• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ابراہیم ذوق کا مندرجہ بالا شعر ہماری سیاسی اور معاشی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے ، معاشی طور پر تو ہمارا شمار بہت غریب قوموں کی صف میں ہوتا ہے مگر اب سیاسی طور پر بھی ہم دیوالیہ ہوگئے۔ صدر آصف علی زرداری کی جمہوری حکومت نے پہلی مرتبہ 5 سال عزت سے مکمل کئے تھے اور اگلے پانچ سالوں کیلئے انتخابات کروائے جس کے نتائج کو حکومتی پارٹی نے بخوشی قبول کیا اور خود اپنے ہاتھوں سے باعزت طریقے پر حکومت میاں نواز شریف کے حوالے کر دی اور خود گوشہ نشیں ہوگئے یعنی پانچ سال کیلئے مراقبے میں چلے گئے، پھر ایک سال بعد کیا ہوا کہ قادری صاحب نسخہ انقلاب لیکر کینیڈا سے بزنس کلاس میں بیٹھ کر آگئے اور پاکستان کی نان بزنس کلاس کو انقلاب کی نوید سنانے لگے۔ پھر عمران خان صاحب نے 4 سیٹوں سے بڑھ کر ساری سیٹوں کی گنتی کی بات شروع کر دی ہے اس میں 35 پنکچر والی سیٹیں بھی نکل آئی ہیں۔مجھے اسکول کے زمانے میں یاد ہے کہ جب لاہور میں گرمی زیادہ پڑتی تھی تو سائیکل کی ٹیوب کے پرانے پنکچر لیک ہو جاتے تھے۔ دکان والا کہتا تھا صاحب پنکچر لیک ہوگیا ہے ، یہاں بھی اب سیاسی گرمی بڑھ رہی ہے اور مجھے یہ خوف ہے کہ پنکچر کہیں لیک نہ ہو جائیں۔ 14 اگست کو ہونے والا کیا ہے ؟ یہ ملین ڈالر کا سوال آج کل ہر شخص ایک دوسرے سے پوچھتا ہے۔ٹاک شوز میں آنے والے لوگ خواہ مخواہ مغز ماری کرتے رہتے ہیں اور اپنا بلڈ پریشر اوپر نیچے کرتے ہیں ، ان سے پوچھیں کہ ان بیچاروں کی سنتا کون ہے ؟ یہ تو بھلا ہو سیاسی پارٹیوں کا کہ اب انہوں نے اپنے اپنے نامزد کردہ لوگوں کو ٹاک شوز میں بھیجنا شروع کیا ہے ورنہ تو پہلوان قسم کے لوگ بھی ٹاک شوز میں آجاتے تھے اور دل کو دھڑکا ہی لگا رہتا تھا کہ کہیں سامنے والے کی کمر ہی نہ ٹوٹ جائے ، چشمے اور گلاس ٹوٹنے کے چھوٹے چھوٹے واقعات تو ہو چکے ہیں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اب جبکہ 58(2) B آئین کا حصہ نہیں ہے تو پھر نواز شریف کی حکومت کس طرح سے برطرف ہوگی؟ اب نہ تو اسمبلی توڑنے کی گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی اور آئینی راستہ سامنے آتا ہے ۔ مولانا طاہر القادری صاحب کا خیال ہے کہ ان کے دبائو سے حکومت مستعفی ہو جائے گی ۔ عمران خان کا خیال ہے کہ الیکشن کی دھاندلی ثابت ہوگئی تو تمام انتخابات کالعدم قرار دے دیئے جائیں گے اور نئے مڈٹرم انتخابات کی بات شروع ہو جائیگی۔ میاں نواز شریف نے حال ہی میں کہا کیوں استعفیٰ دیں ؟ ہم پانچ سال کیلئے منتخب ہو کر آئے ہیں۔ میاں صاحب کی بات میں وزن ہے کیونکہ واقعی وہ تو پانچ سال کیلئے منتخب ہوئے ہیں اور جناب آصف علی زرداری صاحب نے انکو حلف دیا ہے اور ان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے ، پھر اچانک کیا ہوا کہ آصف صاحب کا بیان آگیا کہ ہم نے میاں صاحب کو وزیراعظم بنایا تھا بادشاہ نہیں بنایا، یہ بادشاہت کا خیال آئی جی سندھ کی تقرری کے بارے میں میاں صاحب کی ضد سے پیدا ہوا یا کوئی اور وجہ ہے ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ، احمد فراز نے ایسی صورتحال کو یوں بیان کیا ہے ؎
ناخوش ہیں کبھی بت، کبھی ناراض حرم ہے
ہم دل زدگاں کا نہ خدا ہے نہ صنم ہے
یہ کیسی رفاقت ہے نہ ملنا نہ بچھڑنا
یہ کیسی وفا ہے کہ نہ تریاق نہ سم ہے
یہ تو تھا میرا تجزیہ حالت حاضرہ پر ، مگر جو حقیقت بات ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو میرے خیال میں بری نہیں۔ چند سیاسی غلطیاں جو نادانستہ یا دانستہ طور پر ان سے سرزد ہوئی ہیں وہ اپنی جگہ موجود ہیں اور اب وہ ان کا ازالہ کرنے کی کافی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر ضرب عضب کے ذریعے وہ اپنے کافی معاملات کو فوج کے ساتھ درست کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے اور اس کے مثبت نتائج نکلنے کی توقع ہے ، پنجاب حکومت نے ماڈل ٹائون کا سانحہ کرکے خواہ مخواہ اپنے اور نواز شریف کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں جن کی ضرورت نہیں تھی، لیکن ان تمام غلطیوں کو اگر نظر انداز کرکے حقیقت کو دیکھا جائے تو حکومت اور اسکے اراکین ملک و قوم کیلئے کافی تندہی سے اور جانفشانی سے کام کر رہے ہیں، بجلی کی پیداوار کا مسئلہ کسی طرح حل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے مگر پھر ترسیل کا نیا مسئلہ ہے جس پر بےانتہا خرچہ درکار ہے ۔ ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے عمل جاری ہے ، کراچی میں گزشتہ ہفتے میاں صاحب نے مصروف دن گزارا اور کاروباری حضرات میں گھل مل گئے لوگوں نے بھی دل کھول کر میاں صاحب سے باتیں کیں، نوجوانوں کیلئے دیئے جانے والے پروگرام اور قرضے مریم نواز کی سربراہی میں کافی حد تک ان لوگوں تک پہنچ رہے ہیں جو کہ ان کے حق دار ہیں۔ کراچی میں جناب نہال ہاشمی جو کہ کراچی مسلم لیگ کے صدر ہیں انہوں نے سلیم ضیاء اور دوسرے مسلم لیگی قائدین کے بغیر ہی 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقع پر ایک بہت بڑا جلسہ کیا اور نشتر پارک تقریباً عوام سے بھر گیا۔ یہ بات میاں نواز شریف کی کراچی میں بھی مقبولیت کی غمازی کرتی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں نے میاں صاحب سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی تھیں اور وہ آناً فاناً اپنی تقدیر بدلتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے اور جب ایسا نہیں ہوا تو مخالفین نے اس چنگاری کو ہوا دینے کی کوشش کی مگر وہ چنگاری شعلہ نہ بن سکی، لوگ اب بھی مسلم لیگ کی حکومت سے مطمئن نظر آتے ہیں اور چھٹکارا حاصل کرنا نہیں چاہتے۔ خاص طور پر اگر کراچی میں گرین بس کا منصوبہ اور کراچی سے لاہور تک موٹر وے کا منصوبہ اپنے وقت پر مکمل ہوگیا تو اگلے پانچ سال کیلئے بھی میاں صاحب کی حکومت پکی ہو جائیگی۔ سندھ میں میاں صاحب کی مقبولیت کافی ہے مگر میاں صاحب نے سندھ کو آزاد چھوڑا ہوا ہے اور کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ سے وابستہ سندھ کے کارکنوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔اگرچہ نہال ہاشمی بہت مستعدی کا مظاہرہ کر رہے ہیں مگر پارٹیاں چلانے کیلئے بڑوں کا ہاتھ ہونا ضروری ہے ، آخر میں حبیب جالب کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں؎
ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا
اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں
داور حشر بخش دے شاید
ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں
تازہ ترین