ہمارے دیرینہ دوست عبدالشکور پردیسی نے کئی دنوں بعد ہم دوستوں کو حیرت انگیز بات سے ہلا کررکھ دیا۔ عبدالشکور پردیسی ہم سب کا ہم دم ہے، ہم نسب ہے، ہم راز ہے ۔زیادہ خاموش رہتا ہے مگر جب زبان کھولتا ہے، تب ہم بے کلام اور گونگے دوستوں کو ہلاکر رکھ دیتا ہے۔ ایک مرتبہ دوستوں نے عبدالشکور پردیسی کو گھیر لیاتھا۔ اس سے پوچھنے لگے کہ تم اپنے آپ کو پردیسی کیوں کہتے ہو؟ کیاتم منگولیا یا تاجکستان کے رہنے والے ہو اور غلطی سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے ہو؟
عبدالشکور پردیسی نے غور سے ہم سب دوستوں کی طرف دیکھا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعدعبدالشکور پردیسی نے کہاتھا۔’’ ہم سب یہاں، وہاں، ہر جگہ پردیسی ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے یہاں ہوتے ہیں اور پھر اپنی اچھی بری یادیں چھوڑ کرچلے جاتے ہیں ۔کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم منگولیا کےرہنے والے ہوں یا مالٹا کےرہنے والے ہوں۔ہمیں یہ دنیا چھوڑ کرجانا پڑتا ہے۔ ایک روزپاکستان چھوڑ کرمجھے جانا پڑے گا۔ صدیق کالے کو یہاں سے جانا پڑے گا۔ شیر خان لنگڑے کو یہاں سے جانا پڑےگا۔ چنگیز خان چنگاری کو یہاں سے جانا پڑے گا۔ میں بھی چلا جاؤں گا۔ میں پردیسی ہوں۔ تم سب لوگ بھی پردیسی ہو۔ چلے جاؤ گے ایک روزیہاں سے‘‘۔
عبدالشکور پردیسی کا جواب سن کر کچھ دوست سر کھجا کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ کچھ دوست چیونگم اور ببل گم چبانے لگے۔ عبدالشکور پردیسی کے جواب سن کر دوست خاموش رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک جگہ سورج طلوع ہونے اور سورج غروب ہونے کے فلسفے پرگرما گرم بحث ہورہی تھی۔ بحث کرنے والے مسلمان، ہندو،عیسائی،سکھ وغیرہ تھے۔ لے آنے والے عقیدوں کو بیچ میں لے آئے۔ بات جنگ وجدل تک پہنچ گئی۔ تب ہمارے دوست عبدالشکور پردیسی نے صبر آزما خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔’’ جب آپ کے ملک میں سورج غروب ہورہا ہوتا ہے، تب دوسرے کسی ملک میں سورج طلوع ہو رہا ہوتا ہے‘‘۔
بحث کرنے والوں نے چپ سادھ لی۔ بہت کم بولا کرتا تھا ہمارا دوست عبدالشکور پردیسی۔پھر نہ جانے کیا ہوا کہ عبدالشکورپردیسی کی مت ماری گئی۔ اس نے ہم دوستوں کو حیران کم اور پریشان زیادہ کردیا۔ اس نے کسی کے مشکل سوال کا آسان جواب نہیں دیا تھا۔ اورنہ ہی عبدالشکور پردیسی نے مشکل سوال پوچھ کرہم دوستوں کو ششدر کردیاتھا۔
عبدالشکور پردیسی کی بات توآپ اس کا بیانیہ یا اظہار بیاں کہہ سکتے ہیں۔ عبدالشکور پردیسی نے سینہ تان کرکہا تھا، میرے سینے میں ایسے ایسے نایاب راز پوشیدہ ہیں کہ اگر ایک راز کھول دوں یا بتادوں توہمالیہ کی بنیادیں ہل جائیں۔ آبادیاں دیکھتے ہی دیکھتے ویرانوں میں بدل جائیں۔
ہم سب عبدالشکور پردیسی کے دعوے سن کر سوچ میں پڑ گئے تھے۔ہم سب حیران تھے کہ عبدالشکور پردیسی نے ایسے خوفناک راز کہاں سے ہتھیائے تھے کہ جن کے فاش ہوجانے کے بعد ندیوں میں بہتا ہوا پانی بند ہوجائے گا اور سمندر سوکھ جائیں گے۔ پہلی مرتبہ عبدالشکور پردیسی کی بات سن کرہم کبھی حیران اور کبھی پریشان ہوتے تھے۔ ایساکم ہوتا تھا کہ عبدالشکور پردیسی کی بات سن کرہم سب چونک پڑتے تھے۔ اس سے پہلے ہم نے عبدالشکور پردیسی سے رازونیاز کی باتیں نہیں سنی تھیں۔ اگر کبھی سنی بھی تھیں تو باتیں اس قابل نہیں ہوتی تھیں کہ جن باتوں کو یادرکھا جائے۔ ہم عبدالشکور پردیسی کی بچکانہ باتیں سنی ان سنی کردیتے تھے۔ بھلا دیتے تھے۔
مگر ملک اور معاشرے میں جب حالات دگرگوں ہوجاتے ہیں، الٹے سیدھے قوانین کی بھرمار ہونے لگتی ہے، پکڑ دھکڑ کا بازار گرم ہونے لگتا ہے، اور آپ اور میں، اور ہمارے بچے اور عزیزواقارب غائب ہونے لگتے ہیں تب افواہوں کے جھکڑ چلنے لگتے ہیں۔ آپ سچ اور جھوٹ کا فرق محسوس نہیں کرسکتے ۔ہم دوستوں کو پتہ چلانا مشکل لگ رہا تھا کہ عبدالشکور پردیسی سچ بول رہا تھا یا سنسنی پھیلانے کی کوشش کررہاتھا۔ اس کے پاس کس نوعیت کے راز تھے کہ جن کے افشا کرنے سے تخت پر بیٹھے ہوئے ہر دل عزیزوں کا دھڑم تختہ ہوسکتا تھا؟
اچانک ایک روز عبدالشکور پر دیسی غائب ہوگیا۔ ہم بخشے ہوئے اور بھٹکے ہوئے لوگوں پر نظر رکھنے کے لیے سرکار نے اپنے جاسوسی کرنے والے محکمے سے دوچار جاسوس ہمارے درمیان چھوڑے ہوئے ہیں۔ سرکار بیچاری کوکیا پتہ کہ ان کے جاسوس ہم فقیروں کے رنگ ڈھنگ میں رچ بس گئے ہیں۔ ہم نے سرکاری جاسوسوں سے مدد لی۔ ان کو کام پرلگایا۔
سرکاری جاسوسوں نے روح فنا کردینے جیسی خبر سنائی۔ سرکاری جاسوسوں نے بتایا کہ عبدالشکور پر دیسی سرکار کےایک خفیہ ادارے کی تحویل میں تھا۔ وہ بدترین ٹارچر سے گزر رہا تھا، مگر زبان کھولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اور سرکار راز جاننے کے لیے بے چین تھی۔ ٹارچر کرنے کے لیے خفیہ ادارے نے عبدالشکور پردیسی کو برہنہ رکھا ہوا تھا۔ اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی کہ وہ شلوار کو قمیض اور قمیض کو شلوار سمجھنے لگاہے۔ وہ اب مشرق کو مغرب اور مغرب کو مشرق سمجھتا ہے۔ ہم دوستوں نے سرکاری جاسوسوں کی معرفت عبدالشکور پردیسی کو پیغام بھیجا : عبدالشکور، تیرے پاس جتنے بھی راز ہیں، تو سرکار کوبتادے۔ ہم تیرے ساتھ مرنے کوتیار ہیں۔
سرکاری جاسوس عبدالشکور کا جواب لے آئے: خدا کی قسم میرے پاس کوئی راز نہیں ہے۔ میں تم دوستوں سے مخول کررہا تھا۔