• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برسوں پہلے کی بات ہے راولپنڈی کے ایک محلے میں دو بھائی رہتے تھے ایک کا نام تھا اعظم اور دوسرے کا اصغر وہ مٹی کے برتن بنایا کرتے تھے محلے میں ان کا گھر کمہاروں کے گھر کے نام سے مشہور تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ اعظم اور اصغر نے بھی ترقی کی اور مٹی کے برتن بنانا چھوڑ کر کانچ کے برتنوں سے مختلف رنگوں کے پھول بوٹے بنانا شروع کر دیئے یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہی وہ کمہار سے آرٹسٹ ہو گئے، وہ دونوں بلا کے ذہین اور ہنرمند تھے۔ ہاتھ میں صفائی تو ان کے تھی ہی رنگوں کا امتزاج بھی وہ خوب جانتے تھے مگر ایک بات جو ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ آپس میں لڑتے بہت تھے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہو جاتے اور پھر لڑتے لڑتے باہر گلی تک آ جایا کرتے، چند گھروں کی دوری پر ایک راجہ صاحب رہتے تھے جو اکثر ان دونوں بھائیوں کا شور سن کر وہاں پہنچ جایا کرتے اور دونوں کو ایک ایک چپیڑ اور کبھی کبھی لات بھی مار جاتے اور پھر ماں کی گالی ایک کو اور بہن کی دوسرے کو دے کر کہا کرتے ’’شرم کرو بے غیرتو ‘‘ میں قیلولہ کر رہا تھا میری نیند خراب کر دی تم لوگوں نے ‘‘یوں نیند خراب ہونے کی پاداش میں راجہ صاحب ان دونوں بھائیوں سے اپنے پائوں کو ہاتھ لگوا کر معافی منگوایا کرتے پھر اعظم کو کہتے ’’چھوٹے بھائی پر ہاتھ اٹھاتے ہو شرم نہیں آتی ،شفقت کیا کرو ‘‘ پھر اصغر کو مخاطب کرتے اور کہتے ‘‘بڑے بھائی کے سامنے تن کر کھڑے ہوتے ہو حیا کرو، چلو آپس میں ملو‘‘ یوں راجہ صاحب دونوں بھائیوں میں معانقہ کروا کر پھر جا کر سو جاتے ،جھگڑے کی وجہ اکثر معمولی نوعیت کے واقعات ہوا کرتے تھے، اصغر کبھی مٹی کے تیل میں برش رکھنا بھول جایا کرتا اور کبھی برتنوں کا کانچ بیچ کر قلفی کھا جاتا آج برسوں بعد مجھے اعظم اور اصغر اچانک اس لئے یاد آ گئے کہ گزشتہ ماہ افغانستان میں ہونے والی صدارتی انتخابات کے نتیجے میں عبد اللہ عبد اللہ اور اشرف غنی نے جب اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کئے تو خطے کی سیاست میں بھونچال آگیا،دونوں افغان رہنما صدارت سے کم عہدہ لینے پر تیار ہی نہ تھے، ایک طرف فارسی اور فرانسیسی بولنے والے مورچوں میں اتر گئے اور دوسری طرف پختون حرکت میں آ گئے ،خانہ جنگی کا تاثر پھیلا دیا گیا ،اردگرد کے ممالک نے اپنی اپنی بارڈر سیکورٹی فورسز میں اضافہ کر دیا،۔
ذرائع ابلاغ رطب البیانیاں کرنے لگ گئے، کونوں کھدروں سے سیاسی مبصرین کو بلا کر طرح طرح کے خوفناک تبصروں سے سیاسی فضا میںگمبھیرتا پیدا کر دی گئی، آپریشن ضرب عضب بھی ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔ طالبان کا خوف جاتا رہا۔عراق اور شام میں خلافت کا اعلان کرنے والی عسکریت پسند تنظیم ،’’داعش‘‘ بھی چند روز تک زیر بحث نہ آئی ،لٹے پٹے IDP'sمزید پریشان ہوئے، یورپی دفاعی ماہرین یوکرائن میں جمع ہونے لگ گئے۔ افغانستان میں موجود اتحادی فوجوں نے ہر طرح کے حالات پر قابو پانے کے لئے کمر کس لی کہ اچانک امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے افغانستان پہنچ کر دونوں افغان بھائیوں عبد اللہ عبداللہ ، اور اشرف غنی کو اس طرح آپس میں شیرو شکر کر دیا جس طرح ہمارے محلے دار کے راجہ صاحب اعظم اور اصغر کو کر دیا کرتے تھے ،دونوں رہنمائوں نے پریس کانفرنس میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہاتھ فضا میں بلند کر کے یکجہتی کے اظہار کے طور پر جب معانقہ کیا تو بے اختیار ایک آواز دل میں گونجی کہ اعظم اور اصغر آج بھی زندہ ہیں، انتخابات کے نتائج افغانستان کا داخلی معاملہ تھا عدالتیں موجود ہیں، الیکشن کمیشن ہے۔ افغان حکومت کے علاوہ وہاں جرگہ نظام بھی موجود ہے کوئی مل بیٹھ کر حل نکالا جا سکتا تھا جان کیری کو راجہ بنانے کی کیا ضرورت تھی ۔
ظاہر ہے جان کیری نے راجہ صاحب کی طرح عبد اللہ عبد اللہ اور اشرف غنی کی گوشمالی تو نہیں کی ہو گی اور نہ ہی غیر پارلیمانی گالیاں دی ہوں گی۔ چپیڑیں تو بالکل بھی نہیں مار سکتے اور نہ ہی اپنے پائوں میں گرا کر معافیاں منگوائی ہون گی البتہ اتنا ضرور کہا ہو گا کہ تمہاری فوج پر چار ارب ڈالر باقاعدگی سے امریکہ خرچ کر رہا ہے مختلف NGOSکے روپ میں امریکی کارندے افغان حکومت کے اخراجات بھی برداشت کر رہے ہیں، راجہ کیری نے واضح طور پر کہا ہو گا کہ ہم یہ مراعات واپس لے لیتے ہیں تم لوگ اپنا شوق پورا کر لو، ظاہر ہے بغیر پیسے کہ نہ سازش کامیاب ہوتی ہے نہ حکومت ، اس لئے راجہ صاحب نے اپنی بات منوا لی اب دوبارہ گنتی ہو گی۔اشرف غنی صدر ہو جائیں گے اور عبد اللہ عبداللہ وزیر خارجہ یا زیادہ سے زیادہ نائب صدر کا نیا عہدہ قائم کر لیا جائے گا جناب یوسف رضا گیلانی کے دور میں چوہدری پرویز الہٰی کو نائب وزیر اعظم کا پروٹوکول مل گیا تھا ،بہر طور افغانستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو یہ خطہ ہمیشہ سے بیرونی طاقتوں کے نشانے پر رہا ہے، امن ان لوگوں کے نصیب میں شاید نہیں ہے۔1747 جب افعانستان جدید ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا اپنی تخلیق کے روز اول سے ہی بڑی طاقتوں کی کشمکش کی آماج گاہ بنا رہا ،زار روس گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے افغانستان کی گزر گاہ استعمال کرنا چاہتا تھا روس کے اپنے سمندر سال میں تقریباً 9مہینے منجمد رہتے ۔روس کی بحیرہ اسود کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش ترکی میں عثمانیوں نے ناکام بنا دی تھی۔ اب تک 1878-1842ء اور1919ءمیں بالترتیب افغانستان میں تین جنگیں ہو چکی ہیں 1842ء کی پہلی جنگ میں افغانوں کی پوری خارجہ پالیسی برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی ۔موجودہ صورتحال امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔لہٰذا افغانستان ہو یا پاکستان یا کوئی بھی اسلامی ملک جب تک اعظم اور اصغر آپس میں لڑتے رہیں گے راجے ان پر مسلط رہیں گے ،راجہ سے بچنے کا حل خود تلاش کرنا ہو گا داخلی معاملات میں خارجی قوتوں کی مداخلت روکنا ہو گی ، مسلک کی بحث سے بلند ہو کر مسلم امہ کی سربلندی مقدم رکھنا پڑے گی وگرنہ راجہ قیلولے کا بہانہ بنا کر پائوں پکڑواتا رہے گا پاکستان اس حوالے سے منفرد ملک ہے کہ اس میں ہر دور میں ایک بڑا موجود رہا ہے جسے ہم مقامی راجہ کہہ سکتے ہیں جو حالات خراب ہوتے دیکھ کر میرے عزیز ہم وطنو کہہ کر کنٹرول کر لیا کرتا ہے مگر افغانستان تو ہر قسم کے بڑے سے محروم ہے پھر بھی اسے راجہ کے چنگل سے نکلنا ہو گا۔
تازہ ترین