• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس نے 20 اکتوبر 2025 کو چینی بحران پر میری سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس کے ممبران میں اراکین قومی اسمبلی طاہرہ اورنگزیب، فرحان چشتی اور گل اصغر خان شامل تھے۔ اس کمیٹی کو ملک میں چینی بحران، غلط اسٹاک رپورٹنگ پر مراعات لے کر چینی ایکسپورٹ کرنے، چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے چینی کی ڈیوٹی اور ٹیکس فری امپورٹ اور مقامی مارکیٹ میں گٹھ جوڑ اور سٹہ بازی سے چینی کی قیمتیں بڑھانے پر تحقیقات کرنا تھا۔ اس کے علاوہ چینی بحران پر مسابقتی کمیشن آف پاکستان (CCP)، شوگر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (PSMA) کے کردار کا بھی جائزہ لینا شامل تھا۔ قائمہ کمیٹی برائے کامرس نے ہدایت کی کہ ذیلی کمیٹی اِن اداروں کی واضح نشاندہی کرے جو چینی بحران کے اصل ذمہ دار ہیں۔ ذیلی کمیٹی نے تمام متعلقہ اداروںسے دو ماہ میں تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ قائمہ کمیٹی کامرس کو پیش کی۔

ذیلی کمیٹی میں شامل تمام اراکین قومی اسمبلی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں ہر چند سال میں چینی کا بحران پیدا کیا جاتا ہے جسکے پیچھے بارسوخ اور طاقتور شوگر مافیا ہے جو ذخیرہ اندوزی سے چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اسکی قیمت بڑھادیتا ہے۔ 2025 میں بھی یہی سب کچھ شوگر مافیا نے دہرایا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن اور شوگر ایڈوائزری بورڈ جسکے ممبران اعلیٰ حکومتی افسران ہیں، کو اضافی اسٹاک دکھاکر 7 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت لی گئی جو جنوری 2024 سے جنوری 2025 کے دوران ایکسپورٹ کی گئی لیکن بعد میں PSMA نے خراب موسمی حالات کے باعث چینی کی پیداوار میں ایک ملین میٹرک ٹن کمی بتائی جس سے سٹے بازوں کو چینی کی قیمتوں سے کھیلنے کا موقع ملا اور چینی کی قیمت 140 روپے فی کلو سے بڑھ کر 200 روپے فی کلو تک جاپہنچی۔ اس دوران حکومت نے چینی کی سرکاری قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کی لیکن مارکیٹوں میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا اور بالآخر حکومت کو چینی کی سپلائی یقینی بنانے کیلئے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی امپورٹ کرنا پڑی۔ اس موقع پر امپورٹرز نے چینی کی امپورٹ پر 47 فیصد کسٹم ڈیوٹی، سیلز، انکم ٹیکس اور دیگر محصولات کی مد میں 46 ارب روپے حکومت سے معاف کروائے تاکہ مقامی مارکیٹ میں چینی 175 روپے فی کلو پر فروخت کی جاسکے لیکن شوگر مافیا نے صورتحال سے فائدہ اٹھاکر چینی 200 روپے سے 229 روپے فی کلو تک فروخت کی۔ میری صدارت میں ذیلی کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے۔ 2 ستمبر کو پارلیمنٹ ہائوس میں ذیلی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں تمام متعلقہ وزارتوں بالخصوص وزارت انڈسٹریز اور پروڈکشن، وزارت فوڈ سیکورٹی، FBR، SECP، مسابقتی کمیشن آف پاکستان (CCP) اور دیگر محکموں کے سربراہان نے اپنی رپورٹس ذیلی کمیٹی کو پیش کیں جن میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ چینی کے کاروبار کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے تاکہ گٹھ جوڑ سے حکومتی خزانے کو نقصان نہ پہنچایا جاسکے۔ میٹنگ میں CCP کے نمائندے نے بتایا کہ شوگر ملیں ملی بھگت کرکے چینی کی قیمتیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جس پر CCP نے 2021 میں گٹھ جوڑ شواہد کی بنیاد پر ملز مالکان پر 44 ارب روپے کے جرمانے عائد کئے تھے جسے عدالتوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 6.5 ملین میٹرک ٹن ہے۔ ذیلی کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ چینی ایکسپورٹ سے پہلے کم از کم ایک ماہ کا بفر اسٹاک 5 لاکھ ٹن رکھا جائے تاکہ چینی کا بحران پیدا نہ کیا جاسکے۔ میٹنگ میں بتایا گیا کہ امپورٹ کی گئی چینی کی باریک دانے ہونے کے باعث مارکیٹ میں طلب کم تھی کیونکہ لوگ موٹے دانے کی چینی استعمال کرنے کے عادی ہیں ۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے FBR پر الزام لگاتے ہوئے بتایا کہ چینی بحران کے دوران شوگر ملوں پر نصب FBR اے آئی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم 7 دن بلاک رہا جس سے غیر نگرانی شدہ سپلائی کے باعث 150 میٹرک ٹن چینی کا خلا پیدا ہوا جس نے بھی چینی کی قیمتوں میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا لیکن FBR نمائندے نے اس کی تردید کی۔

پاکستان کے مقابلے میں دیگر ممالک بھارت اور بنگلہ دیش میں چینی کی قیمتیں کم ہیں جسکی وجوہات میں گنے کی فی ایکڑ زیادہ پیداوار، ٹیکس، ڈیوٹی اور بجلی کے کم نرخ، حکومتی پالیسیوں کا تسلسل اور شوگر ملوں کی نئی ٹیکنالوجی شامل ہیں جبکہ پاکستان میں گنے کی فی ایکڑ کم پیداوار، ٹیکس، ڈیوٹی اور بجلی کے بلند نرخ، حکومتی پالیسیوں کا عدم تسلسل یعنی کبھی برآمد روکنا تو کبھی برآمد کی اجازت دینا، کبھی سبسڈی دینا اور کبھی سبسڈی واپس لینا اور پرانی ٹیکنالوجی جیسے وہ عوامل ہیں جو مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں کو غیر مستحکم رکھتے ہیں جبکہ شوگر ملز مالکان گنے کی کرشنگ میں تاخیر کرکے کوشش کرتے ہیں کہ کسان سستے داموں گنا بیچنے پر مجبور ہو۔ وزارت فوڈ سیکورٹی کے مطابق گزشتہ 10 سال کے دوران پاکستان میں چینی عالمی مارکیٹ سے مہنگی رہی ۔ امپورٹ پر مختلف ٹیکسز لگنے سے چینی عالمی مارکیٹ سے 30 روپے فی کلو مہنگی ہوجاتی ہے ۔ ان بنیادوں پر ذیلی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے قائمہ کمیٹی کامرس کو 11 اہم تجاویز اور سفارشات پیش کیں جنکی رو سے شوگر سیکٹر کو جلد از جلد ڈی ریگولیٹ کیا جائے، حکومت کا کام چینی کی امپورٹ ایکسپورٹ نہیں، دالیں، چاول، چنا اور دیگر اجناس میں چینی کی طرح بحران پیدا نہیں ہوتا تو چینی اور گندم کا بحران کیوں پیدا ہوتا ہے جسکی وجہ اس شعبے میں طاقتور اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے ملز مالکان ہیں لہٰذا اس صنعت کو سیاست سے الگ کیا جائے ۔ مجھے امید ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ہماری اس رپورٹ پر سنجیدگی سے عملدرآمد پر غور کریں گے۔

تازہ ترین