• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، وزیراعظم نے اپنے کارڈز خفیہ رکھے ہیں

اسلام آباد (طارق بٹ)حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے حلقوں میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے دو واضح آراء موجود ہیں ۔حکومت کے دو اہم ارکان پنجا ب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان چاہتے ہیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے۔تاہم کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ انہیں وقت مقررہ پر ریٹائر ہوجانا چاہئیے۔البتہ اس حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے کارڈز خفیہ رکھے ہیں اور کھل کر اب تک کوئی بات نہیں کی ہے۔ آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائر ہوں گے۔  دی نیوز جن نجی مباحثوں سے باخبر ہے، ان کے مطابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار اس مسئلے پر اپنا سخت موقف مخفی نہیں رکھتے۔ دونوں کی اس مسئلے پر وزیراعظم نواز شریف سے چند ماہ میں کئی مرتبہ بات ہوئی ہے۔ لیکن وزیراعظم کا موقف نہیں پتہ چل سکا۔دریں اثناءذرائع ابلاغ کا ایک مخصوص طبقہ یہ بھی قیاس آرائی کر رہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنایا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ سینئر وزراء بھی وزیراعظم کی سوچ سے بے خبر ہیں۔ ایک اور اعلیٰ ترین ذریعے نے بتایا کہ نواز شریف نے اس معاملے پر ایک مرتبہ بھی لب کشائی نہیں کی کیونکہ ابھی ریٹائرمنٹ میں ساڑھے تین ماہ باقی ہونے کی وجہ سے وہ اسے قبل از وقت سمجھتے ہیں۔ ذریعے نے بتایا کہ وزیر اعظم خود یہ فیصلہ کریں گے اور ضروری نہیں کہ وہ کسی سے مشورہ کریں۔ موجودہ آرمی چیف کی تقرری کے وقت بھی یہی ہوا تھا۔ پتہ چلا ہے کہ جنوری میں آرمی چیف کے ریٹائر ہونے کے اعلان کے بعد بھی شہباز شریف اور چوہدری نثار نے پس پردہ اپنے موقف پر زور دیا ہے۔ اعلیٰ سطح کے ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں اور کشیدگی کی افواہیں جھوٹی ہیں۔ مگر بعض جمہوریت مخالف عناصر اس بارے میں سازشی نظریات پھیلا رہے ہیں۔ مارشل لاء کو دعوت دینے والے پوسٹر لگائے جا رہے ہیں جن کے کرتادھرتا اگرچہ گرفتار ہوئے ہیں، لیکن اس طرح کی تحریک محض یہ لوگ اپنے بل بوتے پر تو نہیں چلا سکتے۔ پھر ایک انگریزی روزنامے نے خبر دی کہ اسٹیبلشمنٹ اقتصادی راہداری کا کنٹرول چاہتی ہے۔ مگر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بتایا کہ ایسی کوئی بات کسی بھی سطح پر زیر بحث نہیں آئی ہے۔ ایک اور اعلیٰ ذریعہ نے دی نیوز کو بتایا کہ اقتصادی راہداری کسی خاص ادارے کے حوالے کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی، نیز 46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری میں سے ایک پیسہ بھی ملکی خزانے میں نہیں جائے گا، کیونکہ چین براہ راست ان فنڈز کو منصوبوں پر استعمال کررہا ہے۔ راہداری منصوبے پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں مل کر عمل درآمد کریں گے، اور اس پر کنٹرول کے سوال کا تعلق دراصل اس کی تکمیل کا کریڈٹ لینے سے ہے۔ لازما نواز حکومت کسی کو بھی اپنا منصوبہ اور خواب خراب کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ راہداری سے منسلک حکام نے بتایا کہ کوئی ایک بھی منصوبہ تاخیر کا شکار نہیں، بلکہ بعض منصوبے خاص طور پر ساہیوال کے نزدیک کوئلہ سے بجلی بنانے کا منصوبہ تو مقررہ وقت سے کئی ماہ آگے چل رہے ہیں۔  ذرائع نے بتایا کہ بعض صوبائی حکومتیں تو راہداری کی حفاظت کرنے والی  سیکورٹی ڈویژن کو مناسب قانونی اختیار دینے کی بھی مخالف ہیں۔ مگر آرمی چیف اور وزیراعظم میں اس فورس کو مناسب اختیارات دینے اتفاق پایا جاتا ہے۔ اس ڈویژن کے تمام سخت اقدامات کا قریبی تھانے میں اندراج ہوگا۔ بعض حکومتی شخصیات ایسی بھی ہیں جو آرمی چیف کی مقررہ مدت پر ریٹائرمنٹ کی حمایت کرتی ہیں۔ باخبر ذرائع سے نجی گفتگو میں پتہ چلا کہ آئندہ چند ماہ بہت اہم ہیں اور وزیر اعظم جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔دوسری طرف اعلیٰ سرکاری ذرائع راحیل شریف کی پیشہ ورانہ مہارت اور لگن کو سرا رہے ہیں۔
تازہ ترین