زندہ قومیں اپنے عظیم لیڈروں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں جنہوں نے وطن عزیز کیلئے اپنی جانیں قربان دیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈرز عطا کئے جنہوں نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ میرا اور میری فیملی کا شہید بینظیر بھٹو سے قریبی تعلق رہا ہے اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے انکے قریب رہ کر ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ آج میں شہید بینظیر بھٹو کی 18ویں برسی پر ان کیساتھ گزارے گئے کچھ یادگاری لمحات قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
شہید بینظیر بھٹوسے میری پہلی ملاقات 1994ء میں سائٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ تقریب میں ہوئی جس میں انہوں نے مجھے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے اور بیمار صنعتوں کی بحالی پر ایوارڈ دیا۔ شہید بینظیر بھٹو نے ان بیمار صنعتوں کی بحالی کیلئے مجھ سے تجاویز مانگیں جن پر عملدرآمد کرکے پاکستان کی بے شمار بیمار صنعتیں بحال ہوئیں جسکی بنا پر مجھے انکی قربت حاصل ہوئی۔اس سلسلے میں وہ مجھے اپنے ساتھ برطانیہ، کوریا، اسپین، مراکش، ترکمانستان اور دیگر کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفاقی وزراء کے ہمراہ لیکرگئیں۔ 2002ء کے الیکشن میں شہید بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جو میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ بی بی نے مجھے پیپلز بزنس فورم اور سفارتی تعلقات کی ذمہ داریاں دیں۔ میں جلاوطنی کے دوران دبئی میں محترمہ کے قریب رہا اور ہم نے اپنے برطانوی ممبر پارلیمنٹ دوستوں اور اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کی حمایت حاصل کی اور بالآخر 18 اکتوبر 2007ء کو بینظیر بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کیا۔ محترمہ نے مجھے لندن کے پارٹی اجلاس میں 2008ء کے الیکشن میں دوبارہ قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250 کیلئے پارٹی ٹکٹ دیا اور بی بی اور نواز شریف کی خواہش پر مجھے مشترکہ امیدوار نامزد کیا گیا ۔ کراچی میں بی بی کے سندھ الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ہنگامے کے بعد بی بی نے بلاول ہاؤس میں ایک ہنگامی میٹنگ بلائی جس میں میرے علاوہ شیری رحمن، رضا ربانی، رحمان ملک، شاہ محمود قریشی، قائم علی شاہ، فہمیدہ مرزا، ذوالفقار مرزا اور پارٹی کے اس وقت کے اہم رہنما شریک تھے۔ میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ سیکورٹی کے پیش نظر ہمیں الیکشن کمیشن سے آپ کی ذاتی حاضری کا استثنیٰ حاصل کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں، میں نے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کنور دلشاد سے بینظیر بھٹو کی ذاتی حاضری کے استثنیٰ کی درخواست کی جس کو مان لیا گیا لیکن رحمان ملک نے مجھے الیکشن کمیشن سے تحریری اجازت نامہ لینے کا مشورہ دیا۔ اتوار ہونے کے باوجود کنور دلشاد نے تحریری اجازت نامہ بلاول ہاؤس فیکس کیا جسے دیکھ کر محترمہ نے مجھے Welldone کہا۔ اس موقع پر ذوالفقار مرزا نے محترمہ سے مذاقاً کہا۔ ’’میڈم! ایسے کام صرف ’’مرزا ‘‘ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ محترمہ نے جواب میں کہا۔’’نہیں صرف ’’بیگ‘‘کرسکتے ہیں۔‘‘ اسی دوران میری الیکشن مہم جاری تھی اور مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی کے امیدوار سلیم ضیا کے میرے حق میں دستبردار ہونے سے میری پوزیشن بہت مضبوط تھی۔ 27دسمبر 2007ء کی شام میرے قریبی دوست فرخ مظہر نے اپنی رہائش گاہ پر میری انتخابی میٹنگ رکھی۔ تھوڑی دیر میں جلسے میں موجود ڈاکٹر مختار بھٹو بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور روتے ہوئے بتایا کہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ میں میزبان فرخ مظہر کیساتھ انکے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا جہاں ٹی وی پر بینظیر بھٹو کی شہادت کی اندوہناک خبر نشر ہورہی تھی ۔ میںسیدھا بلاول ہاؤس بھاگا جہاں سب اپنی عظیم لیڈر کے بچھڑنے پر ایک دوسرے سے گلے لگ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ رات گئے جب میں ٹوٹا ہوا بلاول ہاؤس سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر جگہ جگہ آگ لگاکر اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔ پارٹی کی درخواست پر میں نے نوڈیرو جانے کیلئے دبئی اور مختلف جگہوں سے چارٹر فلائٹ کیلئے رابطے کئے۔ میں شہید بینظیر بھٹو کا جسد خاکی نوڈیرو سے گڑھی خدا بخش لیجانے اور مجھ سمیت لاکھوں افراد کی آہوں و سسکیوں میں ان کی تدفین کا منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے کئی روز بعد اُن کے بلیک بیری سے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک میسج آیا کہ ’’شہید بی بی کے آخری پیغامات میں آپ کو کیا گیا یہ ایس ایم ایس بھی شامل ہے جو بی بی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مجھے کیا تھا۔
"Are you happy, now you must win this seat, good luck"
میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ بی بی سے یہ میری آخری گفتگو ہوگی۔ میں NA-250 سے الیکشن جیت گیا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی MQM کیساتھ اتحادی حکومت بنانے کی وجہ سے پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں جیتنے کے باوجود مجھے سندھ ہائیکورٹ میں MQM کیخلاف دائر کیس سے دستبردار ہونے کی ہدایت کی اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی پارٹی ڈسپلن پر عمل کیا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں وعدے کے مطابق بلاول ہاؤس حلقے کی نشست بی بی کو نہ دے سکا لیکن 2024 ءکے الیکشن میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور دیگر سینئر رہنماؤں کی تجویز پر میں نے ڈیفنس کلفٹن اور ملحقہ علاقوں کے حلقے NA-241 سے الیکشن لڑا اور اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے کامیابی دی۔ میں انشاء اللّٰہ آج 27 دسمبر کو قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے بی بی کی برسی پر پارٹی کی سینئر قیادت کے ساتھ خصوصی طیارے میں گڑھی خدا بخش جارہا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ بی بی سے 18سال قبل بلاول ہاؤس حلقے کا الیکشن جیتنے کا وعدہ پورا ہوگیا۔