• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاق پاکستان کو درپیش خطرات سے بچانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایڈیشنل مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر میاں رضا ربانی نے 14 نکاتی چارٹر پیش کردیا ہے ، جسے انہوں نے ’’ جمہوریت کی طرف سفر کے لیے بے نظیر بھٹو ماڈل ‘‘ کا نام دیا ہے ۔ اس چودہ نکاتی ماڈل میں کہا گیا ہے کہ لندن کے میثاق جمہوریت پر نظرثانی کرکے پاکستان کی جمہوری اور سیاسی قوتوں کے مابین ایک نیا میثاق یا معاہدہ ہونا چاہیے ۔ دستور کے تحت صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے عمل کو یقینی بنایا جائے اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کی جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سول ملٹری تعلقات کی ازسر نو تشریح کی جائے ۔ عدلیہ کی آزادی اور گڈ گورننس کو یقینی بنایا جائے ۔ دہشت گردی ، شدت پسندی اور عدم برداشت کی تمام اشکال کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے ۔ صوبوں کو اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ تاریخ کو مسخ کرنے والے اور بنیاد پرستی و عسکریت پسندی کی طرف راغب کرنے والے نصاب تعلیم میں تبدیلی کر سکیں ۔ قومی ثقافت کے قیام کے لیے علاقائی ثقافتوں کو فروغ دیا جائے ۔ اس ماڈل میں اقلیتوں ، خواتین ، بچوں اور محنت کشوں سمیت تمام مظلوم و محروم طبقات کے حقوق کے تحفظ اور معدنی و قدرتی وسائل پر آئین کے مطابق صوبوں کو حق ملکیت دینے کی بھی بات کی گئی ہے ۔ میاں رضا ربانی نے پاکستان کے لوگوں کے نام اپنے کھلے خط میں یہ ’’ بے نظیر بھٹو ماڈل ‘‘ پیش کیا ہے اور اپیل کی ہے کہ اس ماڈل پر عام مباحثہ شروع کیا جائے اور وفاق کو بچانے کے لیے جمہوری قوتیں وسیع تر سیاسی اتحاد قائم کریں ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ اس سے پہلے کہ پاکستان تاریخ کی اڑتی ریت تلے دب کر اپنا وجود کھو بیٹھے ، اسے کھینچ کر بحرانوں کے بھنور سے باہر نکالا جائے ۔ ‘‘ میاں رضا ربانی 18 ویں آئینی ترمیم کے خالق ہیں ، جس کی وجہ سے وفاق پاکستان کو ایک نئی زندگی ملی ہے ۔ اس کے باوجود اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بعض قوتیں اس ترمیم کو رول بیک کرنا چاہتی ہیں اور آئین خود اس سازش کو نہیں روک سکتا ہے تو پھر اس بات کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے ۔ میاں رضا ربانی نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے ، ان کی تصدیق پاکستان کی حکمراں اشرافیہ اور عالمی سامراجی قوتوں کے اس ایجنڈے سے ہوتی ہے ، جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اخفاء سے عنقا کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہر گرتی لاش کے ساتھ لوگوں پر نئے راز کھل رہے ہیں ۔ بد قسمتی سے وفاق پاکستان کے خلاف سازشیں قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں ۔ پاکستان کو ایک وفاقی ریاست نہ بنا کر پاکستان میں شامل ہونے والی وفاقی اکائیوں کے ساتھ عہد شکنی کی گئی اور پاکستان کے لوگوں کے ساتھ وہ کچھ کیا گیا ، جو نو آبادیاتی طاقتوں نے بھی نہیں کیا ہو گا۔ پاکستان کو ایک وفاقی ریاست بننے سے روکنے کے لیے چار محاذوں پر پاکستان کے عوام کے خلاف جنگ کی گئی ۔ ایک محاذ آئینی تھا ۔ پاکستان کی نئی حکمراں اشرافیہ نے یہ طے کر لیا کہ پاکستان میں کوئی ایسا دستور نہیں بننے دیا جائے گا ، جس کا ماخذ قرار داد پاکستان ہو اور جو وفاقی خصوصیات کا حامل ہو ۔ اس محاذ پر پاکستان کی وفاقی اکائیوں کے مقابلے میں عدلیہ کو ہر اول دستے کا کردار سونپا گیا ۔ اس محاذ پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی فتوحات اس وقت تک جاری رہیں ، جب تک سقوط ڈھاکہ نہیں ہوا ۔ اس کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں سیاسی قوتوں نے 1973ء کا وفاقی دستور دیا اور پاکستان پہلی مرتبہ ایک وفاق بنا ۔ یہ بات اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابل قبول تھی ۔ اس نے اس دستور کو غیر وفاقی بنانے کے لیے جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کی طویل ترین استبدادی اور آمرانہ حکومتوں کا سہارا لیا ۔ 2010ء میں پھر 18 ویں ترمیم منظور ہوئی اور وفاق کو بچانے کی ایک ڈھال مہیا ہو گئی لیکن میاں رضا ربانی کی اس بات سے میں متفق ہوں کہ دستور کو پہلے سے زیادہ وفاقی بنانے کا اقدام کچھ قوتیں ہرگز برداشت نہیں کریں گی ۔ پاکستان کے عوام کے خلاف دوسرا محاذ ثقافتی تھا ، جہاں پاکستان کے عوام کی تاریخی ، تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی شناخت پر حملے کیے گئے تاکہ وفاقی اکائیاں اپنے اصل تاریخی جوہر اور مزاحمت کے وصف سے محروم ہو جائیں ۔ یہاں کے لوگوں کو دوبارہ مسلمان بنانے اور تہذیب و تمدن سکھانے کی کوششیں اس طرح شروع کر دی گئیں ، جس طرح 18ویں اور 19 ویں صدی میں کلچرل امپیریلزم کے ذریعہ کی گئیں ۔ لوگوں پر ایک زبان اور ایک کلچر مسلط کرنے کے لیے ایک گروہ کی نسلی برتری کا تاثر پیدا کیا گیا ، بالکل اسی طرح ، جس طرح ٹیوٹون اور اینگلو سیکسن کے برترنسل ہونے کا تاثر پیدا کیا گیا تھا ۔ پاکستان چونکہ مذہب کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا ، اس لیے لوگوں کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے مذہب یا یوں کہنا درست ہو گا کہ ایک فرقے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور پاکستان کو ایک مخصوص نسلی اور فرقہ وارانہ ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ۔ نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ گروہوں کو اسٹیبلشمنٹ کا اسٹرٹیجک اتحادی قرار دے کر انہیں اپنی مرضی کا پاکستان بنانے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ۔ وفاقیت کو روکنے کے لیے تیسرا محاذ سیاسی تھا ۔ وفاقی اکائیوں کی حقیقی نمائندہ سیاسی قیادت کو ختم کرنے کے لیے ’’ ایبڈو ‘‘ اور ’’ پرا ڈو ‘‘ جیسے احتساب کے سیاہ قوانین ، جھوٹے مقدمات اور دہشت گردی کا سہارا لیا گیا اور اس کے مقابلے میں ایسی نام نہاد سیاسی قیادت کو آگے لایا گیا ، جو اپنی اصلیت اور اپنی شناخت کی منکر اور وفاقیت دشمن مثالی ذہنیت کی حامل تھی ۔ چوتھا محاذ عالمی سامراجی قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعہ قائم کیا گیا اور پاکستان کے عوام کی پر امن جدوجہد کو دہشت گردی اور شدت پسندی سے کچلا گیا ۔ اس تناظر میں وفاق پاکستان کو درپیش خطرات کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ آج کچھ انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ آئین کی حکمرانی ختم کرکے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ وفاق پرست سیاسی قوتوں کو عوام سے رابطہ نہیں کرنے دیا جا رہا ہے ۔ مختلف صوبوں میں غیر ملکی امداد سے شورش پیدا کرکے وفاقی اکائیوں کے اندر سے وفاق پاکستان کے خلاف بغاوت پیدا کی جا رہی ہے ۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہ نسل بھی اب ختم ہوتی جا رہی ہے ، جس سے ڈائیلاگ ہو سکتا تھا ۔ کچھ علاقوں میں مخصوص فرقہ وارانہ دہشت گردوں کو مضبوط کرکے ان علاقوں کے نہ صرف حقیقی اور تاریخی سیاسی کردار کو بدلہ جا رہا ہے بلکہ دہشت گردی اور آپریشن کے ذریعہ ان کی آبادی کا تناسب بھی تبدیل کیا جا رہا ہے اور ان کی نسل کشی بھی کی جا رہی ہے ۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان جیسے لوگوں کو ابھارا جا رہا ہے ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وفاق پاکستان کے خلاف قیام پاکستان سے شروع ہونے والی سازشیں کس قدر خوف ناک شکل اختیار کر چکی ہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ میاں رضا ربانی جیسے وفاقیت کے دیوانے کی بات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف عالمی سامراجی قوتوں کے ایجنڈے کو تکمیل کا موقع فراہم نہ کیا جائے ۔
تازہ ترین