تحریر: شائستہ اظہر صدیقی، سیال کوٹ
ماڈل: حنا خان
شالز: حجاب النساء گارمنٹس
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکاسی: عرفان نجمی
لےآؤٹ: نوید رشید
تمام شب ساحلِ دل پر ٹھہر رہی بےکسی کو روشنی کی پہلی لکیر کے ساتھ ہی اپنی تھکن سمیٹ کر کُوچ کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ بِنا شورمچائے اِک نیا آغاز، تاریک رات کے پہلو میں پنپتا رہتا ہے۔ اِک نئی شروعات من مندر میںخاموشی سے جنم لیتی ہے۔ آس پاس کا ہجوم محسوس بھی نہیں کر پاتا کہ کب اندر کی کوئی سمت بدل چُکی۔ ہم نے دل کی وہ جگہ بالآخر خالی کروالی ، جسے ایک روگ نےاپنا تخت و تاج بنا رکھا تھا۔
یہ تبدیلی چیخ کر اپنا آپ نہیں منواتی بلکہ ِاک احساس بن کر کسی کونے میں بیٹھ دھیرے دھیرے ترجیحات ترتیب دے لیتی ہے۔ گردوپیش کی دنیا تو اپنے اپنے معمولات میں سرپٹ دوڑے جاتی ہے، بس کوئی ایک ذی رُوح یک دَم ٹھہر کرآسمان کی سمت دیکھنے لگتا ہے۔ یہ وہی ہے، جس نےتبدیلی، اِک نئے آغاز کو خوش آمدید کہنے کے لیے ذہن و دل وا کردئیے ہیں۔
ریس میں بھاگتی دنیا سے کچھ یوں "pause" لیا کہ قدم اب وہاں نہیں اُٹھتے، جہاں پہلے بےسوچے سمجھے چل پڑتے تھے۔ ’’آغاز‘‘ ایسے ہی تو اُترتے ہیں، ہوا میں گھلتی نمی کی طرح خاموش، مگر پُراثر۔ جب اندر خانے مانوس آوازیں بدل جائیں، غیر مانوس متوجّہ کرنے لگیں۔ زندگی نرمی سے اِک ایسا دروازہ کھولنے کو تیار ہو، جس کے پیچھے کچھ بھی مکمل واضح نہیں، مگر مبہم بھی نہیں۔ ہاں بس نیا نیا سا، کچھ اچھوتا سا ہے۔؎ یہی بےکسی تھی تمام شب، اِسی بے کسی میں سحر ہوئی…نہ کبھی چمن میں گزر ہوا، نہ کبھی گُلوں میں بسر ہوئی…یہ پکار سارے چمن میں تھی، وہ سحر ہوئی، وہ سحر ہوئی…مِرے آشیاں سے دھواں اُٹھا، تو مجھے بھی اس کی خبر ہوئی۔
’’آغاز‘‘ جگہیں بدلنے سے وقوع پذیر نہیں ہوتا بلکہ یہ اُس لمحے کی دین ہے، جب انسان اپنے اندر، خُود سے سچ بولنے، اپنے آپ سےآنکھیں ملانےکی جرات پیدا کرلے۔ ماضی کو ماضی، حال کو حال کی جگہ تسلیم کرلے۔ آغاز، گزشتہ سب سوالوں کے جواب پا لینے کا نام نہیں۔ یہ تو وہ طاقت وَر فیصلہ ہے، جو بِنا جواب چاہے بھی قدم بڑھا لینے پر تیار کرتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات ’’آغاز‘‘ کا نقطۂ آغاز ’’قبولیت‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں دل اپنے بڑے بوجھ سے آزاد ہونا شروع ہوتا ہے۔
قبولیت، ہار مان جانا ہرگز نہیں، یہ تو حقیقت تسلیم کر لینے کی غیر معمولی نفسیاتی طاقت ہے، جب انسان سوالوں سے صلح کرتے ہوئے مان لے کہ ماضی لوٹ نہیں سکتا۔ لوگ، رویّے، حالات نہیں بدلتے۔ تکلیف ایک حقیقت ہے، مگر یہ حقیقت میری پوری کہانی تھوڑی ہے۔ غم نے مجھے روکا، مگر وہ مجھے ختم نہ کرسکا۔ اور بس پھر، اُسی لمحے قبولیت وہ دروازہ بن جاتا ہے، جہاں سے اِک نیا دَور، ’’آغاز‘‘ اندر داخل ہوتا ہے۔ نیا سال، صرف کیلنڈر بدلنے کا عمل نہیں بلکہ یہ ایک نئی کہانی لکھنے کو تیار کاغذ ہے، جس پر اب من مرضی کی داستان رقم ہو گی۔
وہ کیا ہے کہ ؎ ہے داغ داغ مِرا دل مگر ملول نہیں…تمام عُمر کا رونا مجھے قبول نہیں۔ مانا کہ سال مشکل تھا، مگر اب تو سفر کی تمام کٹھن مسافتیں طے ہو چُکیں، سالِ رفتہ اگر آزمائش تھا، توسالِ نو یقیناً نوازشات کا ہوگا کہ ہم نے اپنے دل کے دروازے ’’آغاز‘‘ کے لیے واکر دیے ہیں۔ اپنے دُکھوں کا وزن اچھی طرح جانچ کر اُن کی مناسب جگہ رکھ دیا ہے۔ اُن کو مٹائے بغیر، اُن سے لڑے بغیر حیرت انگیز طور پر اپنے دل کو قبولیت پر مائل پا کر، ہلکے پھلکے ہو کراِک نئی شروعات کی جانب قدم اُٹھا رہے ہیں۔ اور… زندگی خُود کہہ رہی ہے۔’’یہ رہا، تمہاری نئی کہانی کا پہلا صفحہ۔ نئے سال کا آغاز، نئے انداز کے ساتھ ۔‘‘
تولیجیے، رخصت ہوتے سال کی آخری بزم میں دیکھیے، ’’سالِ نو‘‘ کے لیے نرم وگرم شالز کے کچھ منتخب حسین سے رنگ و انداز۔ فون رنگ کی شال پر روایتی انداز کے بیل بُوٹوں کی کڑھت نے اِسے ایک کلاسک سا ٹچ دے دیا ہے۔
بارڈر بالکل سادہ اور شال کامٹیریل بہت نرم و ملائم ہے، تو یہ ہلکے پُھلکے پہناووں کے ساتھ خُوب ہی جچےگی۔ پھر سیاہ رنگ لائٹ کھدر شال پر اِسکن کلر دھاگے کی ہلکی پُھلکی کشیدہ کاری کابھی جواب نہیں۔ شال کابارڈرزیادہ چوڑا نہیں، جب کہ پوری چادر پر چھوٹی چھوٹی پتیاں کاڑھی گئی ہیں، تویہ عُمدہ کنٹراسٹ، کسی بھی پہناوے کے ساتھ باآسانی میچ کر جائے گا۔
پیور براؤن رنگ پشمینہ شال میں گرمائی کا عُنصر نمایاں ہے۔ یہ رنگ سرما کے ملبوسات کےساتھ قدرتی لگّاکھاتا ہے اور پھر شال کےکناروں پر ہلکے گلابی رنگ کی باریک کڑھت اِسے مزید باوقار بنا رہی ہے۔
موسمِ سرما کی گرم جوشی کا احساس لیے عنّابی، سرخ، ہلکے جامنی اور نارنجی رنگوں کی آمیزش لیےشال کے بارڈرز پر ملٹی شیڈڈ دھاگے کی کڑھت نے اس کا حُسن دو آتشہ کر دیا ہے۔ یہ شال اُن خواتین کے لیے ایک تحفہ ہے، جو رنگ پہننا، اوڑھنا جانتی ہیں۔
اُفقی پٹیوں میں ہلکا سبز، گلابی اور سُرمئی رنگ سموئے، چوڑے بارڈر پر ملٹی شیڈڈ کڑھت سے مزیّن پشمینہ شال سادگی اور رنگوں کے تناسب کی بہترین مثال ہے۔ طالبات اِسے اپنی روز مرہ ڈریسنگ میں باآسانی استعمال کرسکتی ہیں۔ سی گرین رنگ پشمینہ شال بالکل سادہ ہے۔
بس، کناروں پر کڑھت کی لکیر سی بنا کر اِسے جاذب ِنظر بنایا گیا ہے اور ٹی پنک رنگ کی سیلف پرنٹڈ پشمینہ چادر دھیمے پن کا تاثر دیتی ، سادگی میں بھی خاص دل کشی کی مظہر ہے۔ جو رنگ وانداز بھلا لگے، چُرا لیں، سب آپ ہی کے لیے ہیں۔ آپ اپنائیں اور پھر سُنتی رہیں ؎ اوڑھی جو اُس نے شال تو پشمینہ جی اُٹھا۔