• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سول اسپتال کوئٹہ کے سانحہ عظیم کی وجہ سے انتہائی سوگوار ماحول میں ہم پاکستان کا 70 واں یوم آزادی منا رہے ہیں ۔ اس سانحہ میں 70 سے زائد بے گناہ افراد شہید ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ شہداء میں اکثریت وکلاء کی تھی ۔ یہ وہ برادری ہے جس نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور آئین و قانون کی بالادستی کے لیے طویل جدوجہد کی اور بے شمار قربانیاں دیں ۔ اس سانحہ میں صحافی برادری سے تعلق رکھنے والے ٹی وی چینلز کے دو کیمرا مین اور عام شہری بھی شہید ہوئے ۔ ایسے سانحات سے دیگر قومیں بھی دوچار ہوتی ہیں ۔ اس کے باوجود وہ جوش و خروش اور خوشی کے ساتھ اپنا یوم آزادی مناتی ہیں ۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد بھی امریکیوں نے اپنا یوم آزادی منایا لیکن دیگر قوموں کو ہر یوم آزادی پر ایسی صورت حال کا سامنا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس طرح کے واقعات سے شاعروں ، ادیبوں ، صحافیوں ، سیاست دانوں اور عام شہریوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں ؟ ’’ یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر ‘‘ اور ’’ آزادی موہوم ‘‘ کا تصور ذہن میں نہیں ابھرتا ہے ۔ ہاں ہم ایک ساتھ ماتم کرنے اور جشن منانے کا گر سیکھ چکے ہیں ۔ دنیا میں ہم جیسی قوم کوئی نہیں ہے ۔ ہمیں ایسا کیوں بنا دیا گیا ہے ۔ مولانا محمد خان شیرانی ، محمود خان اچکزئی ، خورشید شاہ ، میاں رضا ربانی ، مولانا فضل الرحمن اور مشاہد اللہ خان نے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی تو ان پر تنقید کے نشتر چل رہے ہیں۔ اس بحث میں الجھے بغیر یوم آزادی کے موقع کی مناسبت سے آئیے تحریک آزادی کے ایک ہیرو کو یاد کرتے ہیں ۔تحریک آزادی کے بہت سے ایسے ہیروز ہیں ، جنہیں اس موقع پر یاد کرنا چاہئے لیکن یہ ہیرو سانحہ جلیانوالہ باغ کے حوالے سے یاد آ رہا ہے اور جلیانوالہ باغ کا سانحہ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں بے گناہ لوگوں کا اس طرح قتل عام کیا گیا جس طرح کوئٹہ میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا اورکوئٹہ جیسے واقعات سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ جلیانوالہ باغ بار بار یہاں دُہرایا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر ہر یوم آزادی سے پہلے جلیانوالہ باغ برپا کیا جاتا ہے ۔ 13 اپریل 1919 ء کو 20 سے 25 ہزار لوگ امرتسر کے ایک سات آٹھ ایکڑ کے میدان میں جمع تھے ۔ یہ میدان جلیانوالہ باغ کے نام سے مشہور تھا ۔ ہندو ، مسلمان ، سکھ ، عیسائی سب یہاں جمع تھے ۔ میدان کا داخلی راستہ بہت تنگ تھا اور چاروں طرف گنجان آبادی تھی ۔ یہ سیاسی اجتماع بھی تھا اور بیساکھی کا ثقافتی اجتماع بھی تھا ۔ یہ اجتماع اس تحریک کا تسلسل تھا ، جو ہندوستان میں رولٹ ایکٹ ( Rowlett Act ) کے نفاذ کے خلاف ’’ ستیہ گرہ ‘‘ یا سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ تھی ۔ اس ایکٹ کا پس منظر یہ ہے کہ برطانوی نوآبادی حکومت نے ہندوستان کے حالات کو جاننے کے لیے 1918 میں ایک انگریز جج سڈنی رولٹ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ ہندوستان کی مزاحمتی تحریکوں بالخصوص بنگال اور پنجاب میں موجود تحریکوں کے بارے میں معلومات حاصل کرے ۔ اس کمیٹی کی سفارشات پر رولٹ ایکٹ نافذ ہوا ، جو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی توسیع تھا ۔ اس ایکٹ کے ذریعہ وائسرائے کی حکومت کو بے انتہا اختیارات دیئے گئے تھے ۔ ایکٹ کے تحت سرکاری افسران وجہ بتائے بغیر مقامی افراد کو نظر بند کر سکتے تھے ۔ پریس پر پابندی عائد کی جا سکتی تھی اور کسی مقدمہ کے بغیر سزا دی جا سکتی تھی ۔ عوام میں یہ تاثر پھیلا کہ حکومت آزادی اور مزاحمت کی تحریکوں کو کچلنا چاہتی ہے ۔ اس ایکٹ کے تحت بہت سی کارروائیاںبھی ہوئیں اور احتجاج کرنے والے لوگ مارے بھی گئے ۔ بالآخر جلیانوالہ باغ میں اتنا بڑا اجتماع ہوا اور برطانوی ہندوستانی افواج کے وہاں موجود اہلکاروں نے اس وقت تک گولیاں چلائیں ، جب تک کہ گولیاں ختم نہیں ہو گئیں ۔ ایک ہزار سے زیادہ افراد شہید ہو گئے ۔ جلیانوالہ باغ میں ایک 15 سالہ لڑکے کو یہ ڈیوٹی دی گئی تھی کہ وہ لوگوں کو پانی پلائے ۔ اس لڑکے کا نام ’’ اودھم سنگھ ‘‘ (Udham Singh ) تھا ۔ فائرنگ میں ادھم سنگھ زخمی ہو گیا لیکن بچ گیا ۔ 21 سال بعد 13 مارچ 1940 ء کو لندن کے کیسٹن ( Caxton ) ہال میں ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن اور رائل سینٹرل ایشین سوسائٹی کا ایک جلسہ منعقد ہوا ۔ اس جلسے سے مائیکل اوڈائر نامی ایک سابق برطانوی فوجی افسر نے خطاب کیا ۔ مائیکل اوڈائر جیسے ہی خطاب کرکے نیچے اترا ، ایک نوجوان اچانک اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا اور اس کی پشت میں گولیاں اتار دیں ۔ یہ 36 سالہ نوجوان اودھم سنگھ تھا ، جو جلیانوالہ باغ میں زخمی ہوا تھا ۔ ڈائر گولیاں لگنے کے بعد وہیں دم توڑ گیا ۔ 1919 ء میں مائیکل اوڈائر پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر تھا اور اس نے ہی جلیانوالہ باغ میں موجود کرنل رجنالڈ ڈائر کی طرف سے گولیاں چلانے کے منصوبے کی منظوری دی تھی ۔ اودھم سنگھ کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ اس سے جب اس کا نام پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میرا نام ’’ محمد سنگھ ‘‘ ہے ۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ قتل کیوں کیا تو اس نے کہا کہ مجھے اس قتل پر کسی قسم کا کوئی افسوس نہیں ہے ۔ میں نے اس کام کے لیے 21 سال انتظار میں گذارے ہیں ۔ اس شخص نے نہ صرف میرے لوگوں کو قتل کیا بلکہ میرے لوگوں کی روح کو کچلا ۔31 جولائی 1940 ء کو اودھم سنگھ کو شمالی لندن کی ’’ پینٹون ولے ‘‘ ( Pentonville) جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔ کوئٹہ ، پشاور ، چارسدہ ، لاہور ، کراچی ، ملتان ۔۔۔ سمیت پاکستان کے کئی شہروں کے جلیانوالہ باغ کے زخمی اودھم سنگھ زندہ بچ گئے ہیں لیکن انہیں یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کے سانحہ جلیانوالہ باغ کا ذمہ دار کون ہے ۔ اگر کسی کو کچھ پتہ بھی ہے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ تحریک آزادی کے ہیرو اودھم سنگھ کو سلام اور سوگوار ماحول میں پاکستان کے لوگوں کو جشن آزادی مبارک ۔


.
تازہ ترین