• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چوہدری نثار کا سب سے بڑا مسئلہ وہ خود ہی ہیں، چاہتے یہ ہیں کہ وہ ہر چیز کو کنٹرول کرتے دکھائی دیں۔ جب وہ گزشتہ حکومت میں قائد ِ حزب ِ اختلاف اور پی ایم ایل (ن)کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر تھے تو یہ ’’نظم و نسق‘‘ بخوبی چل رہا تھا۔ نواز شریف زیادہ تر لاہور میں ہی سکونت اختیار کرتے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے اسلام آباد کی سونی گلیوں (یا اس کا متبادل وہاں جو کچھ بھی ہے) میں چوہدری صاحب ہی ’’مرزا یار پھرے‘‘ کی عملی تفسیر تھے۔
اصولی طور پرجاوید ہاشمی اس مقام کے حقدار تھے کیونکہ جب نواز شریف اور شہباز شریف سعودی عرب میں جلاوطن تھے... بریگیڈیئر نیاز کا شکریہ کہ اُنہوں نے مشرف کو راضی کرلیا کہ وہ اُنہیں لندن جانے کی اجازت دے دیں کیونکہ اتنی پرہیز گاری کی فضا بھی دل کو بوجھل کردیتی ہے...تو جاوید ہاشمی ہی پارٹی کے قائم مقام صدر تھے تاہم مشرف کو چیلنج کرنے اور طویل عرصہ تک جیل کی صعوبت بھگتنے کے بعد جاوید ہاشمی کو اپنی مقبولیت کا زعم ہو چلا تھا اور یہ بات نوازشریف اور ان کے سیاسی کنبے کے لئے ناقابلِ برادشت تھی چنانچہ ہاشمی صاحب سائیڈ لائن پر اور پارلیمانی قیادت کا جھومر چوہدری نثار کی پیشانی پر سج گیا۔
چوہدری نثار کے لئے یہ ایک پسندیدہ کردار تھا کیونکہ ایک طرف وہ پارلیمانی پارٹی کے قائد تو دوسری طرف بیچاری قومی اسمبلی ان کی دامن ِ قیامت سے جڑی طویل تقاریر، جن میں بسا اوقات ایک ہی موضوع کا اعادہ اتنے تواتر سے ہوتا ہے کہ مائیک بھی کان پکڑ لیتا ہے، کے رحم و کرم پر ، عاجز، مجبور بلکہ مقہور۔ ہو سکتا تھا کہ ان کو سنتے ہوئے زیادہ تر ارکان ِ اسمبلی رسمی برداشت سے دستبردار ہوجاتے لیکن آفرین ہے پی پی پی کے افہام وتفہیم کے منتر پر کہ اُنھوں نے کان بند رکھے لیکن زبان کو زحمت نہ دی۔ یہ وہ زمانہ تھاجب اکثر معزز ارکان قومی اسمبلی آرام دہ نشستوں پر سوتے ہوئے یا سونے کی کوشش میں مصروف پائے گئے اور میڈیا کے ہتھے چڑھ کر مزاحیہ پروگراموں کی زینت بنے۔ بہرحال اس اجتماعی کوشش کا ایک ہی منطقی نتیجہ نکلا کہ نثار علی خان جو کہتے یا کرتے، سے کوئی پوچھ گچھ نہ تھی۔
تاہم ایک مرتبہ وہ بری طرح پھنس بھی گئے جب ناگہانی طور پر اور کسی وجہ کے بغیر اُنہیں ایم کیو ایم کے چیف الطاف حسین سے دو دو ہاتھ کرنے کی سوجھی۔اُنہوں نے ان کی بعض ناگفتنی بیماریوں اور شمالی لندن کے کسی اسپتال میں ان کے علاج کا بھی حوالہ دیا۔ اس پر ایم کیو ایم کا رد ِ عمل برق رفتار اور سخت تھا۔ پارلیمنٹ کے سامنے متجسس میڈیا بے صبری سے انتظار کررہا تھا اس پر سیاست دانوں کا کیا رد ِ عمل ہوتا ہے جب وسیم اختر اور حیدر عباس رضوی نے موجودہ حکمرانوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ اُنھوں نے کہا کہ جلاوطنی کے دور میں یہ رہنما بالوں کو ٹرانس پلانٹ کراتے دکھائی دیئے۔ کچھ اسی طرح کی اور باتیں بھی کہی گئیں۔ اس کے بعد نثار نے کبھی بھی ایم کیو ایم کے ساتھ چھیڑ خانی کی غلطی نہیں کی۔
چوہدری نثار کی سیاسی قوت، کم از کم پارٹی کے ارکان ِ اسمبلی کی نظر میں، ان کی وزیر ِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ قربت میں مضمر تھی۔ چونکہ پاکستان میں اضلاع اور انتخابی حلقوں میں سیاسی طاقت کے سوتے وزارت ِ اعلیٰ کی ایما سے پھوٹتے ہیں، اس لئے پی ایم ایل (ن) کے زیادہ ارکان چوہدری نثار کی ناراضی کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ان دونوں رہنمائوں میں گاڑھی چھنتی ہے۔ کوئی بھی شہباز شریف سے اتنا فری نہیں جتنا چوہدری نثار۔ تاہم آج حالات بہت بدل گئے ہیں۔ اب نواز شریف رائے ونڈ تک محدود نہیں بلکہ اسلام آباد میں وزیرِ اعظم ہیں۔ اب نثار پارلیمانی پارٹی میں سے ایک رکن ہیں۔ ان کی طرح بہت سے اور ارکان بھی وزیر ِ اعظم کا اعتماد رکھتے ہیں، اس لئے ان کی بھی اہمیت مسلّم۔ یہ بات نثار علی خان، جو خود کو ہمیشہ پارٹی کا نمبر تھری مانتے تھے، کے لئے ناقابل ِ برداشت ہے۔ چنانچہ سامنے آنے والی رنجش کسی پالیسی کے معاملے پر نہیں بلکہ اہمیت کے خود ساختہ آبگینے کو پہنچنے والی ٹھیس(یہ بھی خود ساختہ) کی وجہ سے ہے۔ میڈیا کسی پالیسی اختلاف کی تلاش میں ’’اندر غبار ِ ناقہ گم ‘‘ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چوہدری نثار نرگسی رویّے کی اوج پر ہوں لیکن جب میڈیا کے ساتھ معاملہ درپیش ہو تو وہ جانتے ہیں کہ کون سا بٹن دبانا ہے۔ دو یا تین صحافی ان سے قربت رکھتے ہیں اور وہ ان کے کانوں کو بھلی لگنے والی کہانیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہی صحافی پالیسی اختلاف کی کہانیاں سامنے لارہے تھے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ اہمیت کی کمی بیشی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ایسے معاملات میں’’ کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر ِ تصویر کا‘‘ اس کے علاوہ کوئی اور بات ہو ہی نہیں سکتی۔
وزیر ِ اعظم کی طرف سے طالبان سے بات چیت کرنے کے لئے تشکیل دی گئی حکومتی ٹیم کے ارکان ذی فہم اور صاحب ِ رائے شخص تھے جیسا کہ کالم نگار عرفان صدیقی، رستم شاہ مہمند، میجر عامر اور نامور صحافی رحیم اﷲ یوسف زئی۔ان افراد سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ چوہدری نثار سے دانائی کا سبق لیتے۔ اس لئے جب چوہدری صاحب نے دیکھا کہ اُنہیں نظر انداز کر دیا گیا،وہ مذاکرات سے الگ ہوگئے۔ اس سے پہلے نثار کا کردار اُس وقت بہت اہم ہو گیا تھا جب وہ اور شہباز مبینہ طور پر سابق آرمی چیفس سے رات کی تاریکی میں ملتے تھے۔ اس سے نواز شریف کو یہ تاثر دیا جاتا کہ نثار فوج کی اعلیٰ قیادت سے بات کرسکتے ہیں، جبکہ فوج کو یہ تاثر دیا جاتا کہ وہ نواز شریف کے انتہائی قریب ہیں تاہم اب جبکہ موجودہ آرمی چیف اور وزیر ِ اعظم کے درمیان براہ ِراست بات چیت ہورہی ہے، اس لئے کسی ’’درمیانی واسطے ‘‘ کی ضرورت نہیں تو نثار کے لئے اب لد گئے دن بہار کے۔
اب نواز شریف نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ چوہدری نثار کو راضی کرلیں کیونکہ ایک تو اُنہیں پرانے وقتوں کا احساس ہے اور پھر جبکہ وہ دوسرے محاذوں پر مصروف ہیں، اُنہیں وزیر ِ داخلہ کی طرف سے پریشانی نہیں چاہئے کیونکہ اس سے حکومت کی کمزوری کا تاثر ملتا ہے تاہم نثار کے ’’دکھوں ‘‘ کا مداوا اس طرح کی مرہم پٹی نہیں کرسکتی۔ وہ اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اسحاق ڈار کی سرزنش نہ کی جائے، خواجہ آصف کی اہمیت گھٹا نہ دی جائے، وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کا وزیر ِ اعظم ہائوس میں داخلہ بند نہ کردیا جائے اوروزیر اعظم کے ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد ، جنہیں وزیر ِ اعظم کی سماعت قرار دیا جاتا ہے، کی اہمیت کو معقول حد تک کم نہ کردیا جائے۔ ان اقدامات سے کم پر وہ راضی نہ ہوں گے۔ حتیٰ کہ اگر ان معاملات پر سوچ بچار بھی کی جائے تو بھی ان کی دل شکنی ہوگی۔
پی ایم ایل (ن) کی قیادت کے اسٹائل کو خالص ’’پنجابی‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے.. جی بھر کے کھانا ، کھانے سے تھک کر آرام کرنا اور سوجانا اور ہر دو کے وقفے میں ذہن کو سوچ بچار کی زحمت سے بچائے رکھنا۔ اس ٹیم میں چوہدری نثار نسبتاً چالاک ہیں تاہم ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اکیلے کچھ نہیں کرسکتے ہیں، وہ کسی کی ساجھے داری برداشت کرنے کے روادار نہیں۔ سیاسی طور پر فعال رہنے کے لئے اُنہیں پارٹی کا دامن تھامے رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا حلقہ، جس میں چکری، واہ اور ٹیکسلا شامل ہیں، اب ان کے لئے محفوظ نہیں رہا۔ اس حلقے میں وہ دو مرتبہ سرور خان کے ہاتھوں شکست کھاچکے ہیں جبکہ گزشتہ انتخابات میں پنڈی میں بھی پی ایم ایل (ن) کی کارکردگی اچھی نہ تھی۔
بھٹو صاحب اکیلے ہی کافی تھے کیونکہ ان میں اس کا پوٹیشنل موجود تھا۔ کیا عمران قومی سطح پر یہ مقام پاتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن وہ بھی کسی کے ماتحت کام کرنے کے لئے تیار نہیں۔ نثار بھی ذہین افراد کے اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی نے اُنہیں شریف برادران کا ماتحت بنادیا ۔ اب وہ تو نثار کے بغیر اپنی سیاسی قوت قائم رکھ سکتے ہیں ، نثار ایسا نہیں کرسکتے۔ جو بھی بڑے عزائم رکھتا ہو، اس کے لئے یہ احساس انتہائی تکلیف دہ ہوتاہے کہ اُسے کسی کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔
پس ِ تحریر: جب فوج شمالی وزیرستان میں انتہائی اہم آپریشن میں مصروف ہے تو اس دوران پراپرٹی بزنس سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ کیا پشاور ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی کے لئے پشاور کے نزدیک زرعی زمین حاصل کرنے کے لئے یہ مناسب وقت ہے؟کیا اس وقت فوج کی پوری توجہ شمالی وزیرستان پر مرکوز نہیںہونی چاہیے۔ کیا جنرل راحیل شریف اس پر مہربانی فرما کر مداخلت کریں گے؟
تازہ ترین