• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج مجھے سرحد کے دونوں اطراف معتبر سیاست دانوں سے مودبانہ گزارش کرنی ہے کہ نام میں کسی سیاستدان کا نہیں لوں گا سب سیاستدان میرے لئے معتبر ہیں میں ان سب کی بے انتہا عزت کرتا ہوں ان سب کو عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔ لوگ ان کو سنتے ہیں ان کی باتوں کا اعتبار کرتے ہیں انکے ہر دعوےکو درست مانتے ہیں ایک دوسرے کو چونا لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ بٹوارے کے دونوں  اطراف آب و ہوا ایک جیسی ہوتی ہے سمندر ایک جیسے ہوتے ہیں پہاڑ ایک جیسے ہوتے ہیں زمین ایک جیسی ہوتی ہے مگر ایک جیسی زمین میں محبت کے بیج نہیں بوئے جاتے ایک جیسی زمین میں ایک دوسرے کیلئے نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ بٹوارے کے بعد سے آج تک دونوں اطراف کے سیاستدان ایک دوسرے کیلئے نفرت کے بیج بوتے آئے ہیں اور نفرتوں کی فصل کاٹتے رہے ہیں ۔ ایسے لاجواب سیاستدانوں سے آج مجھے کچھ باتیں کرنی ہیں تمام باتیں میں ان سے اپنی طرف سے نہیں کررہا ہوں ۔ مجھ میں بیشمار علتوں میں سے ایک علت یہ بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کہ میں ان لوگوں کی طرف سے بولنے میں پہل کرتا ہوںجو منہ میں اچھی خاصی زبان رکھنے کے باوجود چپ رہتے ہیں اور بولنے پر خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں لوگ ان کو گونگا سمجھتے ہیں مگر وہ گونگے نہیں ہوتے ۔جب وہ اپنی ساس کے قصے کہانیاں سنانا شروع کرتے ہیں تب وہ تھکتے نہیں ، قصے کہانیاں سننے والے سوجاتے ہیں مگر قصے کہانیاں سنانے والے اپنے قصے کہانیاں جاری رکھتے ہیں بہرحال وہ لوگ گونگے بہرے نہیں ہوتے وہ آپ کو سرسوں اور سرکہ کا اچار ڈالنے کی ترکیب شد و مد سے سناسکتے ہیں مگر حالات حاضرہ پر بولنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اجتناب کیا چیز ہے ؟وہ حالات حاضرہ پر بولنے سے انکار کردیتے ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ وہ حالات حاضرہ پر بولنے والوں کا حشر نشر دیکھ چکے ہیں۔ بات چونکہ بٹوارے کے اطراف چھائے ہوئے نامی گرامی معتبر اور ہر دل عزیز سیاستدانوں کی ہورہی ہے اسلئے میں نام لیکر کسی ملک کو عیاں کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ سیانا ہوں دونوں  ممالک کے سیاسی اور سماجی حالات کو خوب اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں ۔اڑتی چڑیا کے پر گن سکتا ہوں اس لئے میں تالاب کے قریب بیٹھی ہوئی بطخ کے پر گننے پر اکتفا کرتا ہوں ۔ دونوں ممالک کی سیاست میں ہورہی شطرنج کے بارے میں ، میں کچھ نہیں جانتا اگر جانتا ہوتا تو پھر بھی تبصرہ کرنے سے گریز کرتا ۔ دونوں ممالک کے سیاستدان جس نسل سے ہوتے ہیں میرا اس نسل سے کوئی رشتہ ناتا نہیں ہے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میرا تعلق اس نسل سے ہے جس پر بے دریغ قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عتاب یعنی قہر نازل ہوتا ہے ۔ آپ سمجھدار ہیں اشاروں کنایوں میں کہی ہوئی بات سمجھ جاتے ہیں ،بس میرے لئے اتنا بتا دینا کافی ہے کہ مجھ جیسے نامراد کا تعلق کس نوعیت کی نسل سے ہوسکتا ہے ۔ میں بٹوارے کے اطراف یعنی دونوں جانب کے لکھاریوں،فنکاروں ،لوک فنکاروں، پینٹروں، رنگ سازوں اور مختلف کھیلوں کے کھلاڑیوں کی طرف سے دونوں ممالک کے معتبر سیاستدانوں سے بات کرنے کی گستاخی کررہا ہوں ۔آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیںکہ ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کی جانب سے سیاستدانوں سے بات کرنے کی مجھے کس نے اجازت دی ہے۔ میں دال ماش کے دانے کے برابر ہوں۔کیسے کسی معتبر ہستی سے کسی مسئلہ پر بات کرسکتا ہوں؟ عرض ہے کہ جس نسل سے میرا تعلق ہے اس نسل کے لوگ اپنے گھروں کو دروازے نہیں لگواتے ۔ ہم سزا وار اس دنیا میں آتے ہیں اور سزا وار اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ہم کسی بندے بشر سے کسی قسم کی اجازت نہیں لیتے ۔ جو جی میں آتا ہے کرگزرتے ہیں۔ سزائیں بھگت رہے ہیں اور اوجھل ہوجاتے ہیں ۔یاد ہے کسی کو پچھلے اولمپک گیمز کہاں کھیلے گئے تھے ؟ لاہور میں کھیلے گئے تھے اولمپک گیمز؟ لاڑکانہ میں ؟ ٹنڈو باگو میں کھیلے گئے تھے اولمپک گیمز ؟رتو ڈیرو میں کھیلے گئے تھے ؟ کہیں تاج محل کے قریب فتح پور سکری میں تو نہیں کھیلے گئے تھے ؟ بنارس ؟ کولکتہ؟ لندن؟ کہیں پیرس میں تو نہیں اولمپک گیمز کھیلے گئے تھے ؟ پاکستان اور ہندوستان کے لوگ نہیں  جانتے، سیاستدان نہیں جانتے کہ پچھلے اولمپک کھیل کہاں کھیلے گئے تھے ، سیاستدانوں کی انگلیاں دانتوں  تلے تب آگئی تھیں جب پاکستان کے ارشد ندیم نے گولڈ میڈل جیتا تھا اور ہندوستان کے نیرج چوپڑا چاندی کا میڈل جیت کر دوسرے نمبر پر آئے تھے ۔ ایک ملک کے سیاستدان آگ بگولہ ہوگئے تھے وہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ نیرج چوپڑہ ہار سکتا ہے ۔ دونوں ممالک کے سیاستدان حواس باختہ تب ہوئے تھے جب ارشد ندیم اور نیرج چوپڑہ نے گرم جوشی سے ہاتھ ملائے تھے ۔ شاید جھپی بھی پائی تھی ۔ دونوں اطراف کے لوگ خوش تھے ۔ یہ بات معتبر سیاستدانوں کو اچھی نہیں لگی تھی۔ سیاستدان طے کرچکے ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے دیرینہ دشمن ہیں ۔ قیامت تک وہ آپس میں لڑتے ،جھگڑتے مرتے اور مارتے رہیں گے۔ معتبر سیاستدان خوش تب ہوتے ہیں جب ایشین کرکٹ چیمپئن شپ میں کھیلتے ہوئے ہندوستان کی ٹیم نے پاکستان کرکٹ ٹیم سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا تھا۔ تماشا دنیا نے دیکھا تھا ، یہ فیصلہ ٹیم کا نہیں تھا، یہ فیصلہ قیامت تک لڑنے مرنے کے جنون کو پالنے والے جنونی سیاستدانوں کا تھا ۔ فقیر کی گزارش صرف اتنی ہے کہ آپ اپنی سیاست کو کھلاڑیوں او ر فنکاروں سے دور رکھیں، فنکاروں اور کھلاڑیوں کی زندگی جنونی سیاستدانوں سے مختلف ہوتی ہے ۔ وہ محبت کے متوالے ہوتے ہیں ۔ سنیل گواسکر اور عمران خان اگر گرم جوشی سے ملتے ہیں ، گلے ملتے ہیں ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے تو اس میں کسی ایرے غیرےنتھو خیرے کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ؟ اور کیوں ہوسکتا ہے ۔ معتبر سیاستدانوں کھیل اورکھلاڑیوں فن اور فنکاروں کو جنگ کے میدان میں مت اتاریں۔

تازہ ترین