• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: ثانیہ انور

ماڈل: پریسا

ملبوسات: عطوف فاطمہ

آرائش: Sleek by Annie 

کوارڈی نیشن: جرار رضوی

عکاّسی: ایم کاشف

لےآؤٹ: نوید رشید

قدیم یونانی فلسفی ہیراکلیطس(Heraclitus) سے منسوب قول "Everything is permanent except change" (تبدیلی کے علاوہ ہر چیز مستقل ہے) اس نظریے کی ترویج کرتا ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہے۔ وہ اپنے ایک اور قول میں، اِسی خیال کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’کوئی شخص ایک ہی دریا میں دو بار قدم نہیں رکھتا، کیوں کہ نہ تو دریا وہی رہتا ہے اور نہ ہی وہ شخص وہی رہ سکتا ہے۔‘‘ یعنی تبدیلی زندگی کی ایک ایسی مستقل حقیقت ہے، جو زندگی کے مسلسل بہاؤ اور عدم ثبات کی طرف ایک اشارہ ہے۔

جسے اقبال نے اپنے الفاظ یوں دیے کہ ؎ سُکوں محال ہے، قدرت کے کارخانے میں… ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں۔ درحقیقت انسانیت کا ارتقاء ہی تبدیلیوں کے ساتھ کام یاب موافقت کی بنیاد پر ہوا ہے اور اِسے قبول نہ کرنا الجھن اور پریشانی کا باعث ہوتا ہے، جب کہ تغیر کو قبول کرنا، نئے امکانات کے دروازے کھول دیتا ہے۔ انسان ہمہ وقت ہر طرح کی چھوٹی بڑی تبدیلیوں کا تجربہ کرتا رہتا ہے۔ صُبح کا شام میں ڈھلنا، رات کا دن میں بدلنا، بچپن کا جوانی اورجوانی کا بڑھاپے میں قدم رکھنا، سردی کاگرمی کی جگہ لے لینا وغیرہ۔

ایسےفطری بدلاؤ ہیں، جوہمارے عام مشاہدے میں ہیں۔ موسموں کا باقاعدہ آنا جانا، زندگی کی رُتوں کو منظم کرتا ہے۔ برق رفتاری سے گزرتے وقت میں اب دسمبر رخصت ہوا چاہتا ہے، سردی اپنے جوبن پر پہنچ رہی ہے۔ خنک ہوا اجازت لیے بغیر کمروں کے اندر تک در آئی ہے اور اِس تغیر پر خُوش گوار مسکراہٹ خُود بخود ہونٹوں پر پھیل جاتی ہے، ایسے میں صُبح کی نوخیزی کچھ اور زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ کبھی دل ایک دَم اُٹھ کر ٹھنڈی ہوا کو اپنے اندر جذب کر لینے پر مچلتا ہے، تو کبھی وہی دل سستی سے لحاف میں دُبکا رہنے کی صلاح دیتا ہے۔

جاڑے کے آنے پر دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کا منظرنامہ بدل گیا ہے۔ صُبح کی حسین دھوپ شہر کے بے رنگ و روغن درودیوار کو بھی جیسے اجال دیتی ہے۔ کھڑکی سے باہر دیکھو تو دُور پرے کے مکان ہرے درختوں کی اوٹ سے سنہری رنگ میں جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ پیلے، نارنجی پھولوں سے مناظر کو رنگین کرتے موسمی پودے گیندا، گل اشرفی اور سرمائی چنبیلی اپنی موجودگی کا احساس دِلارہےہیں۔ کہیں سویرے سویرے کپڑے دُھل کر لٹک بھی چُکے ہیں تو کوئی کمبل میں لپٹا کسمسا رہا ہے کہ کیوں کر اُٹھ کر باہر کی سردی کا سامنا کیا جائے۔

امتحانات کے بعد اسکولز کی چھٹیاں ہیں تو بچّے بھی سُکون کا سانس لے رہے ہیں کہ صُبح صُبح اٹھ کر اسکول جانے کی مشقّت میں وقفہ آگیا ہے۔ نئی فصل میں مٹر کے آنے سے’’آج کیا پکے گا؟‘‘ کا مشکل سوال مٹر پلاؤ، آلو مٹر اور قیمہ مٹر کی صُورت کسی حد تک حل ہوگیا ہے۔ کہیں یخنی اور سوپ کی فرمائش ہے، تو کوئی پائے، مچھلی، ساگ اور گاجر کےحلوے سے لُطف اندوز ہونے کا خواہش مند ہے۔ 

دوپہر میں نہانے کے بعد دھوپ میں بیٹھ کر کینو، مالٹے اور موسمی کا مزہ نہ لینا قریب قریب کفرانِ نعمت جیسے گناہ کے مترادف معلوم ہوتا ہے، تو کھٹے میٹھے لال قندھاری انار اور کالا نمک لگے امرود بھی جی للچاتے ہیں۔ گرم بھاپ اُڑاتی چائے کی پیالی یا ہتھیلیوں کو اپنی گرمائی سے سینک دیتا کافی کا مگ، تیزی سے اُتر آنے والی شام کی دل کشی کو مکمل کردیتا ہے۔

کبھی ٹھنڈی راتوں میں ڈرائی فروٹ بادام، انجیر، پستے، چلغوزے یاد آتے ہیں تو عوام گرم گرم مونگ پھلیوں اور گچک پر اکتفا کرلیتے ہیں، تو کسی کے سر پر سونے سے پہلے کھجور والا زعفرانی کستوری گرم دودھ پینے کی دُھن سوار ہے۔

پرانے محلوں میں پڑوسنوں کی گفتگو کا محور نئے بنوائے گئے لحاف میں پڑی روئی کے وزن کے گرد گھومنے لگتا ہے، تو کسی کو سرد موسم میں ایڑیاں پھٹنے، جِلد خشک اور بال روکھے ہونے کی فکر ستانے لگتی ہے اور کوئی موسم کی شدت میں طبیعت خرابی کا شکار ہو کر کھانسنے کے ساتھ ہر طرف سے کثیر تعداد میں ملنے والے تیر بہدف نسخوں، ٹوٹکوں پر بھی غور کررہا ہے۔ 

طبّی سائنس بھی تصدیق کرتی ہے کہ سردیوں میں دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے سورج کی روشنی کم ملتی ہے، جس سے بعض لوگ اداسی، سستی، تھکاوٹ، مزاج کی خرابی، ارتکاز کی کمی، بھوک اور وزن میں تبدیلی اور زیادہ نیند کا شکار ہوجاتے ہیں، اِسے SAD یعنی (Seasonal affective disorder) موسمی جذباتی عارضہ کہا جاتا ہے۔

روشنی میں یہ کمی بیشی وٹامن ڈی اورخوشی کنٹرول کرنے والے ہارمون سیروٹونن ( Serotonin) کی سطح بھی متاثر کرتی ہے اور درجۂ حرارت میں کمی کے وجہ سے اکثر لوگ باہر نکلنے،میل جول سے گریز بھی کرتے ہیں، تویہ طرزِعمل بھی نفسیاتی طور پر تنہائی اور اداسی کا سبب بن جاتا ہے۔

خیر، بڑھتی سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی نے اونی ٹوپیاں، موزے، بند جوتے پہن لیے ہیں، تو کسی نے مفلر زسے کان ڈھانپ رکھے ہیں، تو کہیں کوئی نت نئے سویٹرز، جیکیٹس اور منفرد شالوں کی تلاش میں ہے۔ جب سارا سال روایتی ملبوسات پہننے کے بعد طبیعت کچھ تبدیلی چاہے، تو ایسے میں، ہماری ماڈل کے عین موسم سے ہم آہنگ رنگ و انداز (پینٹ، شرٹس ، فراک، پیپلم، میکسی، کوٹ اور ڈینم) آپ کے لیے یقیناً ایک بہترین متبادل ثابت ہوں گے کہ یہ منفرد وجدید طرز پہناوے بظاہر سادہ ہونےکے باوجود بےحد اسٹائلش ہیں، تو بدلتے موسم سے بہت خُوب صُورتی کے ساتھ بھرپور مقابلے کی صلاحیت سے مالا مال بھی۔ تو کہیے، پھر کیا خیال ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید