کیے بغیر اسلامی بینکاری کا نفاذ ممکن نہیں۔‘‘جہاں تک ہم سمجھے ہیں، فاضل مصنّف اسلامی بینکاری اور غیر سودی بینکاری کو دو مختلف چیزیں قرار دیتے ہیں۔ 

اُن کے مطابق پورے معاشی نظام کو اسلامی نظامِ معیشت کے مطابق استوار کیے بغیر اسلامی بینکاری کا تصوّر تک محال ہے اور اِسی بنیاد پر اُنھوں نے مروّجہ اسلامی بینکاری کا جائزہ لیا ہے۔ یہ ایک حسّاس موضوع ہے کہ اسلامی بینکاری نظام کو مفتی محمّد تقی عثمانی سمیت عالمِ اسلام کے کئی جیّد علمائے کرام، اسلامی اسکالرز اور تحقیقی اداروں کی تائید و رہنمائی حاصل ہے۔

لہٰذا ساری صُورتِ حال وسیع پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف جدید تقاضوں کے مطابق معاشی سرگرمیاں جاری رہیں، تو دوسری طرف، اگر اسلامی تعلیمات کے تناظر میں کوئی سقم ہو، تو وہ بھی دُور ہوسکے۔

سنڈے میگزین سے مزید