• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے امریکی اسلحے کی واپسی، وقت کا اہم تقاضا

افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ وہاں رہنے والے دہشت گرد گروپس کُھلے عام پڑوسی ممالک میں خونی کارروائیاں کر کے اُنہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خصوصاً پاکستان میں افغان سرزمین سے آنے والے طالبان جنگ جوؤں نے خون ریزی مچا رکھی ہے اور طالبان عبوری حکومت سے بار بار مطالبے کے باوجود اُنہیں کنٹرول نہیں کیا جاسکا یا نہیں کیا جارہا۔ 

چیف آف ڈیفینس فورسز، فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اِسی لیے واضح طور پر افغان عبوری حکومت کو وارننگ دی کہ اُس کے پاس ایک ہی آپشن ہے، خوارج یا پاکستان۔ دوسرے الفاظ میں عبوری حکومت کو پاکستانی طالبان کی پُشت پناہی سے ہاتھ کھینچنا اور دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنا پڑے گا۔ دراصل افغانستان میں دہشت گرد طالبان کو اُس اسلحے نے بھی سہارا دیا، جو امریکا وہاں سے جاتے وقت چھوڑ گیا تھا۔

تازہ رپورٹ کے مطابق یہ اسلحہ 7.5ارب ڈالرز کا ہے، جسے ایک تو عبوری حکومت نے حاصل کیا اور پھر اِس بات کی اجازت دی کہ اسے پاکستانی طالبان بھی اپنے قبضے میں لے لیں اور دہشت گردی کے لیے استعمال کریں۔ نیز، یہ بلیک مارکیٹ میں بھی دست یاب رہا، جسے ایسے ہی دہشت گرد گروپس خریدتے ہیں۔ پاکستان، جو مسلسل افغان عبوری حکومت کو اِن دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کا کہہ رہا ہے، یہ خطّے کی بدلتی صُورتِ حال سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ 

مشرقِ وسطیٰ کی نئی اسٹریٹیجک صُورتِ حال سامنے رکھی جائے، تو واضح ہوجائے گا کہ اب ملیشیاز کا دَور گزرتا جارہا ہے۔ شاید ہی کوئی عالمی تنظیم ہو، جس نے ان پر پابندی نہ لگائی ہو، جن میں اقوامِ متحدہ سرِفہرست ہے، جو 193ممالک کا نمائندہ فورم ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک اِنہیں غیر مسلّح کرنے پر متفّق ہیں، کیوں کہ اُن کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ تنظیمیں سیاست کی زبان مشکل سے سمجھتی ہیں۔ یہ تنظیمیں، مسلم دنیا کے لیے بدنامی کا باعث ہیں اور اسلامو فوبیا کی ایک وجہ بھی کہ اِن کی دہشت گردانہ کارروائیاں مسلم تارکینِ وطن سے نفرت کا جواز بن جاتی ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی اِنہیں ہیرو بنانا چاہے، تو وہ لاعلم، نادان ہے یا پھر مذموم مقاصد رکھتا ہے۔

افغانستان کے’’ تعمیرِ نو پروگرام‘‘ کی نگرانی کرنے والے امریکی انسپکٹر جنرل کے ادارے کی طرف سے ایک تفصیلی رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے، جس میں افغانستان میں بیس سالہ امریکی دَور کے ایک ایک شعبے پر خرچ ہونے والے ڈالرز کی تفصیلات بتائی گئی ہیں، جو یقیناً امریکی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے حاصل کیے گئے۔ اِس دوران افغانستان میں مسلسل جنگی کیفیت رہی۔ امریکی رپورٹ کے مطابق، افغانستان کی تعمیرِ نو پر 144ارب ڈالرز خرچ کیے گئے۔ 

یاد رہے، افغانستان کی بربادی پہلی افغان وار سے شروع ہوئی، جس میں مجاہدین اور روسی حکومت برسرِپیکار تھے۔ روز وہاں روسی ٹینک اور طیارے بم پھینکتے اور شہر کے شہر اُجاڑ دیتے۔ یہ سلسلہ دس سال سے زیادہ چلا۔ روس نے تباہی مچانے کے بعد وہاں تعمیرِ نو کا کوئی کام کیا، نہ ہی اپنی اِس مسلّط کردہ جنگ پر ایک پیسا بھی امداد کے طور پر خرچ کرنے کی زحمت کی۔

سوویت یونین نے وہاں حکومتوں کے تختوں پر تختے اُلٹے اور سوشلسٹ نظام لانے کی کوشش کی، جسے ایک عرصے سے ظاہر شاہ کی پُشت پناہی کے ذریعے قائم کیا گیا تھا۔ ذہن میں رہے کہ ظاہر شاہ کی افغان حکومت بھی پاکستان کی کٹر مخالف اور بھارت کی دوست رہی۔ نام نہاد پختونستاں کا نعرہ اِسی حکومت کے دَوران پروان چڑھا۔ ڈیورنڈ لائن متنازع بنانے میں بھی اسی کا کردار تھا، جسے بعد میں ہر افغان حکومت، پاکستان کے خلاف استعمال کرتی رہی۔

اِس کے باوجود پاکستان نے مسلم برادر، افغانستان کے لیے اپنی پالیسی نرم کی، انہیں سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف جدوجہد میں سپورٹ کیا اور سب سے بڑھ کر70لاکھ افغان مہاجرین کو اپنی سرزمین پر اِس طرح بسایا کہ آج اُن کی دوسری، تیسری نسلیں کہتی ہیں کہ’’ہمارا تو سب کچھ پاکستان میں ہے۔‘‘وہ اپنے وطن جانے کو تیار نہیں۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں شاید ہی فی زمانہ کسی قوم نے دوسری قوم پر احسان کیا ہو، لیکن اِس احسان کا بدلہ جس شکل میں افغان عبوری حکومت دے رہی ہے، اُنہیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر شرم آنی چاہیے۔

امریکی رپورٹ کے مطابق تعمیرِ نو کے 144ارب ڈالرز میں وہ سات ارب ڈالرز کا اسلحہ بھی شامل ہے، جو 2021 ء میں امریکی فوج، افغانستان سے جاتے وقت چھوڑ گئی۔ صدر جوبائیڈن کو جانے ایسا کون سا مسئلہ درپیش تھا کہ وہ اچانک افغانستان سے نکل گئے، حالاں کہ دو سال تک دوحا مذاکرات ہوتے رہے، جس میں پاکستان نے سہولت کاری کی۔اِس معاہدے میں اِس طرح انخلا کی کوئی بات نہیں تھی،بلکہ ایسے اقدام کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جانا تھا۔ 

بائیڈن کی عجلت کی اِس پالیسی نے آج تک خطّے کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہوا ہے۔ یہ تقریباً وہی صُورتِ حال ہے، جب روس اچانک پہلی افغان وار سے دست بردار ہوا اور مُلک کو خانہ جنگی کے حوالے کرکے واپس چلا گیا۔ دندناتے اسلحہ بردار گروپ، ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے۔ نہ کوئی حکومت رہی اور نہ گورنینس۔اِسی طرح امریکی انخلا کے بعد افغان طالبان عبوری حکومت چلا رہے ہیں اور اِس عرصے میں اُنھوں نے نمائندہ حکومت کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھایا۔ 

دوحا معاہدے کی سب سے اہم شرط یہی تھی کہ عبوری طالبان حکومت، افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی، لیکن افغان سرزمین سے دہشت گری جاری ہے۔ اب دوحا، استنبول اور ریاض میں پھر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ افغان حکومت ایسے نازک موڑ پر بھارت کے ساتھ غیر معمولی تعلقات قائم کر رہی ہے۔ وہی بھارت، جو اِنہیں سب سے بڑا دہشت گرد کہتا رہا۔افغان عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ جو وقتاً فوقتاً پاکستانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ افغان پناہ گزنیوں کو وطن واپس نہ بھیجا جائے۔ 

عجیب منطق ہے، اپنے ہی بھائیوں اور افغان شہریوں کو آبائی مُلک آنے سے خود افغان روک رہے ہیں۔ سات ارب ڈالرز کا جدید اسلحہ اگر دہشت گرد تنظیموں یا طالبان جیسی غیر مستحکم حکومت کے ہاتھ لگ جائے، تو اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں، یہ خطّے کی طاقتوں پر عیاں ہوگا، تو اُنہیں بھی چاہیے کہ جب وہ خطّے سے امریکی انخلا کا مطالبہ کرتے تھے، تو اب طالبان عبوری حکومت پر بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالیں۔

خطّے کا امن تباہ کرنا کسی کے لیے بھی سود مند نہیں۔جنوبی ایشیا کو، جس میں پاکستان دوسرا بڑا پارٹنر ہے، غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش، علاقے کی بربادی اور ترقّی روکنے کا سبب بنے گی۔ چین نے پہلی افغان وار سے اب تک خود کو افغان معاملات سے دُور رکھا، تاہم اب وہ افغان طالبان سے مذاکرات بھی کرتا ہے اور اُن کے ساتھ تعلقات بھی رکھے ہوئے ہے۔ وہ خطّے میں ترقّی کا انجن ہے، لہٰذا اگر یہاں دہشت گردی بڑھتی ہے، تو اُس کی ترقّی پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوں گے۔

امریکی رپوٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ افغانستان میں سِول انفرا اسٹرکچر اور افغان نیشنل سیکیوریٹی کو مضبوط بنانے کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کیے گئے۔صدر ٹرمپ، بگرام بیس لینے کی بات کرتے ہیں، لیکن اُنہیں معلوم ہے کہ اس چھوڑے گئے اسلحے کی واپسی کا کوئی طریقہ نہیں۔

اِسے حالات کی ستم ظریفی کہیں، پاکستان کی غلط افغان پالیسی یا پاکستانی عوام کی سوچ و فکر کا سقم، اِس ساری افغان جدوجہد میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور اس کے عوام ہی کا ہوا۔ گو کہ سوویت یونین سکڑ کر روس بن گیا، لیکن پیوٹن اُسے اب بڑی طاقت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکا 6ہزار میل دُور بیٹھا رہا اور نائن الیون کا بھرپور انتقام لے چُکا۔ جب کہ طالبان کو حکومت میں لانے والے مُلک بے بس ہیں اور پاکستان کو تحمّل سے کام لینے کی نصیحتیں کر رہے ہیں۔ کوئی افغان طالبان کو یہ نہیں کہتا کہ ’’اب آرام سے بیٹھو، پاکستان کی کوششوں سے تمہیں حکومت مل گئی۔ کوئی کام اپنے مُلک وقوم کی بھلائی کے لیے بھی کر لو، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہو۔‘‘

طالبان کے کابل پر قبضے سے پہلے افغان فورسز کے پاس 162امریکی طیارے تھے، جن میں سے131 قابلِ استعمال ہیں، جو عبوری حکومت کے ہاتھ لگے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اِن طیاروں کو استعمال کرنے کی تربیت عبوری حکومت کے پاس نہیں، اِس لیے یہ بے کار ہیں، جب کہ کابل پر پاکستانی کارروائی میں یہ ثابت بھی ہوگیا۔امریکی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چار لاکھ، 27ہزار سے زائد ہتھیار اور17 ہزار سے زائد نائٹ ویژن ہیلمٹ ڈیوائیسز بھی افغانستان میں رہ گئیں۔

افغان طالبان ذرائع کے مطابق یہ اسلحہ اور آلات پاکستان سے جھڑپوں میں استعمال کیے گئے۔ اِسی رپورٹ کے مطابق، افغان فورسز کو 96ہزار گراؤنڈ کومبیٹ گاڑیاں اور51 ہزار سے زاید لائٹ ٹیکٹیکل وہیکلز فراہم کیے گئے۔ اس کے علاوہ، 23 ہزار ملٹی پرپز ہائی موبیلیٹی وہیکلز اور 900آرمرڈ کامبیٹ وہیکلز بھی افغان فورسز کو دیئے گئے۔

اب یہ سب طالبان حکومت کے قبضے میں ہیں، کیوں کہ امریکی فوجیوں نے جس افراتفری میں مُلک چھوڑا، اُس دوران اسلحہ طالبان کے ہاتھ نہ لگنے سے متعلق کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان کی اُس وقت کی حکومت نے اس سے متعلق امریکا سے کیا بات چیت کی تھی۔

یہ تو ممکن نہیں کہ اُنہیں اس کا علم نہ ہو کہ امریکی انخلا کے بعد یہ سب کچھ افغان طالبان کے قبضے میں چلا جائے گا۔ اُس وقت پاکستان میں کچھ حلقوں نے جس طرح کا جشن منایا، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ طالبان سے متعلق درست اندازے نہیں لگا سکے یا اُنہوں نے امریکا سے اسلحے کے ذخیرے اور اس کے پاکستان پر ممکنہ اثرات سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔

ویسے جنرل فیض حمید نے کابل میں میڈیا کے سامنے جس طرح’’سب ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر وکٹری کا نشان بنایا، اُس سے لگتا ہے کہ حکومت کو اِس خطرے کا خیال تک نہیں تھا، جو ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی پیدا کرسکتی تھی۔ شاید اُن کا خیال تھا کہ افغان طالبان، پاکستان کے برادار بن کر رہیں گے۔ البتہ، اگر وہ افغانستان کی تاریخ پر نظر ڈال لیتے، تو اِنہیں علم ہوتا کہ جو اختلافات آج شدّت اختیار کرتے نظر آرہے ہیں، وہ تو آزادی کے وقت ہی سے موجود تھے۔

افغانستان وہ واحد مُلک تھا، جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا، جب کہ افغان حکومتیں ڈیورنڈ لائن کو پہلے دن سے تسلیم نہیں کرتیں۔ دُکھ اِس بات کا ہے کہ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں نے بھی افغان حکومتوں کے عزائم نہیں سمجھے۔ وہ قبائل اور جرگوں کے نقطۂ نظر ہی کو جدید دنیا کا پیمانہ سمجھتی رہیں۔ شاید وہ یہ بھی ادراک نہیں رکھتیں کہ جدید دنیا کے مُلک نیشنلزم کے ذریعے وجود میں آئے، جن میں بہت سی قومیتوں اور مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔

حکومتوں کو جاننا چاہیے کہ خارجہ اور دفاعی پالیسیز بناتے وقت ایک دن یا ایک سال سامنے نہیں رکھا جاتا۔ افغانستان، پاکستانی عوام کی مذہب سے وابستگی اور محبّت سے ناجائز فائدہ اُٹھاتا رہا۔ کیا بھائی چارے کا سارا ٹھیکا پاکستان کے غریب عوام ہی نے لیا ہوا ہے، جن کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔پاکستان اور چین کے لوگوں کے مذہب و نظریے بالکل مختلف ہیں، لیکن وہ برادر اور ہر موسم کے دوست کہلاتے ہیں۔

پھر حکومت نے ایک اور غلطی کی کہ بغیر کسی ضمانت کے محض جذبات میں بہہ کر پچاس ہزار پاکستانی طالبان کو صوبہ خیبر پختون خوا میں نہ صرف بسایا گیا بلکہ اُس جماعت کی صوبائی حکومت آج بھی اس اقدام کا جواز پیش کرتی ہے۔کون چاہتا ہے کہ اپنے پڑوسی ممالک سے بارڈر گرم رکھا جائے، تعلقات خراب ہوں اور لڑائی کی کیفیت رہے، لیکن اگر دوسرا فریق، جو اِس وقت افغان طالبان ہیں، یہ تک بھول گیا ہو کہ اُس کی حکومت پاکستان کے مرہونِ منّت ہے اور اُسے جو امداد وغیرہ ملتی رہی، وہ بھی پاکستان کی کوششوں سے ملی کہ اِسی نے ہر فورم پر مسلم امّہ کے نام پر اُن کا مقدمہ لڑا۔ 

سوال یہ ہے کہ امریکی انخلا کے وقت جو حکومت پاکستان میں تھی، اُس نے جب اتنے بڑے پیمانے پر افغان طالبان کی سہولت کاری کی، اُن کے تمام بڑے رہنماؤں کی میزبانی کی، پھر اُن سے کوئی گارنٹی کیوں نہ لی کہ وہ اقتدار میں آکر اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں گے۔ اُس وقت کے وزیرِ اعظم افغان معاملات پر دو مرتبہ صدر ٹرمپ سے بھی وائٹ ہاؤس میں ملے۔ کیا اُنہیں اِس امر کا بالکل ادراک نہیں تھا۔

امریکا میں ایک نیشنل گارڈ کی ہلاکت پر صدر ٹرمپ نے پوری افغان کمیونٹی کو ڈی پورٹ کرنے کی دھمکی دی ہوئی ہے اور وہ اس پر عمل بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن پاکستان سے اُمید کی جاتی ہے کہ اپنے پھول جیسے بچّوں اور فوجیوں کی شہادت کے بعد بھی امن کی مالا جپتا رہے۔ اگر پاکستان سے امن کی خواہش ہے، تو اس کا جواب بھی امن کی خواہش ہی سے آنا چاہیے۔ افغانستان کی کوئی ایسی جیو اسٹریٹجک پوزیشن بھی نہیں ہے، جس کے افسانے سُنائے جاتے رہے ہیں۔

ایک لینڈ لاکڈ مُلک، جس کا دانا پانی کے لیے انحصار پاکستان پر ہو، کیسے غیر معمولی جیو اسٹریٹیجک پوزیشن کا حامل ہوسکتا ہے۔ ہماری وسط ایشیائی مسلم ممالک سے دشمنی ہے اور نہ ہی ایران یا روس سے، تو پھر افغان بفر کی کتنی اہمیت رہ جاتی ہے۔ یہ بفر تو برطانیہ کا روس کے خلاف اہم تھا یا امریکا کے لیے۔

اب اگر بفر اسٹیٹ خود ہی جنگ اور دہشت گردی کو اپنا لے، تو پھر پہلا قدم اور اہم ترین پالیسی یہی ہونی چاہیے کہ اُس کے دانتوں سے زہر نکال دیا جائے۔ افغانستان کی معدنیات کے قصّے اُسی وقت حقیقت بنیں گے، جب امریکا، روس یا چین اُنہیں نکالنے پر اربوں ڈالرز یا اپنی ٹیکنالوجی خرچ کرے اور وہ یہ سب اپنی شرائط ہی پر کریں گے۔ اِس پس منظر میں طالبان عبوری حکومت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ دہشت گرد گروپس کا خاتمہ کرے، امن سے رہے اور اپنے عوام کی ترقّی پر توجّہ مرکوز رکھے۔

سنڈے میگزین سے مزید