• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آپ کو صدیوں پرانی بات نہیں بتا رہا۔ آج بھی یخ ٹھنڈے ممالک کے لوگ جانوروں کی کھال سے بنا ہوا لباس پہنتے ہیں۔ جن جانوروں کی کھال سے بنا ہوا لباس لوگ پہننا پسند کرتے ہیں، وہ جانور ان کے اپنے ممالک کے ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کے جانور ان کے اپنے ممالک میں پیدا ہوتے ہیں۔ کھیل، کود کر بڑے ہوتے ہیں۔ اپنے آباؤ اجداد کی طرح خود بچے جنتے ہیں۔ بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ ان کو جوان ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کو شکار ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ان کی تکہ بوٹی بنتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان کی اتری ہوئی کھال سے لباس بنتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ پرانے دور میں کھانے والے بغیر پکائے ہوئے کچی تکہ بوٹی کھا جاتے تھے۔ جب سے مرچ مسالے ایجاد ہوئے، لوگوں نے تکہ بوٹی آگ پر پکانے کے بعد کھانی شروع کی۔ اسی طرح جانوروں کی اتاری ہوئی کھال دھونے اور صاف کرنے کے بعد مارکیٹ میں آنے لگی۔ کھالوں سے تب کے دور حاضر کے فیشن کے مطابق لباس بنانے لگے۔

کھالوں کا بیوپار بڑھ جانے کے بعد کھالیں بیچنے والوں نے دکان اور دکانوں سے مارکیٹ سجا لیے۔ ہر نوعیت کے جانور کی دھلی اور صاف ستھری کھالیں بکنے لگیں۔ بڑھتے ہوئے شعور نے معاشرے کو نئی جہتیں دیں۔ لوگ ایک دوسرے کو پہنی ہوئی کھال کے لباس سے پہچاننے لگے۔ شیر کی کھال پہننے والوں کو عزت سے دیکھا جانے لگا۔ شیر کے بعد گینڈے اور ہاتھی کی کھال پہننے والوں کو بھی معاشرے میں عزت ملنے لگی۔ یاد رہے کہ گینڈا اور ہاتھی جسامت اور اپنے بل بوتے پر شیر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر کے شیر بھول کر بھی گینڈے اور ہاتھی سے پنگا نہیں لیتے۔ تاریخ کے اوراق میں کئی بار شیر اپنے سے کم تر گینڈے اور ہاتھی سے الیکشن میں مات کھا چکے ہیں۔

کھالوں کے لین دین کے دوران کئی مرتبہ میں اس دنیا میں جھک مارنے آچکا ہوں۔ میں بھی بدل بدل کر کھالیں خریدتا ہوں، لباس بنواتا ہوں، پہنتا ہوں اور پھر بیزار ہوکر اتارکر پھینک دیتا ہوں اور پھر دوسرے کسی جانور کی کھال خریدکر پہن لیتا ہوں۔ کئی جنموں سے اسی طرح میرا گزر سفر ہوتا رہا ہے۔ ایک مرتبہ شیر کی کھال خریدتے ہوئے مجھ سے دھوکہ ہوگیا تھا۔ تب مجھے پہلی مرتبہ پتہ چلا تھا کہ سب شیر ایک جیسے نہیں ہوتے، کچھ شیر اپنی فطرت کے برعکس عادات اور اطوار میں گیڈر کی خصلت کے ہوتے ہیں اور کچھ شیر ہوبہو لومڑ جیسے لگتے ہیں۔ میں نے جس شیر کی کھال خرید کر پہن لی تھی، اس شیر میں عامیانہ جانوروں جیسی خصوصیات تھیں۔ مثلاً اچانک میں گلی کے پاگل کتے کی طرح بھونکنے لگتا تھا۔ یہ بات مجھے قطعی اچھی نہیں لگتی تھی۔ میں نے کھالیں بیچنے والے سے شکایت کی، میں نے کھالیں بیچنے والے سے کہا۔ ’’تم نے کبھی کسی ببر شیر کو کتے کی طرح بھونکتے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘ کھالیں بیچنے والے نے چونک کر میری طرف دیکھا، کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے اس نے کہا۔ ’’آئی ایم سوری سر… ایک مرتبہ ببر شیر پنجرے سے باہر نکل گیا تھا۔ تب بند گلی کے پاگل کتے نے اسے کاٹ لیا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ببر شیر کی کھال پہننے والا غرانے کی بجائے کتے کی طرح بھونکنے لگتا ہے۔ سر، میں آپ کو دوسرے شیر کی کھال دکھاتا ہوں۔

دکاندار نے مجھے دوسرے ببر شیر کی کھال دکھائی۔ کھال دکھاتے ہوئے دکاندار نے کہا۔ ’’سر! میں جھوٹ کبھی نہیں بولتا۔‘‘

’’اپنی بات مت کر۔‘‘ میں نے دکاندار سے کہا۔ ’’مجھے شیر کے بارے میں بتا۔‘‘

دکاندار نے کہا۔ ’’سر! یہ ایک بے وقوف شیر کی کھال ہے۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’میں سمجھتا تھا کہ صرف آدمی بے وقوف ہوتے ہیں۔‘‘

’’ایک مرتبہ سیانے آدمیوں نے بے وقوف شیر کو جال میں پھنسا دیا تھا۔‘‘ کھالیں بیچنے والے دکاندار نے کہا۔ ’’آخرکار ایک چوہے نے جال کترکر شیر کو آزادی دلوائی تھی۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’میں سلام بھیجتا ہوں، ذہین چوہے پر اور احمق شیر پر۔‘‘

’’وہ دن اور آج کا دن۔‘‘ دکاندار نے کہا۔ ’’بڑی گاڑھی چھن رہی ہے، شیر اور چوہے کے درمیان، چوہے نے ثابت کردیا ہے کہ ہر جنم میں شیر احمقانہ حرکتیں کرتا رہے گا اور چوہا اپنی ذہانت سے ببر شیر کو بچاتا رہے گا۔‘‘

میں نے احمق ببر شیر کی کھال خریدلی، لگاتار تحقیق کرتے ہوئے میں نے پتہ چلالیا ہے کہ ہر کامیاب ببر شیر کی فتوحات کے پیچھے ایک ذہین چوہے کا ہاتھ ہوتا ہے۔

تازہ ترین