جب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کسی حد تک ایک مقبول جماعت کے طور پر ابھری ہے پاکستان کی سیاست ایک انتہائی خطر ناک ڈگر پر چل پڑی ہے۔اگر اس جماعت نے اپنی سیاست کا انداز نہ بدلا تو ملک مزید مشکلات میںپھنس جائے گا۔جس پارٹی کی اس طرح کی کافی اچھی عوامی پوزیشن ہوجائے اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاست میں ٹھہرائو اور صبر وتحمل پیدا کرے گی اور اپنے کارکنوںکو ایسی راہ پر چلائے گی جہاں وہ ملک کو مستحکم کر سکیں اور ہر وقت انتشار کا ہی نہ سوچیں چیئرمین پی ٹی آئی اور اس جماعت کے دوسرے رہنما یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ملین سونامی مارچ ان کا آئینی اور جمہوذری حق ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں مگر دوسرے شہریوں کے حقوق بھی اتنے ہی آئینی اور جمہوری ہیں کہ ان کے لئے مشکلات اور تکلیفیں پیدا نہ کی جائیں۔ جب پی ٹی آئی اسلام آباد پر چڑھائی کر کے اور دھرنا دے کر لاکھوں شہریوں کی فری موومنٹ کو تہہ و بالا کر دے گی تو کیا ان کے حقوق پامال نہیں ہوںگے۔ اگر اس طرح کے احتجاجی اجتماع آئین کے دائرے میں رہیں اور کسی بھی شہری کے روز مرہ کے معمولات میں رکاوٹ نہ آئے تو یہ یقیناً آئین کے مطابق ہیں ۔لیکن ہمارے ہاں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر احتجاج کی وجہ سے ملک میں افراتفری پیدا نہ ہو سڑکیں بلاک نہ ہوں لوگوں کا جینا دوبھر نہ ہو اور کچھ انہونی نہ ہو تو ایسے اجتماعات موثر نہیں ہوں گے ۔پی ٹی آئی خود ہی سوچے کہ اس نے گزشتہ کچھ ہفتوں سے ملک کی کیا حالت بنا رکھی ہے۔کیا یہ سب کچھ پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنانے کی طرف اقدامات نہیں ہیں؟جہاں یہ کہا جائے کہ تھانوں کا گھیرائو کر لیا جائے اور اگر کسی پولیس والے نے اپنی قانونی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے کسی کارکن کو کسی غیر قانونی کام سے روکا تو اس کو عمران خان خود اپنے ہاتھ سے پھانسی دیں گے۔کوئی بھی ملک اس وقت ناکام ریاست قرار پاتا ہے جب وہاں کے ادارے مفلوج ہو جائیں اور اپنی قانونی ذمہ داریاں ادا نہ کر سکیں۔ جب پولیس والوں کو اس طرح کی دھمکیاں دی جائیں گی تو کیا وہ اپنے فرائض ادا کر سکیں گے؟ پی ٹی آئی والے خود ہی بتائیں کہ حکومت کیا کرے کیا وہ جتھوں کی حکمرانی کی اجازت دے دے ؟کیا وہ اسلام آباد کا محاصرہ ہونے دے ؟ کیا وہ اہم قومی تنصیبات پر مختلف گروہوں کے حملے ہونے دے ؟اگر وہ صرف خاموش تماشائی بنی رہے تو اس کے اقتدار میں رہنے کا کیا جواز ہے پھر تو وہ بھی ملک کو ناکام ریاست بنانے میں اپنا کردارادا کرے گی۔پی ٹی آئی کا ایک ایسا مزاج بن چکا ہے کہ جو بھی اس سے رتی برابر بھی اختلاف کرے اس پر وہ سخت ترین الفاظ میں لعن طعن شروع کر دیتی ہے اور اسے اپنا دشمن گردانتی ہے ۔ اس میں اس طرح کے روئیے کے پیدا ہونے کی وجہ صرف اور صرف عمران خان ہیں۔جب تک وہ اپنا انداز سیاست ٗ زبان اور مائنڈ سیٹ نہیں بدلیں گے اس جماعت میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیںہے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اپنی خیبرپختونخوا میں حکومت کی کارکردگی دکھاتے اور اسے دوسری صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں ایک قابل تقلید مثال بناتے مگر لگتا یہ ہے کہ وہ وزیراعظم بننے سے کم کسی چیزپر وہ تیار ہی نہیں ہیں۔انہوں نے پی ٹی آئی کے لئے اپنا دن رات ایک کر دیا اس لئے نہیں کہ پرویز خٹک وزیراعلیٰ بن جائیں ۔انہوں نے یہ سب کچھ خود وزیراعظم بننے کے لئے کیا تھا جو کہ 2013کے انتخابات میں نہ ہو سکا۔ عمران خان کی سیاست تضادات اور یوٹرنز سے بھر پور ہے ۔ اب دیکھیں وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ایک طرف تو وہ حکومت سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے ذریعے اس ڈیڈ لاک کوجو انہوں نے خود پیدا کیا ہوا ہے کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ ملک میں افراتفری بند ہو تو دوسری طرف وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت سے بات چیت کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں اور ڈائیلاگ لانگ مارچ کے بعد ہو سکتا ہے باوجود اس کے کہ حکومت تیار ہے کہ ان کے کچھ مطالبات جیسے مخصوص حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی وغیرہ کو مان لیا جائے۔مگر وہ جس گھوڑے پر سوار ہیں اس سے نیچے اترنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔وہ اتنی عجلت میں ہیں جس کا مظاہرہ آج تک پاکستان کے کسی سیاستدان نے نہیں کیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ تو وزیراعظم بنے ہی بنے۔ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا یہ انہیں سمجھ لینا چاہئےانہیں آئندہ الیکشن جیت کر اپنی باری کا انتظار کرنا ہو گا وہ قطار کو کراس کر کے یہ عہدہ نہیں لے سکتے یہ صرف ہم نہیں بلکہ ملک کے تمام معتبرلوگ کہہ رہے ہیں۔
بلاشبہ عمران خان کی سیاست نے نوازشریف حکومت کے لئے بہت مشکلات پیدا کر دی ہیں جس کی وجہ سے اس کے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے سفر کو دھچکا لگا ہے۔چاہئے حکومت کا کوئی کتنا بڑا ہی مخالف ہو وہ اس کا کوئی ایک بھی کرپشن اسیکنڈل سامنے نہیں لاسکتا۔ اس کے شروع کئے ہوئے بے شمار میگاپراجیکٹوں پر کچھ لوگوں کے اعتراضات تو ہو سکتے ہیں مگر ان کی شفافیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ملک میں بہتری نہیں لائیں گے۔جیسے کہ ایک گھر میں ایک ضدی بچے کو والدین عقلمندی سے ہنڈل کرتے ہیں حکومت کو بھی عمران خان کے ساتھ ایسے ہی چلنا ہو گا ۔ اسے بھی صبر و تحمل کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اور اتنا زیادہ پینک ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے جتنی کہ وہ نظر آرہی ہے۔ یقیناً لانگ مارچ کے دوران امن وامان قائم رکھنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہے مگر ساتھ ساتھ ان کے بھی کچھ فرائض ہیں جو کہ وزیراعظم سے کم کسی عہدے کی خواہش نہیں رکھتے ۔اس دور میں ٹی وی کیمروں کی آنکھ بڑی ہوشیار ہے جو ایسے احتجاجوں میں سب کے اعمال اور حرکات کو محفوظ کر لیتی ہے۔عمران خان کو جو بات بالکل سمجھ نہیں آرہی وہ یہ ہےکہ اگر خدانخواستہ ان کے احتجاج کی پیدا کی ہوئی افراتفری کی وجہ سے مارشل لا لگ گیا تو ان کے سارے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔یاد رکھیں ملٹری رول کسی سیاستدان کے لئے نہیں ہوتا بلکہ سیاستدانوں کی مقبول سیاست کو ختم کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ملک کا اور عمران خان کا اعلیٰ مفاداسی میں ہے کہ جمہوریت چلتی رہے اور ملک کو مارشل لا کے ذریعے اندھیروں میں دوبارہ نہ دھکیل دیا جائے۔
جہاں تک چیئرمین پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاج کا تعلق ہے وہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ اس کا مقصد کیاہے ۔المیہ دیکھیں کہ ایسی جماعت جو یا تو عام انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتی اور اگر لیتی بھی ہے تو ایک سیٹ سے زیادہ اس کے پلے کچھ نہیں پڑتا وہ ملک میں عوامی انقلاب لا رہی ہے۔ یہ صرف بدقسمت پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے دنیا کے کسی ملک میں ایسے تماشوں کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ڈاکٹر قادری ایک کلٹ لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں جو اپنے پیروکاروں کوانتہائی اقدامات پر مائل کر کے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا معاملہ عمران خان سے مختلف ہے ۔ ملک میں مارشل لا لگے انارکی پھیلے یا خانہ جنگی ہو ان کا مسئلہ نہیں ہے یہ تو اپنامخصوص انقلاب لانا چاہتے ہیں جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی قانون اور آئین اور انتخابی اصلاحات کی بات کرتے ہیں تاکہ الیکشن کے نظام کو بہتر کیا جائے۔ ڈاکٹر قادری کے ساتھ حکومت بھی مختلف سلوک کر رہی ہے ۔ اس کی کوشش ہے کہ قادری اپنے پیروکاروں کا کوئی بڑا اجتماع نہ کرسکیں جس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔