• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں پہلی بار سولر پاور جنریشن نیشنل گرڈ سے بڑھ گئی ہے جس کی وجہ چھتوں پر لگائے گئے سولر پینل ہیں۔ نیپرا نیٹ میٹرنگ نظام کے تحت بجلی ترسیل کرنیوالی کمپنیاں (ڈسکوز) اور کے الیکٹرک صارفین سے 27 روپے فی کلوواٹ سولر پاور لینے کی پابند ہے۔ اس اسکیم کے تحت صاحب حیثیت افراد اپنی پیدا کی گئی سولر انرجی استعمال کرکے اضافی بجلی ڈسکوز کو بیچ دیتے ہیں جسکے باعث گزشتہ کئی سال میں ملک میں سولر پاور جنریشن میں تیزی سے اضافہ جبکہ نیشنل گرڈ سے بجلی کی طلب میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس وقت نیشنل گرڈ پر 10 ہزار میگاواٹ بجلی اضافی ہے جس پر حکومت IPPs کو کیپسٹی چارجز ادا کررہی ہے جو پاور سیکٹر کے سرکولر ڈیٹ میں اضافے کا سبب ہے جسکے باعث حکومت نے نیٹ میٹرنگ سے خریدی گئی بجلی کے نرخ 27 روپے سے کم کرکے 10 روپے فی کلو واٹ کرنے کی تجویز وزیراعظم کو پیش کی جس پر میں نے ایوان میں سخت تنقید کی۔ مجھے خوشی ہے کہ وزیراعظم نے وزیر توانائی اویس لغاری کی تجویز قبول نہیں کی اور نیپرا لائسنس کی 7 سالہ میعاد تک نیٹ میٹرنگ صارفین کے پرانے ٹیرف 27 روپے فی کلو واٹ کو برقرار رکھا۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اب تک 50 ہزار میگاواٹ کے سولر پینل امپورٹ کرچکا ہے جبکہ ملک میں نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد 2 لاکھ 83 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ 2025 میں گھریلو صارفین نے 33 ہزار میگاواٹ بجلی سولر کے ذریعے پیدا کی جبکہ نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی 30 ہزار میگاواٹ رہی۔ آنیوالےبرسوں میں توقع کی جارہی ہے کہ ملک میں سولر پاور جنریشن کی صلاحیت مزید 10 ہزار میگاواٹ تک بڑھ سکتی ہے۔ اکنامک سروے کے مطابق 2025 تک پاکستان میں بجلی کی کھپت 45 ہزار میگاواٹ جو 2030 تک 60 ہزار میگاواٹ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس وقت ملک میں مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی انسٹال کیپسٹی میں تھرمل 55.7 فیصد، ہائیڈرو 24.4 فیصد، متبادل ذرائع (ہوا، پانی اور سورج) 12.2 فیصد اور نیوکلیئر 7.8 فیصد شامل ہیں۔ ملکی ایکسپورٹ میں اضافہ نہ ہونے کا بڑا سبب بجلی کے غیر مقابلاتی نرخ ہیں جو خطے کے دیگرممالک سےزیادہ ہیں۔ بزنس کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ انکے صنعتی ٹیرف 13 سینٹ سے کم کرکے 9 سینٹ (25 روپے) فی کلو واٹ کئے جائیں تاکہ ایکسپورٹرز اپنی مالی لاگت کم کرسکیں۔ سولر کے ذریعے آلودگی سے پاک بجلی پیدا کرکے ہم فرنس آئل، LNG اور کوئلے جیسے مہنگے درآمدی ایندھن کی امپورٹ میں کمی لاکر قیمتی زرمبادلہ بچاسکتے ہیں۔ 2018-19 میں ہم نے 14.5 ارب ڈالر کا فرنس آئل اور 3 ارب ڈالر کی LNG امپورٹ کرکے 18 ارب ڈالر مہنگے ایندھن کی امپورٹ پر خرچ کئے جسکی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل 80 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ اس دوران ہماری ایکسپورٹ بمشکل 30 ارب ڈالر رہیں اور 50 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ زرمبادلہ کے ذخائر کو کم ترین سطح پر لے آیا۔ ماہرین کے مطابق صرف LNG کی امپورٹ میں کمی سے پاکستان سالانہ 2 ارب ڈالر بچاسکتا ہے۔ معاشی جائزے کے مطابق LNG اور فرنس آئل کے کم استعمال سے تقریباً 200 ارب روپے سالانہ کی بچت کی جاسکتی ہے۔

صاف اور سستی بجلی کی وجہ سے دنیا میں سولر انرجی کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا میں تقریباً ڈھائی ارب سولر پینلز نصب ہیں اور سولر پینل ری سائیکلنگ پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔ 2024 میں چین کی سولر انرجی کیپسٹی 8 لاکھ 88 ہزار میگاواٹ تھی جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ دوسرے نمبر پر بھارت ایک لاکھ میگاواٹ، تیسرے نمبر پر امریکہ جبکہ پاکستان کی اب تک سولر انسٹال کیپسٹی 27000 میگاواٹ ہے جو ہماری مجموعی بجلی پیداوار کا تقریباً 25 فیصد ہے۔ پاکستان میں سولر انرجی کی پیداواری لاگت 7 سے 10 روپے فی کلو واٹ آتی ہے جو دوسرے ذرائع سے حاصل بجلی کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے ۔ بظاہر حکومت متبادل توانائی بالخصوص سولر انرجی کی پیداوار کو فروغ دینا چاہتی ہے لیکن پالیسیوں کے عدم تسلسل سے اس میں تضاد نظر آتا ہے ۔ ماضی میں حکومت نے صاف اور سستے فیول کیلئے گاڑیوں میں CNG کی اجازت دی لیکن جب پاکستان دنیا میں CNG استعمال کرنیوالا سب سے بڑا ملک بن گیا تو حکومت کو احساس ہوا کہ یہ قدرتی گیس کا ضیاع ہے، اس طرح CNG پالیسی کی حوصلہ شکنی کی گئی اور پھرملک بھر میں CNG اسٹیشن آہستہ آہستہ بند ہوگئے ۔ یہی حال صنعتوں کو قدرتی گیس سے بجلی پیدا کرنے کیلئے لگائے گئے کیپٹو پاور ہاؤسز کا ہوا جب کچھ ماہ قبل حکومت نے صنعتوں کیلئے گیس کی قیمت کئی گنا بڑھانے اور گیس بند کرنے کے احکامات دیئے اور صنعتوں کو قومی گرڈ پر منتقل ہونے کی ہدایت کی گئی ۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ، فیڈریشن اور کراچی چیمبر کے نمائندوں کیساتھ میں نے اور نوید قمر نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر پیٹرولیم علی جمیل اور رانا ثناء اللہ کے ساتھ طویل میٹنگ کی اور بتایا کہ صنعتوں کے نیشنل گرڈ پر منتقل ہونے سے صنعتکاروں کے گیس کے بجلی گھروں کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہوجائیگی لیکن ہمیں بتایا گیا کہ یہ IMF کی شرائط میں شامل ہے۔ آج سولر انرجی اور نیٹ میٹرنگ پر بھی حکومت کا یوٹرن واضح نظر آتا ہے ۔ بجلی کےناقابل برداشت نرخوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پہلے حکومت نے لوگوں کو سولر انرجی پینل لگانے پر راغب کیا اور اب جبکہ صارفین کی بجلی کی طلب کا بڑا حصہ سولر انرجی سے پورا ہورہا ہے تو حکومت چاہتی ہے کہ سولر پینل صارفین نیشنل گرڈ سے مہنگی بجلی خریدیں۔ پالیسیوں کا عدم تسلسل سرمایہ کاروں کے اعتماد کوبری طرح مجروح کرتا ہے لہٰذا مسئلے کا حل بجلی کا مقابلاتی ٹیرف ہے جس کیلئے ڈسکوز کو اپنی گورننس اور بجلی کے ترسیلی نظام (T&D) میں بہتری لانا ہوگی۔

تازہ ترین