• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یادش بخیر راجہ ظفرالحق جنرل ضیا الحق کی کابینہ کے وزیر اطلاعات و نشریات تھے او ر جنرل ضیا نے انہیں اپنی ٹیم کا اوپننگ بیٹسمین قرار دیا۔80کی دہائی میں یوم آزادی کو پر وقار انداز میں منانے کا نیا انداز شروع ہوا۔ساری قوم قومی پرچم کو سلامی دیتے ہوئے قومی ترانہ گنگنانے لگی۔ملی نغمے وطن عزیز کی فضاؤں میں گونجنے لگے۔پھر حوادث زمانہ کی ایسی بد نظر لگی کہ لوگ یوم آزادی کو بھی یوم تعطیل سمجھ کر شاد و فرحاں ہوگئے۔کیا کیجئے جناب کپتان عمران خان نے بھی ایک عسکری انداز سے مارچ کا اذن دے دیا۔حالانکہ اس اہم معاملے پر ان کی اپنی ہی جماعت دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔خان صاحب کی اپنی ہی جماعت کا مضبو ط دھڑا بضد ہے کہ کسی بھی صورت آزادی مارچ کے نام پر پورے ملک کو محصور نہ کیا جائے۔خیبر پختونخوا اور قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کسی بھی صورت اسمبلیوں کا خاتمہ نہیں چاہتی،روزانہ شہر اقتدار کے پوش ریستورانوں میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اپنی بے بسی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ مگردوسری جانب عمران خان کی ہی جماعت کے غیر منتحب جہانگیر خان اور اعظم سواتی جیسے کچھ بااثر مگر قلیل رہنماؤں کی خواہش ہے کہ اس مارچ کے ذریعے مڈٹرم انتخابات کا مقصد حاصل کر کے کسی بھی طریقے سے ممبر اسمبلی منتخب ہوکر ایوان میں پہنچا جائے۔جو کہ موجودہ حالات میں تو دکھائی نہیں دیتا۔لیکن عمران خان بضد ہیں کہ ریت سے بت تعمیر کیا جائے.... مگر اے میرے! اچھے فن کار...ایسا کیسے ممکن ہے؟دنیا کی کسی قوم نے کبھی اپنے یوم آزادی کو یوم احتجاج میں نہیں بدلا۔
تاریخ شاہد ہے کہ خاکسار تحریک کے سرفروش خاکی وردیوں میں بیلچے کندھوں پر اٹھائے سڑکوں پر پریڈ کرتے تھے۔یوم آزادی کی ایک خونچکا داستاں اندرون شہر میں خاکساروں پر فرنگی استبداد کا ایک حملہ بھی تھا۔جس میں ایک خاکسارکے بیلچے نے انگریز S.SPلاہور گینںفورڈ کی ناک اڑادی اور صاحب موصوف کو ناک کی جراحی کے لئے لندن منتقل کردیا گیا۔بھلے دن تھے کہ سرکاری افسروں کی بھی کوئی وقعت تھی۔اور کہاں اب کہ افسر پھرتے ہیں میرخوار کوئی پوچھتا نہیں۔اس واقعے کی مولانہ محمد علی جوہر کے اخبار زمیندارا نے کچھ یوں خبر لگائی کہ ’’آج ہندوستان میں ایک انگریز کی ناک کٹ گئی‘‘۔
امروز کابینہ ڈویژن میں ایک بین الاوزارتی اجلاس منعقد ہوا۔اعلی سطحی اجلاس میں وزیر اطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید ،سعد رفیق اور عرفان صدیقی سر جوڑ بیٹھے کہ یوم آزادی کو کس طرح شایان شان طریقے سے منایا جائے۔سول بیوروکریسی کے ساتھ سینئر فوجی افسران بھی کابینہ ڈویژن کے مرکزی میٹنگ ہال میں 14اگست کو بھرپور انداز میں یاد گار بنانے کی حکمت عملی طے کرتے رہے۔فوج اور حکومت کےایک پیچ کا تو مجھے پتہ نہیں مگر اہم اجلاس میں وہ ایک میز پر ضرورنظر آئے۔سب نے ملکی محبت سے سرشار اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید اجلاس میںسنجیدہ مگر پرجوش تھے کہ 67ویں یوم آزادی کو اس مرتبہ ایسے جوش و جذبے سے منایا جائے کہ پوری دنیا کو پیغام جائے کہ پاکستانی قوم ابھی بانجھ نہیں ہوئی بلکہ مہذب دنیا کو بھرپورانداز میں بتایا جائے کہ 2014کی پاکستانی قوم ایک زندہ قوم ہے۔کابینہ ڈویژن میں یوم آزادی کے حوالے سے یکے بعد دیگرے تین اجلاس ہوئے۔مگردو اجلاسوں کے ایجنڈے میں کچھ راز ونیاز کی باتیں بھی تھیں۔لیکن صد شکر کہ ہم یوم آزادی کی حرمت کے بارے میں سنجیدہ ہیں ۔اس غور و فکر کی شان نزول کے ڈانڈے جناب کپتان موصوف کے اس ارادے سے ملتے ہیں جو مصر ہیں کہ اپنا احتجاجی مارچ یوم آزادی پر کریں گے۔کچھ معاملات میں واقعی آپ کا کوئی ثانی نہیں۔پاکستان کے لئے واحد ورلڈ کپ جیتنا،والدہ کی بیماری سے متاثر ہوکر ایک جدید ہسپتال بنانا،بیرون ملک جاکر امداد اکٹھی کرنے کا فن جانتے ہیں۔مگر ضروری تو نہیں کہ آپ کی ضد کسی صاحب الرائے کے نزدیک درست ہو۔وطن عزیز گو نا گو مسائل کا شکا ر ہے۔ہماری جری افواج ملک کے دشمنوں سے برسر پیکار ہیں ،دھرتی کے سپوت سینہ تان کر اس عفریت کے سامنے ڈٹ گئے جس نے معصوم پاکستانیوں کا خون بہایا۔میرے وطن کے عظیم کوہستانی وزیرستان میں اپنے گھروں سے بے دخل ہوتے ہیں ۔ان کی آبادکاری اور آسودگی خیبر پختونخوا کی حکومت اور ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔مگر خان صاحب آپ بے گھر ہونے والے مکینوں کو کہتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری خیبر پختونخوا کی نہیں صرف وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔آپ کے اس روئیے پر تو مجھے وہ شعر یاد آگیا۔
تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
آپ کی سب سے اولین ذمہ داری ہونی چاہئے کہ آپ کی صوبائی حکومت ان عظیم پاکستانیوں کی خبر گیری کرے جس طرح یہ فرض وفاقی حکومت اور سب پاکستانیوں کا ہے۔جناب وزیراعظم نے اپنے تدبر سے واضح کردیا کہ وہ قوم و ملک کی خدمت کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔مجھے پانچ سال قبل گوادر میں ہونے والی تقریب یاد آرہی ہے۔این ایف سی ایوارڈ کی تقریب میں مجھ سمیت کچھ اور صحافی و کالم نویس بھی مدعو تھے۔جس میں ساتویں این ایف سی ایوارڈکی متفقہ منظوری پر طے پایا کہ این ایف سی ایوارڈ میں 1%دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئیے مخصوص کیا جائے گا۔جس کی میری اطلاعات کے مطابق 17سے 20ارب روپے کی خطیر رقم خیبر پختونخوا کی حکومت کے پاس ہے۔خان صاحب! آئیے اور اس رقم کو شمالی وزیرستان کے بے گھر میکنوں پر خرچ کیجئے۔ وگرنہ وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت جتنی ضرورت یکجہتی و امن امان کو بحال رکھنے کی ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔کون سا ایسا تجربہ ہے جو ہم نے وطن عزیز میں نہیں کیا
’’ہر کہ آمد عمارت نوساخت‘‘ آمریت، بنیادی جمہوریت، سیاسی آمریت ،ڈکٹیٹر شپ،سویلین مارشل لا سب ہماری تاریخ کے گزشتہ ابواب ہیں۔ ملک میں جمہوریت ہے۔جمہور نے اپنے راستے کا انتخاب کرلیا ہے۔ ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرچکی ہے،دوسری دوسرے سال میں ہے۔ جمہوری قدروں کو فروغ دینا اور اپنی مدت انتخاب پوری کرنا ان کا حق ہے اور واجب الاحترام ہے۔ہر روز کی دھما چوکڑی میں نہ مانو۔کیا صائب روئیے ہیں؟
ایک طبیب حاذق نے درست کہا ہے کہ ایسے مسائل کا حل مزید جمہوریت میں پنہاںہے۔ہمارے پڑوس میں کانگریس کا پتہ صاف ہوا۔نریندر مودی گجرات سے پردھان منتری کے سنگھاسن پر متمکن ہیں۔افغانستان میں انتخابات ہوچکے ہیں۔ہماری افواج دشمن سے نبردآزما ،ہمارا پڑوسی لائن آف کنڑول پر در اندازی سے باز نہیں آرہا۔ارض وطن مجھ سے ،میرے قارئین سے اور میری پیاری قوم سب سے سوال پوچھتی ہے کہ کیا ابھی بھی یہ وقت نہیں آیاکہ ہمارے قلوب پگھل جائیں۔اس وطن کی مٹی کا قرض اتارنے کے لئے میری آنکھوں کے سامنے میرے بابا قائداعظم کی روشن آنکھیں مجھ سے او ر آپ سے سوال کررہی ہیں کہ کیا تم نے پاکستان کی قدر کی۔اس ملک نے ہمیں پہچان دی،مجھے اقوام عالم میں سراٹھا کر جینے کا حوصلہ اور سلیقہ بخشا۔وطن عزیز کی آزادی پر خوشیاں مناتے ہوئے تجدید وفا کی جستجو کرتا ہوں۔ میرے قابل احترام رہنما،میری اس خواہش پر عمل کرپائیں گے؟آخر میںجمہوریت سے نالا دوستوں کے لئے حبیب جالب کا شعر عرض ہے
منزل عشق میں مر مر کے جیا جاتا ہے
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تازہ ترین