روس، یوکرین جنگ کو فروری2026ء میں چار سال ہوجائیں گے۔ واضح رہے، گزشتہ صدی کی کوئی عالمی جنگ چھے سال سے زیادہ جاری نہیں رہی، مگر اِس جنگ کی شدّت میں تاحال کوئی کمی نہیں آئی، خاص طور پر جنوبی اور مغربی یوکرین میں روس ہر طرح کے ہتھیار آزما رہا ہے، جب کہ تقریباً تمام بڑی طاقتیں اِس جنگ میں کسی نہ کسی طور ملوّث ہیں۔جواب میں یورپ اور امریکا بھی اپنا جدید اسلحہ یوکرین لا رہے ہیں۔ابھی تک روس یا یوکرین، کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُسے فیصلہ کُن برتری حاصل ہوچُکی ہے۔
یہ جنگ ایک طویل اور تھکا دینے والی محاذ آرائی میں تبدیل ہوچُکی ہے، جسے فوجی الفاظ میں’’ وار آف ایٹریشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد4 لاکھ سے پندرہ لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ اِس میں وہ پندرہ ہزار ہلاکتیں بھی شامل کر لی جائیں، جو کریمیا اور ڈونا باس میں ہوئیں، تو یہ اِس صدی کی سب سے خوف ناک اور ہلاکت خیز جنگ کہلائی جاسکتی ہے۔روس کے صدر پیوٹن نے یہ حکمتِ عملی اپنائی تھی کہ وہ ایسا بھرپور حملہ کریں، جس سے دشمن فوراً ڈھے جائے۔
یہ حکمتِ عملی شامی اپوزیشن کے خلاف بھی استعمال کی گئی تھی، جس میں اسد، ایرانی افواج اور ملیشیا اُن کے ساتھ تھیں۔ صدر پیوٹن نے2014 ء میں کریمیا کی فتح سے اندازہ لگایا تھا کہ روسی بولنے والی آبادی کی لسانی حمایت اور گروہی تعصّب کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، جس سے یوکرین جلد گُھٹنے ٹیکنے پر مجبو ہوجائے گا۔
یقیناً اُن کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ یورپ کی گیس سپلائی کا دارومدار روسی کمپنی پر ہے، اِس لیے فروری جیسے سرد موسم میں یورپ ،یوکرین کی مدد کو نہیں آسکے گا اور یوں وہ چند مہینوں میں تنہا یوکرین کو شکست دینے میں کام یاب ہوجائیں گے، لیکن اُن کے یہ دونوں اندازے غلط ثابت ہوئے۔ یوکرین کی دفاعی تیاریاں مضبوط تھیں اور وہ کریمیا سے سبق سیکھ چُکا تھا۔
نیز، صدر ذیلنسکی نے ایسی مزاحمتی حکمتِ عملی اپنائی، جس میں روس جنگ میں پھنستا چلا گیا اور آج چار سال بعد بھی وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُسے فتح حاصل ہوگئی ہے، باوجودیکہ کہ روسی بولنے والے علاقوں کے بڑے حصّے پر اُس کا فوجی قبضہ ہوچُکا ہے۔ اِن روسی بولنے والے علاقوں میں یوکرین نے پسپائی کے باوجود جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ خاص طور پر ابتدائی مہینوں میں اُس نے روس کو ہر قدم پر روکا، جب تک کہ اُس کے مغربی اتحادی یورپ، نیٹو اور امریکا پوری طرح اُس کے ساتھ کھڑے نہ ہوگئے۔
فوجی ماہرین کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت، بے پناہ وسائل اور الیکڑانک وار فیئر کے جدید ترین ہتھیار رکھنے کے باوجود روسی فوج اور ہتھیار مغربی اسلحے کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ یوکرین نے ایک چھوٹا مُلک ہونے کے باوجود مغربی فوجی اور معاشی سپورٹ کو بڑی کام یابی سے استعمال کیا۔ صدر پیوٹن کے’’آئرن مین امیج‘‘، فوجی برتری اور معاشی طاقت کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔
اِس کا ایک نتیجہ شام میں اُس کی پسپائی سے ظاہر ہوگیا کہ وہ بیرونی محاذوں پر اپنا اثر ورسوخ مؤثر طور پر استعمال کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اب چین، سوشلسٹ بلاک میں قائدانہ کردار اپنا چُکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ شنگھائی فورم میں صدر پیوٹن، صدر شی جن پنگ سے کم تر نظر آئے۔ چین، روس کا قریبی دوست ہے اور تیل خرید کر اُس کی مدد بھی کر رہا ہے، مگر وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ لیڈ صدر پیوٹن جیسے کٹر روسی قوم پرست کے ہاتھ میں جائے۔
یوکرین میں امریکا کے جدید ہتھیاروں نے، جن میں پیٹریاٹ فضائی دفاعی نظام بھی شامل ہے، روس کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔ یوکرین کی تازہ ترین فوجی پیش رفت یہ ہے کہ وہ روسی آب دوزوں کو بحرِ اسود میں نشانہ بنا رہا ہے، جب کہ ڈرون حملوں سے روسی آئل ریفائنری کو بھی نقصان پہنچا چُکا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ روسی علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے۔
اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ صدر پیوٹن نے بھی روسی فوجی طاقت کا بھرپور استعمال کیا اور اس کے ڈرون ہر وقت یوکرین کی فضا میں حملوں کے لیے موجود رہتے ہیں، جیسے ٹدی دَل کا حملہ ہو۔ یوکرینی شہریوں کی ہمّت کو بھی داد دیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ وہ کسی احتجاج کے بغیر سب کچھ برداشت کر رہے ہیں اور ان کی فوجوں کے بھی حوصلے بلند ہیں۔
شہر کے شہر کھنڈر بن چُکے ہیں، جب کہ آئے دن یوکرین کا دارالحکومت، روسی میزائلز اور ڈرونز کی زد میں رہتا ہے۔ یہ یاد رہے، یورپ اور امریکا ہتھیار تو دے رہے ہیں، لیکن جنگ یوکرین کے شہری ہی لڑ رہے ہیں۔ روسی فوج کی کوشش ہے کہ وہ یوکرینی شہروں کا انفرا اسٹرکچر تباہ کر دے تاکہ عوام میں جنگ کی سختیاں برداشت کرنے کی سکت نہ رہے اور اُن کے حوصلے ٹوٹ جائیں۔ تاہم، روس چار سال میں یہ مقصد حاصل نہیں کرسکا، اِسی لیے اُسے اب معاشی، سیاسی اور عالمی طور پر اِس کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
روس اٹھارہ کروڑ آبادی کی ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کے پاس سلامتی کاؤنسل میں ویٹو کا حق ہے اور اُس کے مخالف اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ سیز فائر کی ہر کوشش ناکام بناسکتا ہے۔ اِس کے پاس اِتنی زمین ہے کہ مُلک کے تین ٹائم زونز ہیں۔ دوسری طرف یوکرین چار کروڑ آبادی کا مُلک ہے، جو پہلے سوویت یونین کا حصّہ رہ چُکا ہے۔ چرنوبل جیسی اہم ایٹمی تنصیبات یوکرین ہی میں واقع ہیں، جس کے متعلق کہا جارہا کہ روسی حملوں سے اسے نقصان پہنچا اور اس کی اسٹیل کی حفاظتی شیلڈ متاثر ہوئی، جس سے تاب کاری کے خطرات درپیش ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور دیگر اداروں کے ماہرین اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یوکرین اور روس میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں دنیا کے سب سے بڑے اجناس پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہیں۔ غالباً سوویت دَور میں ایک حکمتِ عملی کے تحت یوکرین کو، جو اس کا حصّہ تھا، اجناس اور ایٹمی طاقت کا گڑھ بنایا گیا۔ اِس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ یورپ اور روس کی سرحد پر واقع ہے۔
جس معاہدے کے تحت سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اُس پر اُس وقت کے روسی صدر، یوکرین ریجن کے حُکم ران اور امریکا کے صدر کے دست خط ہوئے۔ گندم کے علاوہ یوکرین اور روس مکئی اور فرٹیلائزر کے بھی بڑے عالمی پروڈیوسر ہیں۔ روس، یوکرین جنگ کے اثرات ہمہ گیر ہیں، خاص طور پر غریب ممالک میں غربت میں بہت اضافہ ہوا۔ دنیا بَھر میں منہگائی بڑھی اور افراطِ زر بے قابو ہوا۔ توانائی، خوراک اور سپلائی میں خلل نے عالمی مسائل میں اضافہ کیا۔
پاکستان بھی اِس جنگ کے متاثرین میں سے ہے، جہاں چار سال سے تیل، بجلی اور گیس کے بل ناقابلِ برداشت ہوچُکے ہیں۔ یوکرین، دنیا میں خوردنی تیل کا سب سے بڑا سپلائر ہے اور اِسی خوردنی تیل کی قیمتیں پاکستان میں کئی گُنا بڑھیں۔ اِس جنگ سے مرکزی بینکس پر شدید دباؤ پڑا اور اُنہیں شرحِ سود میں اضافہ کرنا پڑا۔ یاد رہے، ایک عرصے تک پاکستان میں بھی بینک انٹرسٹ20,22 فی صد رہا۔ پیوٹن نے جنگ سے قبل اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تیل، گیس اور اجناس کی ایکسپورٹ سے زبردست اضافہ کیا اور یہ600 ارب ڈالرز سے زیادہ ہوچُکے تھے۔
دوسرے الفاظ میں، اُنہوں نے جنگ کا جھٹکا برداشت کرنے کی حکمتِ عملی تیار کر لی تھی، لیکن جنگ کی طوالت اور عالمی پابندیوں کے پے در پے واروں نے روسی معیشت کا بُرا حال کردیا۔ اِس وقت روس، دنیا میں سب سے زیادہ معاشی پابندیاں برداشت کرنے والا مُلک ہے۔اِسی لیے اُس نے مجبوراً اپنا سب سے قیمتی اثاثہ، تیل، جس پر اُس کے بجٹ کا دارومدار ہے، 35 فی صد کم پر فرخت کیا۔
اس کے دو اہم خریدار چین اور بھارت ہیں، لیکن اب بھارت پر پچاس فی صد ٹیرف لگا کر صدر ٹرمپ نے اُسے تیل نہ خریدنے پر مجبور کردیا۔ عالمی پابندیوں سے تجارتی راہ داریوں میں تبدیلی، بینکنگ نظام پر دباؤ اور کرنسی کے استعمال پر فرق پڑا۔ دنیا کو غور کرنا پڑا کہ کیا ایک ہی برتر کرنسی، یعنی ڈالر پر معاشی نظام چلایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ چار سالوں سے مختلف ممالک اِس معاملے پر غور کر رہے ہیں، تاہم ابھی تک گلوبلائزیشن کے اثرات اِس قدر وسیع ہیں کہ ڈالر کی برتری فوری ختم کرنا ممکن نہیں۔
جب صدر پیوٹن نے یوکرین پر حملہ کیا، تو یورپی یونین نے کہا کہ یہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ پر سب سے بڑا حملہ ہے۔ نیز، گلوبلائزیشن پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوئے۔ اِس نظریے کے تحت مُلک ایک دوسرے پر زیادہ انحصار کرنے لگے تھے، خاص طور پر چین کے مال کی وسعت نے اُسے بہت تقویت دی، لیکن یوکرین کی جنگ سے یہ گلوبلائزیشن کا نظریہ کم زور ہوا۔ ہر مُلک خُود مختاری سے متعلق سوچنے لگا، یعنی ہر چیز وہ خود ہی تیار کرے اور اپنے بارڈرز دوسروں کے لیے بند کردے۔ اِس جنگ کا سب سے خوف ناک نتیجہ قوم پرستی کی شکل میں سامنے آیا۔
ایک اندازے کے مطابق اِس صدی کے اوائل میں یورپ اور برطانیہ میں سب سے زیادہ چینی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے تھے، مگر اب یہ ممالک طلبہ کو سخت قوانین بنا کر ڈی پورٹ کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں قوم پرستی کا پھر سے احیا ہوا۔ ویسے بھی وہ یوکرین کے مہاجرین پر دوسرے ممالک کے مہاجرین کو کیوں ترجیح دیتے، جب کہ روس اور چین میں تو تارکینِ وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، حالاں کہ یہ ترقّی یافتہ ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔
روس کا یہ دعویٰ کہ یوکرین کے روسی بولنے والے اس کا حصّہ ہیں، اِس سے قومی ریاست کا نظریہ کم زور ہوا۔ جدید ممالک میں تو مختلف زبانیں بولنے والے ایک ہی سرزمین پر مشترکہ مفادات کے تحت ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اب اگر لسانی تعصّب کو مُلک توڑنے کا جواز بنالیا جائے، تو یہ طوفان کہاں رکے گا، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مغرب میں قوم پرست جماعتیں اقتدار میں آرہی ہیں۔
آپ ذرا سوشل میڈیا پر جا کر اُن ممالک کے عوام کے کمنٹس دیکھیں، تو اندازہ ہوگا کہ وہ کیسے عالم گیریت سے بے زار ہو رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے چمپیئن ممالک کے عوام اپنے حُکم رانوں کو کہہ رہے ہیں کہ’’ہم پر کسی کا قرض نہیں، ہمیں کیا ضرورت کہ دنیا کا غم پالیں۔ اگر ہمارے اجداد نے کالونیاں بنائیں، تو یہ تاریخ کا حصّہ ہے، اب ہمیں صرف اپنا معیارِ زندگی دیکھنا ہے۔دیگر ممالک سے آنے والے دوسرے سیّاروں کی مخلوق ہیں، اِنہیں یہاں سے نکالو، جنہوں نے ہمارے شہر گندے اور کلچر تباہ کردیا۔‘‘
یوکرین جنگ اگر ختم بھی ہوجاتی ہے، تب بھی اس کے اثرات عرصے تک جاری رہیں گے کہ اس نے عالمی معیشت تہس نہس کردی۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک منہگائی اور توانائی کی کمی کی وجہ سے مشکلات میں گِھرے ہوئے ہیں۔ اِن ممالک میں سیاسی عدم استحکام سے جمہوریت کم زور ہوئی۔ عوام میں روزگار جیسے مسائل کی وجہ سے بے چینی ہے۔ مایوسی، بہتر زندگی کی تلاش میں اُنہیں بے سمت کر رہی ہے۔
ایسے میں بڑی طاقتیں، بلاک بنانے کے چکر چھوڑ کر ان معاملات پر توجّہ دیں، وگرنہ کم زور معیشت کے حامل ممالک اُن کے لیے بھی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔مشکل یہ ہوئی کہ ٹرمپ ایک طرف تو’’امن کے داعی‘‘ ہیں، مگر دوسری طرف بھاری ٹیرف لگا کر معیشتوں کے لیے ہی نہیں، موجودہ معاشی نظام کے لیے بھی چیلنج پیدا کر رہے ہیں۔ پھر اُنہوں نے تارکینِ وطن کے خلاف بھی شدید اور مسلسل مہم شروع کر رکھی ہے، جس کے اثرات یورپ پر بھی مرّتب ہو رہے ہیں۔ برطانیہ جیسی ملٹی کلچر کی حامی مملکت بھی اپنے امیگریشن قوانین سخت کر رہی ہے۔
اگر یہ عدم استحکام اِسی طرح طوالت اختیار کرتا رہا، تو پھر کم زور ممالک خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اسلحہ جمع کرنے پر زیادہ خرچ کریں گے، جس سے اُن کی ترقّی اور معیارِ زندگی کی دوڑ سُست پڑ جائے گی۔ اِس صدی کے آغاز میں ترقّی اور معیارِ زندگی بلند کرنے کے عالمی تعاون پر جو یک سُوئی محسوس ہوئی تھی، وہ اب گھٹتی جارہی ہے۔ ہر طرف یہ یقین اور اعتماد تھا کہ جنگوں کا زمانہ گزر گیا۔ چین کی حیرت انگیز ترقّی مثال بن گئی۔اس کے جنگ نہ کرنے اور صبر کی پالیسی کو داد دی جارہی تھی۔
صدر پیوٹن، چین کے ساتھ قریبی تعلقات کو ایک بلاک میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے’’گلوبل ساؤتھ‘‘ کہا جارہا ہے۔ بظاہر تو یہ بہت اچھا ہے، اگر یہ ویسٹ کی طرح غریب ساؤتھ کے کم ترقّی یافتہ ممالک کو بھی معاشی مضبوطی اور ترقّی دے، لیکن اگر یہ سرد جنگ کی طرح کسی فوجی بلاک میں تبدیل ہوجاتا ہے، تو پھر دنیا خطرات سے دوچار ہوجائے گی، کیوں کہ روس اور چین کی لیڈر شپ بھی قوم پرستی میں کسی سے کم نہیں۔
اب اگر ویسٹ میں بھی یہی رجحانات زور پکڑتے ہیں، تو پھر عالمی سیکیورٹی کو، چاہے وہ فوجی ہو یا معاشی، کس نوعیت کے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بارڈرز کو طاقت کے زور پر بدلنے پر اصرار یا لسانی بنیادوں پر کسی مُلک پر قبضہ، کسی کے لیے سُود مند نہیں ہوگا۔ بلاشبہ، صدر پیوٹن نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، وہ یورپ کی سُنتے ہیں اور نہ ہی امریکا یا اپنے قریبی دوست چین کی۔
وہ امن تو چاہتے ہیں، مگر اپنی شرائط پر، جس کے لیے یوکرین قطعاً تیار نہیں۔ویسے اب یورپ اور امریکا نے بھی اُس کی پُشت پناہی کی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔ صدر ٹرمپ سے لاکھ اختلاف سہی، لیکن وہی روس، یوکرین میں سیز فائر کے لیے کوشاں ہیں۔ شاید پیوٹن کو روس کے بکھرنے کی یادیں چین نہیں لینے دیتیں اور وہ مغرب سے ہر صُورت ایک مرتبہ جنگ کے میدان میں جیتنا چاہتے ہیں۔