• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امن اور قومی خوشحالی پر یقین رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ تشدد، دہشتگردی اور بغاوت کے بنیادی منشور کے ساتھ "تخریبی سیاست" کو اہمیت دینے والی تحریک انصاف کی قیادت نے امن اور ہم آہنگی کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ایک بار پھر ریاست کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔پرتشدد مظاہروں کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے ٹی-ٹی-پی کے دہشتگردوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ماضی میں کئی مواقع پر ٹی-ٹی-پی کے دہشتگردوں کو ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف استعمال کیا گیا اور بانی پی-ٹی-آئی نے اپنی بہنوں کے ذریعے بھارتی حکومت کو یقین دلایا گیا کہ اگر بھارت مشن سندور کے تحت پاکستان پر حملہ کرے تو تحریک انصاف کے لاکھوں کارکن پاکستانی فوج کے خلاف سرحدوں پر ان کی مدد کرکے انہیں فتح دلا سکتے ہیں لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ کے نتیجے نے تحریک انصاف اور بھارت کے خواب چکنا چور کردئیے۔ باریک بین ناقدین نے عمران خان اور تحریک انصاف کے انجام کےحوالے سے جو اندازے اور پیشین گوئیاں کی تھیں، رفتہ رفتہ درست ثابت ہورہے ہیں اور اپنی اوقات میں واپس آ گئے اور اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ کسی بھی طور ریاست کو نیچا دکھانا ممکن نہیں پی-ٹی-آئی کی قیادت اس مرحلے پر جب ان کے تمام تر حربے ناکام ہو چکے ہیں، بانی تحریک انصاف کو معصوم اور بیگناہ ثابت کرنے کیلئے "قید تنہائی" کا شوشہ پھیلا کر دنیا کی توجہ بٹورنا چاہتی ہے، ویسے بھی تحریک انصاف جھوٹے پوپیگنڈا میں عالمی ریکارڈ ہولڈر ہے، ابتداء میں یہ مہم چلائی کہ عمران خان کو جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور اذیتیں دے کر ذہنی مریض بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن یہ پروپیگنڈہ شروع ہوتے ہی پٹ گیا کیونکہ سب جانتے تھے کہ عمران خان پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں، جیل میں آٹھ کمروں پر مشتمل تمام بنیادی سہولیات سے مزین پر آسائش بیرک میں "قید تنہائی" میں زندگی گزارنے والے قیدی کی خدمت کے لئے 6 مشقتی، 2 ماہر باورچی، صفائی ستھرائی کا عملہ اور دوسرا سٹاف میسر ہے جو کم سے کم پاکستان میں تو کبھی کسی سابق وزیر اعظم کو فراہم نہیں کی گئیں جو سہولتیں عمران خان کو حاصل ہیں۔تحریک انصاف کے راہنماؤں کے بانی سے خفیہ رابطے اور آئیندہ کے لائحہ عمل پر پیغام رسانی اور سیاسی اور انتظامی معاملات حکمنامے جاری ہوتے رہتے ہیں۔ عمران خان دور میں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آباد کئے گئے 42 ہزار دہشتگردوں کو استعمال کرنے کا اشارے بھی احکامات کا حصہ ہیں۔ دہشتگردوں کی اتنی بڑی تعداد درآمد کرنے کی سازش کے پیچھے بھی ریاست پاکستان پر حملہ اور بغاوت کے مذموم مقاصد کارفرما تھے جب بانی کے خیال میں یوتھیے اتنے طاقتور ہیں کہ حکومت بھی ان کے سامنے بے بس اور لاچار ہے۔ لیکن وقت نے دیکھا کہ ان کمزور شرپسندوں کی ریاست کیخلاف کوئی سازش کارگر نہ ہو سکی۔ کہتے ہیں کہ بانی کی جانب سے پیغام کی صورت میں کے-پی-کے قیادت اور حکومت کو یہ "حکم" بھی دیا گیا ہے کہ ان دہشتگردوں کو پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شامل کیا جائے گا تاکہ ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف آسانی سے نشانہ بنانے کے مواقع میسر آئیں اور ان سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔اگر یہ اطلاع درست ہے کہ بانی تحریک انصاف واقعتاً ریاست کیخلاف استعمال کرنے کے لئے دہشتگرد تنظیموں کو امور حکومت میں شامل کر کے ریاست کیخلاف استعمال کرنے کاارادہ رکھتے ہیں تو ملک کی سلامتی کو اس زیادہ سنگین خطرہ کیا ہوگا؟ ناقدین دہشتگردوں کو ریاستی اداروں میں شامل کرنے کے عندیہ کو اس مؤقف کی بنیاد پر رد نہیں کرتے کہ ایسی سیاسی پارٹی یا ایسا لیڈر جو اقتدار حاصل کرنے کیلئے ریاست کیخلاف بغاوت سے بھی گریز نہ کرے اس سے ہر انتہائی اقدام کی توقع کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ دنوں کوہاٹ میں کے-پی-کے حکومت اور تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کے مشترکہ جلسہ میں کی جانے والی اشتعال انگیز تقاریر کے دوران وفاق اور فوج کو نشانے پر رکھ کر جو دھمکیاں دی گئیں اس سے یہ اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ ابھی بانی تحریک انصاف کا ریاست دشمن بیانیہ کمزور نہیں ہوا بلکہ اس کے اظہار کے انداز تبدیل ہو سکتا ہے۔وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا طرز تکلم وہی تھا جو کبھی عمران خان کا فوج، عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دوسرے ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ہوتا تھا۔ سہیل آفریدی اور جنید اکبر کا لب لہجہ بھی اپنے قائد سے ملتا جلتا تھا کیونکہ عمران خان سیاست میں مہذب انداز تکلم اور گفتگو میں نرم خوئی پسند اور برداشت نہیں کرتے۔ان دونوں قائدین نے وفاق پر بھرپورحملہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت گزر گیا تو ریاست اور ریاستی اداروں کو فرار کا راستہ بھی نہیں ملے گا اس لئے عمران خان کی رہائی عمل میں لائی جائے ورنہ عمران خان کے جیالے جیل پر چڑھائی کے لئے تیار ہیں۔

تازہ ترین