اس عنوان کو پڑھنے کے بعد اگر آپ کا ذہن اپنی لاڈلی PIA کی طرف لپکا ہو تو پھر برائے مہربانی اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے، کرسی کی پشت کو سیدھا کیجیے، کھانے کی میز کو بند کردیجیے اور میرے ساتھ تین باکمال لوگوں کے سفرِحیات پر چلیے جنہوں نے لاجواب پرواز کی بدولت اپنے ملکوں کی تقدیر بدل ڈالی۔ سب سے پہلے جناب Lee Kuan Yew سے ملتے ہیں جنہوں نے 31 سالوں میں سنگاپور کو قدرتی وسائل اور پینے کے پانی جیسی بنیادی نعمتوں سے محروم ہونے کے باوجود ایشین ٹائیگر بنا ڈالا۔715 مربع کلو میٹر کے رقبے میں 5.3 ملین بسنے والے صاف ستھرے شہری آج فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ یہ ملک دنیا کا چوتھا بڑا معاشی مرکز اور اس کی بندرگاہ دنیا کی پہلی پانچ مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ بدعنوانی میں سب سے کم ترین اور امنِ عامہ میں اعلیٰ ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں سے سنگاپور پولیس کی کارکردگی دنیا کے پانچ موثر ترین ملکوں میں شمار ہوتی ہے جہاں شرحِ قتل0.3فیصد ہے جبکہ امریکہ میں یہی شرح4.3 فیصد ہے۔ یہ ملک ہر اعتبار سے ترقی اور خوشحالی کی میٹرو پر کب سے رواں دواں ہے اور ہم آج بھی اسی میٹرو کے کھڈے کھودنے میں مصروف ہیں۔ اگر کسی چیز کی درجہ بندی میں کمی ہے تو وہ فقط آزادیِ رائے اور آزادی اجتماع ہےجس میں ہم مالا مال ہیں۔ واجبی سی دفاعی قابلیت اور قدرتی وسائل کے نہ ہونے کے باوجود یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ Lee Kuan Yew اپنی قوم کی محنت کش صلاحیتوں کوہی قدرتی وسائل سمجھ کر بروئے کار لائے اور ان کو انوکھی قومی شناخت بخشی۔ کوآن صاحب کا سب سے اچھا عمل یہ تھاکہ انہوں نے مذہبی اور لسانی عدم برداشت کو سختی سے کچلا اور45 ایسے جرائم منتخب کیے جن پر سزا کے طور پر چھڑی سے پیٹھ پر مارا جاتا تھا۔ ان جرائم میں عوامی جگہوں پر تھوکنا، سرعام Gum کا چبانا اور کبوتروں کو سڑکوں پردانہ ڈالنا شامل ہے۔ یہ مردِنر َ1959 میں سنگا پور کا پہلا وزیر اعظم بنا اور 8 بار عام انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد 1990میں خود اپنی مرضی سے سبکدوش ہوا۔یہاں یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ یہ کوئی لیبیا کے کرنل قذافی کا دورتھا بلکہ یہاں صدرِ مملکت بھی مقبول رائے شماری سے منتخب ہوتا ہے۔دوسرے ایشین ٹائیگرجن کا ذکر ضروری ہے ملائشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد ہیںجو بائیسسال وزیرِاعظم رہے اور انکی انتھک محنت،خلوصِ نیت اورجذبہ حبُ الوطنی کی وجہ سے ملک سائوتھ ایشیاء میں تیسری اور دنیا میںاُنتیسویں پوزیشن پر جا پہنچا۔ گزشتہ پچاس برس سے اس ملک کی GDPکی اوسط 6.5فیصد پر قائم ہے۔تیسرے باکمال قائد نیلسن منڈیلا ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ یہ صدرتو فقط چار سال رہے مگر 27 سال جیل میں گزارنے کے باوجود دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کر گئے۔
قارئین کرام! آج میرا اصل مقصد اِن تین قائدین کی قائدانہ صلاحیتوں اور اِن کی خلوصِ نیت کے ساتھ اپنے مُلک کی ترقی، استحکام اور بہتری کے لیے کوششوں کاذکر کرنا تھاکیونکہ ان تینوں ملکوں اور پاکستان کے حالات میں کافی قدریںمشترک ہیں ۔باوجود اِس کے کہ یہ تینوں ممالک ہمارے بعد آزاد ہوئے،پھر بھی ہم سے بہت آگے نِکل گئے جِس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اِن کو خوش قِسمتی سے صحیح قائدین ملے جن کا ہمارے ہاں فقدان رہا۔ اگر غور کریں تو یہ تینوں قائدین جن کا ہم نے مختصر سا ذکر کیا جمہوریت پسند تھے جنہوں نے جمہوری اقدار کو بنیاد بنا کر اپنے مُلک اور قوم کی بہتری کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ تبدیلیاں لا کر مُلک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر دیا۔ ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی جمہوریت کو بنیاد بنا کر اپنے قومی مزاجِ ،تشخص اور روایات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ ایسی دور رس اصلاحات کریں جو ہمارے لئے کارآمد ثابت ہوں۔ اس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سنگاپور کے مذکورہ قائد سے ایک سوال کیا گیا کہ جناب آپ توآمریت کی طرف جا رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ہر گز نہیں میں جمہوریت پر ہی قائم ہوں جمہوریت اور آمریت کاموازنہ نہ کریں بلکہ جمہوریت اور Discipline کا موازنہ کریں کیونکہ مادر پدر آزاد جمہوریت ملکی استحکا م کی بجائے افراتفری کو جنم دے سکتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی ڈسپلن۔ ان حالات میں آزادیِ رائے کا ہرچو را ہے پر واویلا اور یومِ آزادی کے جشن کو ایک ماہ تک گھسیٹ لینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔اگر ہم آج بھی یہ عہد کریں کہ ہم نے خلوصِ نیت سے اس ملک کوسنوارنا ہے تو یہ نہ تو مشکل اور نہ ہی نا ممکن ہے مگر اس کے لئے پھر باکمال لوگوں کی اشد ضرورت ہے جن کو مقامِ اقتدار پر لانے کی ذمہ داری بھی ہم پر لاگوہوتی ہے۔آخر میں سید ضمیر جعفری کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
کوئلہ ایسا کو ئی مرد خدا پیدا کرے
جو اس آتش دان کے دل میں جلا پیدا کرے
ورثے میں ملیں جتنی،چیزیں
کچھ پی لی ہیں ، کچھ کھا لی ہیں
اِدھر بد گمانی، اُدھر بد گمانی
اخوت کا دعویٰ زبانی زبانی