ہمارے ملک میں جہاں کئی اچھی اور کئی بری روایات ہیں وہاں کچھ عجیب و غریب روایات بھی ہیں۔ مثلاً ہر طبقہ اپنے اپنے پیٹی بھائیوں کے ظلم، غلطیوں اور زیادتیوں کے باوجود انہیں بچانے کے لئے حد سے گزرجاتا ہے، سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے لوگ نہ صرف اپنے پیٹی بھائی کے دفاع میں بیانات دیتے ہیں بلکہ دھرنے ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ اپنے ساتھی کے جرم کو چھپانے کے لئے سچ کا گلا گھونٹتے ہیں اور حقائق کو اتنا توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں کہ ایک نیوٹرل شخص کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ حقیقت کیاہے۔ چند روز پہلے میں نے روزنامہ جنگ میں ایک کالم پڑھا جس کی سرخی تھی ’’پولیس کا شرمناک طرز عمل … اور کچھ نا مناسب فیصلے‘‘ پولیس کے خلاف کالم لکھنے والا یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ گریڈ 21 کا ایک حاضر سروس پولیس افسر ہی ہے جو اپنے کالم کے آغاز میں ہی ماڈل ٹائون کے واقعہ کو پولیس کی طرف سے درندگی کا بدترین نمونہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسلام آباد پرڈنڈا بردار ورکروں کے آگے بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگنا بھی باعث شرم تھا۔ خالی اس پر بات ختم نہیں ہوتی میں نے اس پولیس افسر کے بارے میںیہ بھی سن رکھا ہے کہ اگر الیکشن میں اسے کوئی حکمران کوئی ایسا حکم دیتا ہے جس سے نا انصافی یا کسی دوسرے فریق سے زیادتی کا عنصر نظر آتا ہو تو وہ صاف انکار کردیتا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اسکا سارا کیریئر دائو پر لگ سکتا ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو اسے کھڈے لائن لگایا جاسکتا ہے، لیکن یہ ’’عجیب‘‘ افسر ہروقت اپنا بیگ تیار رکھتا ہے کسی بھی پوسٹنگ پر یا کسی بھی علاقے میں تعیناتی پر اپنی خدمات ، پی آر یا ماہرانہ صلاحیت کی آڑ لے کر تبادلہ رکوانے یا اچھی پوسٹنگ کے لئے منت سماجت نہیں کرتا۔
کئی کئی ماہ طویل انتظار کے بعد بھی جب شہریوں کو پاسپورٹس نہیں ملتے اور لاکھوں درخواستوں کا انبار لگادیاجاتا ہے۔ شہری احتجاج شروع کردیتے ہیں، کبھی بہانہ بنایا جاتا ہے کہ پاسپورٹس شارٹ ہوگئے ہیں کبھی کہا جاتاہے کہ لیمنیشن پیپر نہیں ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ لیمینیشن کی مشینوں کا مسئلہ ہے اور اس سے پہلے کہ حج اور عمرہ پر جانے والے عازمین ، ملازمتوں کے لئے جانے والے مزدور اور اعلیٰ تعلیم کے لئے دوسرے ممالک جانے والے اسٹوڈنٹس پاسپورٹس کے دفاترپردھاوا بولتے حکمرانوں نے اس اعلیٰ افسر کو ڈی جی پاسپورٹ لگا کر ایک ایسے ادارے میں دھکیلنے کی کوشش کی کہ جہاں ناقص سامان سفارش کی بھرمار اور بیک لاک کی گہری دلدل تھی لیکن اس ’’دیوانے‘‘ افسر نے مہینوںنہیں بلکہ ہفتوں میں صورتحال پر کنٹرول کرلیا اور پھرمختصر سے عرصے کے بعد اس افسر کو نیشنل ہائی وے اور موٹر وے پولیس کا آئی جی بنا کر بھیج دیا گیا، یہ وہ محکمہ ہے جس کے بارے میں لوگوں کی پہلے ہی اچھی رائے ہے اور یہ کہااور سمجھا جاتا ہے کہ یہاں سب ٹھیک ہے اور یہاں مزید کرنے کے لئے کچھ نہیں، لیکن اس ’’بے چین‘‘ افسر نے یہاں بھی آتے ہی تھرتھلی ڈال دی دفتر میں بیٹھ کر موٹر وے پولیس کے امور کو مانیٹر کرتے ہوئے احکامات جاری کرنے کی بجائے پورے ملک کے دورے شروع کردیئے۔ صرف موٹر وے کی کھلی شاہراہ پر پھیرے لگانے کی بجائے نیشنل ہائی وے کی دور دراز شاہراہوں پر پولیس کی کارکردگی کو چیک کرتے ہوئے کارکردگی کو بہتر بنایا۔ مختلف اداروں خاص طور پر تعلیمی اداروں میں جاکر ٹریفک پر لیکچرز دے کر نئی نسل کے ذہن میں ٹریفک کو ملک کی پیشانی قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جبکہ ملک کے مختلف ضلعوں میں سفارش اور رشوت کے باعث حاصل ہونے والے ڈرائیونگ لائسنسوں کی جگہ بین الاقوامی معیار کے مطابق لائسنس کا اجرا شروع کرایا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ ڈرائیونگ لائسنس کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح سکورنگ سے ہم آہنگ کرکے محض معمولی جرمانے کی بجائے غلط ڈرائیونگ پر لائسنس معطل ہونے کے خوف سے بہتر اور محتاط ڈرائیونگ کو فروغ دیا ۔لیکن میری حکمرانوں سے گزارش ہے کہ اس افسر سے خبردار رہیں کہیں یہ غلطی نہ کربیٹھیں کہ کراچی کے بگڑے ہوئے حالات کو سدھارنے کے لئے اس ایماندار افسر کو تعینات کردیں ورنہ کراچی پولیس کے لئے منگوائے جانے والے اربوں کے سامان میں کوئی کمیشن نہ کھا سکے گا۔ ملک میں دہشت گردی کے منڈلاتے ہوئے خطرات اور واقعات کا پہلے سے کھوج لگانے کیلئے آئی بی جیسے اداروں کے تو نزدیک بھی نہیں جانے دینا ورنہ حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے اپنوںاور مخالفین کی ’’اندر کی معلومات‘‘ نہ پہنچ سکیں گی۔ ملک کے در جنوں ایسے محکمے ہیں جو بری گورننس کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہیں انکے تو نزدیک بھی اس افسر کو پھٹکنے نہیں دینا، بلکہ میری سفارش ہے کہ ذوالفقار احمد چیمہ نامی اس افسر کو کسی ایسی جگہ کھڈے لائن لگایا جائے جہاں اس کی ساری کی ساری صلاحیتیں دھری کی دھری رہ جائیں تاکہ یہ بھی ان ہزاروں ماہر پاکستانیوں کی طرح کسی دوسرے ملک بھاگ جائے جنہیں اس ملک میں کام نہیں کرنے دیاجاتا۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشیدشاہ کی اس تجویز کہ آئین میں ترمیم کرکے عدلیہ کے جج کے علاوہ کسی بھی اہل یا ایماندار شخص کو الیکشن کمیشن کا سربراہ بنانے کے امکانات پیدا کرنے کی صورت کے بعد مجھے تو یہ خطرہ بھی پیدا ہوگیاہے کہ قانون اور انفورسمنٹ کے اس ماہر پر نظر انتخاب نہ پڑ جائے، اس لئے جلد ازجلد اس افسر کو کھڈے لائن لگا دیا جائے یا اپنے ہی پیٹی بھائیوں کے خلاف کالم لکھنے پر تادیبی کارروائی کی جائے۔