• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا ایک بار پھر مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اپنا حق خود ارادیت مانگنے والے کشمیریوں پر جاری مظالم پر کسی شرمندگی کے اظہار کی بجائے پاکستان پر دہشت گردی پھیلانےکا الزام عائد کیا ہے۔ یہ الزام ایک احتجاجی مراسلے میں لگایا گیا ہے جو نئی دہلی میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو بھارتی وزارت خارجہ میں طلب کر کےدیا گیا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ 25جولائی کو گرفتار کئے گئے ایک اسلحہ بردار شخص نے لشکر طیبہ سے مسلسل رابطے رکھنے اور اسکی مدد سے وادی کشمیر میں داخل ہونےکا اعتراف کیا ہے۔پاکستانی ہائی کمشنر نے بھارتی احتجاج مسترد کرتے ہوئے نئی دہلی حکومت کی پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے رہنے کی پرانی عادت کا حوالہ دیا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے 1947میں تقسیم برصغیر کے اعلان کے فوراً بعد فسادات کی آڑ میں لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ، پاکستان سے الحاق کرنے والی، ریاستوں حیدر آباد دکن ،جونا گڑھ، مانا ودر وغیرہ پر بزور طاقت قبضہ کیا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا فخریہ کریڈٹ لیا۔ مگر اس سے بھی زیادہ گھنائونا کردار گنگا طیارے کے اغوا سے لیکر بھارتی پارلیمینٹ پر حملے، سمجھوتہ ایکسپریس مکہ مسجد، مالی گائوںدھماکوں، ممبئی پر دہشت گرد حملے سمیت اپنے ہی ملک میں ایسے المیوں کی تخلیق کی صورت میں ادا کیا جو بعد ازاں بھارتی عدالتوں میں دیئے گئے بعض بیانات اور بھارتی حکومت کی اپنی رپورٹوں کے مطابق سرکاری ایجنٹوں اور آر ایس ایس جیسی شدت پسند پارٹیوں کے کارروائیوں کا شاخسانہ تھے اور ان کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا ۔پاک چین اقتصادی راہداری کے امکانات پیدا ہونے کے وقت سے اسے ناکام بنانے کے اعلانات ،مشرقی سرحد پر مختصر تیز رفتار جنگ کی دھمکیوں،بھارتی حساس ادارے ’’را‘‘ میں پاک چین اقتصادی راہدری ناکام بنانے کے لئے خصوصی شعبے کے قیام، پاکستان میں ’’را‘‘ کے ایک نئے نیٹ ورک کے منظم کئے جانے اور اسے آپریٹ کرنے والےبھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری سمیت واقعات کا ایک سلسلہ ہے جس کی طرف چند سفارتی لفظوں میں پاکستانی ہائی کمشنر نے اشارہ کیا ہے۔بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستانی سفیر کو طلب کر کے اپنی پرانی روایت کے مطابق پاکستان پر الزام تراشی واضح طور پرعالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے ہٹانے کی کوشش ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے نام خطوط میں درست طور پر صورتحال کے تمام پہلوئوں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے اور حکومتی فیصلے کے بموجب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور خطے کو درپیش خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حق خود ارادیت کی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیں گے۔ جہاں تک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک ماہ کی خاموشی کے بعد ٹی وی پر کی گئی تقریر کا تعلق ہے ،اس میں مضحکہ خیز طور پر وادی کشمیر کی صورتحال کو چند گمراہ افراد کی کارروائی قرار دیا گیا ہے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ نہ تو ’’چند گمراہ افراد‘‘ کیلئے 8لاکھ سے زیادہ فوج کی قتل و غارت، خصوصی جابرانہ قوانین، پوری وادی میں مسلسل کرفیو، ایک ماہ میں60سے زیادہ شہادتوں، پیلٹ گنوں سے ہزاروں افراد کی معذوری کی کیفیت میں ٹھہرنا ممکن ہے ،نہ ہی دہشت گرد عناصر جلسوں، جلوسوں، اور جھنڈے لہرانےکا راستہ اختیار کرتے ہیں۔بھارتی حکمران وادی کے ہر حصے سے بلند ہونے والی ’’آزادی ‘‘ کی آوازوں کو بند کرنے کی خطرناک کوشش کی بجائے اقوام متحدہ میں کئے گئے اپنے وعدوں کو نبھائیں تو کشمیر اسی طرح پاک بھارت دوستی اور سارک ممالک میں خوشحالی کا گیٹ وےبن سکتا ہے جس طرح فرانس اور جرمنی کے الیزے معاہدے سے ماضی میں لڑائیوں کا سبب بننےوالا ’’دریائے رائن ‘‘ اب دوستی اور اتحاد کا دریا بن چکا ہے۔


.
تازہ ترین