• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ایک عجیب دور میں جی رہے ہیں۔ یہاں بیماری سے پہلے علاج، علاج سے پہلے اشتہار اور اشتہار سے پہلے مشورہ دیا جاتا ہے۔ اور مشورہ بھی ایسا کہ اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو مشورہ دینے والا ناراض ہو جاتا ہے۔ آج کل سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ بیماری کیا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اس کا علاج یوٹیوب سے ہو یا پڑوسی سے۔ ڈاکٹر تو ویسے بھی صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کی فیس دے کر ہمیں یہ تسلی ہو جائے کہ ہم نے غلط دوا باقاعدہ طریقے سے لی ہے۔ اب ذرا اس بنیادی سوال پر غور کیجیے:یہ جو آپ کھا رہے ہیں، یہ اسٹیرائڈ ہے یا اینٹی بائیوٹک؟ عام آدمی کے نزدیک دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔ دونوں گولیاں ہیں، دونوں کڑوی ہیں، دونوں ڈاکٹر کے بغیر بھی کھائی جا سکتی ہیں اور دونوں کے بعد یہ جملہ لازمی بولا جاتا ہے:’’بھئی مجھے تو اس سے بہت فائدہ ہوا تھا!‘‘

ہماری قوم میں دوا کم اور تجربہ زیادہ چلتا ہے۔ خاص طور پر وہ تجربہ جو کسی رشتے دار نے پچھلے رمضان میں کیا ہو اور اب تک زندہ ہو۔ مثلاً محلے کے چوہدری صاحب کو ذرا سا نزلہ ہوا۔ فوراً بھابی جان نے اعلان کیا:’’اینٹی بائیوٹک دے دو، آج کل وائرس بہت ضدی ہو گیا ہے۔‘‘ یہ وہی بھابی جان ہیں جن کے نزدیک ہر بیماری یا تو ’’سردی لگنے‘‘سے ہوتی ہے یا ’’گرمی چڑھنے‘‘سے، اور ہر علاج یا تو سوپ ہے یا اینٹی بائیوٹک۔ اب اینٹی بائیوٹک بھی کوئی ایک نہیں۔ یہ ایک خاندانی نظام ہے۔ اس کے اندر چھوٹی، بڑی، درمیانی، تیز، بہت تیز اور’’بس ایک دفعہ میں کام کر جانے والی‘‘ اقسام پائی جاتی ہیں۔ اور سب سے خطرناک وہ ہوتی ہے جو پچھلی بار بچ گئی ہو۔ پاکستانی گھروں میں فریج میں سبزیوں کے ساتھ ساتھ اینٹی بائیوٹکس بھی رکھی جاتی ہیں، کیونکہ دونوں’’کبھی بھی کام آ سکتی ہیں‘‘۔

رہی بات اسٹیرائڈز کی، تو ان کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اینٹی بائیوٹک بیماری کو مارتی ہے اور اسٹیرائڈ بیماری کو ڈرا دیتی ہے۔ بیماری کچھ دیر کے لیے بھاگ جاتی ہے اور پھر اپنے پورے خاندان کے ساتھ واپس آ جاتی ہے۔ ہماری قوم کو اسٹیرائڈ اس لیے پسند ہے کہ یہ فوراً اثر دکھاتی ہے۔ اور ہمیں فوراً اثر چاہیے۔ صبر، برداشت اور مکمل کورس جیسے الفاظ اب صرف درسی کتابوں میں اچھے لگتے ہیں۔ڈاکٹر کہتا ہے:’’پانچ دن دوا کھانی ہے۔‘‘مریض کہتا ہے:ڈاکٹر صاحب! تین دن میں ٹھیک نہ ہوا تو؟ڈاکٹر کہتا ہے:تو پھر دوبارہ آ جائیں۔مریض دل میں کہتا ہے۔میں کیوں آؤں؟ گوگل بیٹھا ہے نا!گوگل آج کل ہمارا چیف میڈیکل آفیسر ہے۔ علامت لکھیں، بیماری خود بخود سامنے آ جاتی ہے۔ سر درد لکھیں تو گوگل کہتا ہے۔یا تو نیند پوری نہیں، یا آپ کو کچھ نہیں، یا پھر یہ آخری اسٹیج ہے۔ اس کے بعد بندہ خود فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا آپشن زیادہ ڈرامائی ہے، اور پھر اسی حساب سے دوا لیتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوا کو دوا نہیں سمجھتے، ہم اسے جادو سمجھتے ہیں۔ بس ایک گولی کھائی اور سب کچھ ٹھیک۔ نہ پرہیز، نہ احتیاط، نہ مکمل کورس اور پھر کہتے ہیں:اب تو دوائیں بھی پہلے جیسی نہیں رہیں۔”نہیں جناب! دوائیں وہی ہیں، مریض بدل گئے ہیں۔ہم اینٹی بائیوٹک ایسے لیتے ہیں جیسے چائے کے ساتھ بسکٹ۔ صبح ایک، شام ایک، دل کیا تو رات کو بھی۔ اور جب ڈاکٹر کہتا ہے کہ’’غلط استعمال سے ریزسٹنس ہو جاتی ہے‘‘، تو ہم سمجھتے ہیں کہ شاید دوا ضدی ہو جاتی ہے۔ہمارے ہاں ریزسٹنس کا لفظ صرف سیاست میں سمجھا جاتا ہے، میڈیکل میں نہیں۔اور اسٹیرائڈ؟اسٹیرائڈ تو جیسے ہماری قومی کمزوری ہے۔ سوجن ہو، خارش ہو، کھانسی ہو، اداسی ہو یا محلے دار سے لڑائی ہر مسئلے کا حل اسٹیرائڈ۔ یہ وقتی سکون دیتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے قرض وقتی خوشی دیتا ہے۔ بعد میں جو ہوتا ہے، اس پر ہم بات نہیں کرتے۔

اصل مزہ تب آتا ہے جب مریض خود ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ وہ پرچی دیکھ کر کہتا ہے:“اچھا! یہ تو پچھلی بار بھی لکھی تھی، اس دفعہ کچھ اور لکھ دیتے۔ یعنی ڈاکٹر صاحب! ذرا تخلیقی بنیں۔ آخر میں گزارش صرف اتنی ہے کہ اینٹی بائیوٹک دشمن کو مارنے کے لیے ہوتی ہےاور اسٹیرائڈ دشمن کو وقتی طور پر خاموش کرانے کے لیے لیکن اگر دشمن کو پہچانا ہی نہ جائے، تو پھر گولیاں نہیں، معجزے بھی کام نہیں کرتے۔

اور ہاں! اگر آپ یہ کالم پڑھ کر مسکرا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ کوئی گولی بھی کھا رہے ہیں، تو ذرا رک جائیں، پیکٹ دیکھ لیں…کہیں وہ اسٹیرائڈ تو نہیں؟

تازہ ترین