• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم اسرائیل کو امریکہ کا پروردہ ملک کہتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی ۔یہ کہنا بھی حقائق کے منافی ہو گا کہ بعد ازاں امریکہ نے اسرائیل کو گود لے لیا بلکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسرائیل نے امریکی گود کو آغوش مادر بنانے کیلئے بہت تگ و تاز کی۔جب اسرائیل وجود میں آیا تو نہ صرف امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے تنقید کی بلکہ اقوام متحدہ میں امریکی نمائندے ہیڈرسن نے قرارداد کی برملا مخالفت کی۔اسرائیلی لابی جو اس وقت تک زیادہ موثر نہ تھی اس نے امریکی صدر ہیری ٹرومین پر دبائو ڈال کر ہیڈرسن کا تبادلہ کر ا دیا اور اسے اقوام متحدہ سے ہٹا کر نیپال میںامریکی سفیر مقررکر دیا گیا۔1956ء کی جنگ سویز میں جب اسرائیل نے برطانیہ اور فرانس کی اشیرباد سے مصر کے جزیرہ نما سینائی پر قبضہ کر لیا تو امریکی صدر آئزن ہاور ہی تھے جن کے الٹی میٹم پر اسرائیلی افواج کو یہ قبضہ چھوڑ کر جانا پڑا۔مگر اسی امریکہ میں آج اسرائیل کی منشا ء و مرضی کے خلاف ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔آخر ان یہودیوں کے پاس ایسی کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ دنیا بھر پر حکمرانی کرنے والا امریکہ اسرائیل کے سامنے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔اسرائیل کا وجود امریکہ کا مرہون منت ہے،اسرائیلی معیشت امریکی امداد کی ڈور سے بندھی ہے ،پوری دنیا میں امریکیوں سے نفرت کی وجہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ہے یہ بات جانتے ہوئے بھی امریکی انتظامیہ اپنی پالیسی تبدیل نہیں کر سکتی؟کیوں؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں 75سال پیچھے جانا پڑے گا۔ربی Hillel Silver جس کا تعلق لتھوانیا سے تھا اس نے 1939ء میں امریکن صہیونی ایمرجنسی کونسل کی بنیاد رکھی جس کا آغاز 5ملین ڈالر کے بجٹ سے کیا گیا۔اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ کے فیصلہ ساز اداروں کو یوں مٹھی میں بند کر لیا جائے کہ ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جاسکیں۔ 1948ء تک اس لابنگ فرم کا سالانہ بجٹ 150ملین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔امریکہ میںلابنگ کو قانونی حیثیت حاصل ہے نہ صرف تجارتی گروہ اپنے مفادات کے لئے لابنگ کرتے ہیں بلکہ ہر ملک کی اپنی لابی ہے۔اسرائیلی لابنگ کا سب سے موثر ادارہ امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی ہے۔ یہ لابی کس قدر طاقتور اور موثر ہے،اس کی تفصیل امریکہ کے دو نہایت قابل احترام دانشوروں شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسرJohn J Mearsheil mer اور ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Stephen M Walt کی تہلکہ خیز تصنیف Israel lobby and US foreign policy میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔اس کتاب کی اب تک چار لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور اسرائیلی لابی کی بھرپور کوشش کے باوجود دنیا بھر میں پذیرائی مل رہی ہے۔مصنفین نے ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ ہر دور میں کانگریس کے 250سے 300ارکان اسرائیلی لابی کی جیب میں رہتے ہیں اور وہ ان سے جب جو قانون سازی کرانا چاہے کرا سکتی ہے۔’’ایپک‘‘ کے عہدیدار Steven Bosenجو حساس ترین امریکی دستاویزات اسرائیل منتقل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے اور انہیں کوئی کارروائی کئے بغیر چھوڑ دیا گیا،وہ نیویارک کے معروف صحافی جیفری گولڈ برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی مسودہ قانون یا قرارداد پر امریکی سینیٹ کے 100ارکان میں سے 70ارکان کی حمایت 24گھنٹوں میںحاصل کی جاسکتی ہے۔
اس کتاب میں شامل اشاعت ایک سروے رپورٹ کے مطابق 40فیصد امریکی جانتے ہیں کہ پوری دنیا ان سے اسرائیل کی حمایت کرنے کی وجہ سے نفرت کرتی ہے۔60فیصد امریکی تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل لابی کی منشاء کے بغیر امریکہ میں پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔لیکن اس کے باوجود امریکی نوازشات کا سلسلہ جاری رہتا ہے کیونکہ سینیٹر ہوں یا ایوان نمائندگان کے ارکان ،انہیں یہ بات معلوم ہے کہ اسرائیلی لابی کی تائید و حمایت کے بغیر الیکشن جیتنا ممکن نہیں۔ امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی لابنگ پر اوسطاً سالانہ 10ملین ڈالر خرچ کرتی ہے اور اس کے بدلے کیا کچھ حاصل کرتی ہے اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔2005ء تک امریکہ ڈائریکٹ اکنامک ایڈ کی مد میں اسرائیل کو 154بلین ڈالر کی خطیر رقم دے چکا ہے۔رکن کانگریس Lee Hamiltonکے مطابق امریکہ اس مد میں سالانہ 4.3بلین ڈالر کی امداد دے رہا ہے۔ 60ملین ڈالر کی فوجی امداد اس کے علاوہ ہے۔اس سے ہٹ کر بھی بیشمار امدادی پروگراموں کے تحت اسرائیل کو نوازا جاتا ہے مثلاً1998ء کا Wye agreement جس کے تحت اسرائیل مغربی کنارے سے اپنی فوج نکالنے پر رضامند ہواتھا،اس کے تحت اسے 1.2بلین ڈالر کی سالانہ امداد دی جاتی ہے۔اسرائیل امریکی امداد حاصل کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے اگر اس امداد کا آبادی سے موازنہ کیا جائے تو امریکہ ہر اسرائیلی شہری کو سالانہ 500ڈالر امداد دیتا ہے۔مصر جو امداد لینے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے اسے فی شہری کے حساب سے ہر سال 20ڈالر ملتے ہیں،غربت زدہ ہیٹی کو 27ڈالر فی شہری جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگاڑی ریاست کا کردار ادا کرنے والے پاکستان کو فی کس صرف 5ڈالر سالانہ کی امداد ملتی ہے جو کب بند ہوجائے کچھ معلوم نہیں۔ اسرائیل کو فائدہ پہنچانے کے لئے 1982ء میں امریکہ نے Annual foreign aid billمیں ترمیم کی جس کے تحت صرف اسرائیل کو امریکی امداد سہ ماہی اقساط کے بجائے سال کے شروع میں یکمشت دے دی جاتی ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کو سال بھر کی تنخواہ یکم جنوری کو ہی دے دی جائے۔بجٹ خسارے کے باعث امریکہ کو یہ ادائیگی یکمشت کرنے کے لئے 50سے 60ملین ڈالر سالانہ سودادا کرنا پڑتا ہے۔جبکہ اسرائیل یہی رقم دوبارہ امریکہ میں فکس کر کے کم و بیش اتنا ہی سالانہ منافع حاصل کرتا ہے۔
تل ابیب کے امریکی سفارتخانے کے مطابق اسرائیل اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 2004ء تک 660ملین ڈالر منافع حاصل کرچکا ہے۔ امریکی امداد حاصل کرنے والے تمام ممالک پابند ہیں کہ یہ رقوم امریکہ سے خریداری پر ہی خرچ کریں جبکہ اسرائیل کو یہ استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ امریکی امداد کے پانچ میں سے چار ڈالر اسرائیل میں خرچ کر سکتا ہے۔باقی ممالک کو صحت، تعلیم یا دیگر مخصوص شعبوں میں امداد دی جاتی ہے اور وہ اسے اسی مد میں ہی خرچ کرنے کے پابند ہیں لیکن اسرائیل امریکی امداد کہیں بھی خرچ کر نے میں آزاد ہے۔اسرائیل عالمی بنکوں سے جو قرضے لیتا ہے اس کی گارنٹی امریکہ دیتا ہے ۔کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوںکے مصداق اسرائیل لابی کے کمالات کی فہرست بہت طویل ہے۔ امریکہ جہاں لابنگ کو قانونی حیثیت حاصل ہے ،وہاں عربوں کی کوئی لابی ہے نہ مسلمانوں کی۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائوں سے کفار کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں ہماراخیال ہے کہ ہر مسئلے کا حل احتجاج میں ہے۔لیکن ایسا نہ کبھی ہوا نہ مستقبل میں ہو گا۔اسرائیل ہمارا دشمن سہی لیکن ہم چاہیں تو اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
تازہ ترین