• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’انقلاب مارچ‘‘ کے داعی ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستانیوں کو جس 10نکاتی بنیادی منشور پر عمل درآمد کا یقین دلایا،قومی سیاسی جماعتوں میں سے پاکستانی پیپلز پارٹی ایسے عوامی منشور کی اولین محرک اور مدعی ہے۔ ’’ن‘‘ لیگ سمیت کوئی دوسری جماعت نہ ایسا دعویٰ کرسکتی ہے نہ ایسا دعویٰ سچائی پر مبنی ہوگا۔ وہ جزواً عوامی خدمت کے ایسے کام سرانجام دیتی رہیں مگر انہوں نے اس عوامی نظام کو پاکستان کا مقدر بنانے کی کوشش نہیں کی،
پیپلز پارٹی آج بھی عوامی خدمت کے لئے اپنے تاریخی اثاثے سمیت موجود ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسی سچائی کا سرا پکڑا ہے، گو انہیں اوران کی جماعت کو پاکستان پیپلز پارٹی یا اس کی قیادت کے بالمقابل قطعاً گردانا نہیں جاسکتا، پھر بھی کیا عوامی خدمت کی سچائی کا سرا پکڑنا کوئی گناہ کبیرہ ہے؟ اور یہ 10نکات کوئی ایسا جرم ہیں جس کی سزا کے طور پر گزشتہ ہفتہ دس دن سے صوبہ پنجاب کو ٹارگٹ کر رکھا ہے؟ ڈاکٹر طاہرالقادری اس عوامی منشور کے پھیریرے لہراتے اسلام آباد کا رخ کرتے، حکومت انہیں جانے دیتی، اس سے حکومت کا گرنا کیسے لازم ہوگیا؟ ذرائع آمدورفت مسدود کرنے، پٹرول بند کرنے، اشیائے خورونوش تک کو مظاہرین کی ترسیل بند کرنے سے آخر شرمندگی اور بدنامی کے علاوہ کیا ہاتھ آیا؟ کیا سانحہ ماڈل ٹائون کے 14 یا 15 مقتولین کی پونے دو ماہ یا دو ماہ کے دورانئے میں ایف آئی آر درج نہ ہونے کا ملبہ کافی نہیں تھا؟ کیا لاہور سمیت پورے پنجاب کو ’’کنٹینر پابند‘‘ دنیا میں تبدیل کردینا انتظامی دانش مندی کے ادنیٰ سے معیار پر بھی پورا اترتا ہے؟ زمان پارک میں عمران خان کی آمد پر ’’ن‘‘ لیگ کے کارکنوں کا روبرو ہو کے تصادم میں ملوث ہونا یا صوبائی وزیر قانون رانا مشہود کا یہ کہنا ’’ہم بھی ہزاروں کی تعداد میں نکلیں گے‘‘ کیا خانہ جنگی کو دعوت دینے کے مترادف نہیں تھا؟ کیا ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا عوامی منشور نافذ کردیا ہے، جس کے بعد وفاقی اور پنجاب حکومت اس قدر سنگین حواس باختگی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا منشور اپنی جگہ، اصل یہ ہے کہ ’’ن‘‘ لیگ کے اس ایک برس نےاقتصادی، سماجی اور امن و امان کے لحاظ سے گزشتہ 60 برسوں کی اذیتیں بھلا دی ہیں! شیخ رشید کی لال حویلی پر ن لیگی کارکنوں کا دھاوا کس قلعے کو فتح کرنے کی علامت قرار پا سکتا ہے؟ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں خندقیں کھود کرپانی چھوڑنے جیسے اقدامات خوف کا اعلان ہیں یا نہیں؟ پاکستان عوامی تحریک اور پولیس کے تین اہلکاروں کی شہادت کا ذمہ دار کون ہے؟کیا حکمرانی کی فراست سے بے بہرہ حب الوطنی قابل قبول ہوسکتی ہے؟ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ’’انقلاب مارچ‘‘ یا 10 اگست کو یوم شہدا سانحہ ماڈل ٹائون، اعتدال کے ساتھ Deal نہیں کیا جاسکتا تھا؟ تقریباً 26 برس سے برسراقتدار ’’ن‘‘ لیگ کو وفاق اور صوبائی سطحات پر ریاستی فورسز کو اس قدر وسیع پیمانے پر اتنی جارحیت کے ساتھ آمادہ پیکار کرنا، اس کے پائوں تلے سے زمین سرکنے کا اعلان ہے یا نہیں؟
لاہور ہائی کورٹ کے ریمارکس قابل غور ہیں، ایسے ریمارکس حالات کی تہہ کے نیچے موجود کسی بہت ہی آتش گیر مادے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عدالت عالیہ کے الفاظ ہیں ’’وزیراعظم بار بار عمران کے پاس جائیں۔ حکومت کو ملک کی خاطر پائوں بھی پڑنا پڑے تو حرج نہیں۔ ملکی سالمیت کو شدید خطرہ ہے۔ حکومت انا کا مسئلہ نہ بنائے۔ مذاکرات کے لئے خود پہل کرنی چاہئے۔ وزیراعظم کے گھر سے بنی گالہ کتنی دورہے؟ احتجاج کرنے والے بھی پاکستانی ہیں۔ انتشار سے بچنے کا یہ طریقہ جو حکومت نے اختیار کیا۔ عدالتیں مداخلت نہیں کرسکتیں۔‘‘ پارلیمنٹ میں موجود قومی سیاسی جماعتوں سے لے کر عام شہریوں تک نے ’’انقلاب مارچ‘‘ اور ’’لانگ مارچ‘‘ کے معاملے میں وفاقی اورصوبائی حکومت (پنجاب) کے طرز عمل اور طریق کار سے اختلاف ہی نہیں کیا، مذمت بھی کی، اس طریق کار نے ہی حالات کو Point of No Return پر پہنچا دیا کہ عدالت عالیہ کو روایت کے خلاف رٹ کے فیصلے سے پہلے تجویز کے انداز میں بات کرنا پڑی۔ ملکی سالمیت تک کے خطرے میں ہونے کی نشاندہی کی؟
’’ن‘‘ لیگ کی حکومت کے عمل اور وزراء کے بیانات سے ابھرنے والے منظر میں ،خونین (خدانخواستہ) واقعات کا یقین کی حد تک اندیشہ موجود ہے۔ دوسری طرف بھی ردعمل صبر اور برداشت کے بجائے مجبوری اور شدید ترین غصے میں ڈھل چکا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقاریر، عمران خان کے انتباہ جواباً اس قسم کے اندیشوں ہی کی غمازی کرتے ہیں۔ وہ مرحلہ گزر چکا جب تاریخ کی یاد دھانی سے کام چل سکتا تھا۔ جیسے خواجہ سعد رفیق نے کہا ’’جنرل (ر) شجاعت پاشا اور بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ لانگ مارچ کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ آپ حکومت گرائیں گے تو کیا کوئی آپ کو حکومت کرنےدے گا۔ ہم یہ طریقے آزما چکے ہیں‘‘۔ یہ گفتگو درمیانی راستے کی طرف نہیں جاتی، دعوت مبارزت کا پیغام ہے! یہ اعتراف بھی ہے، ان چھبیس برسوں کی حکمرانی کا جسمیں فوج کے کندھے سے انکار ناممکن ٹھہرے گا، ملک کی منتخب جمہوری قیادت کو سازش اور طاقت کے ساتھ ناکام کرنے کی سیاہی کناروں سے ابل ابل کر بہہ رہی ہے۔ کل 12اگست تھی، وزیراعظم پاکستان نے قوم سے خطاب کیا۔ میرے ذہن میں منظور وسان کے تازہ ترین خواب کے فرمودات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ آپ کا ’’فرمانا‘‘ ہے ’’مشرف اگست کے آخر تک بیرون ملک چلے جائیں گے اور بہت سے لوگ جیلوں میں ہوں گے‘‘ آخر ’’ن‘‘ لیگ کے کانوں تک، گزشتہ آٹھ دس ماہ سے ’’فہرستیں بن چکی ہیں‘‘ کی افواہیں پہنچی ہیں یا نہیں؟ اور کیا یہ صرف ’’افواہیں‘‘ ہیں؟
مئی 2011ء کے قومی انتخابات کے حوالے سے عمران خان کی پریس کانفرنس معمول کے انکشافات پر محمول نہیں کی جانی چاہئے۔ اس کانفرنس کا یہ حصہ ہر پاکستانی کے لئے صدمے اور ناامیدی کا ثبوت بن کر سامنے آیا ہے جب اسے پتہ چلتا ہے، قومی انتخابات میں دھاندلی کے مرکزی کرداروں میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری، سابق جسٹس (ر) خلیل رمدے، جسٹس (ر) ریاض کیانی اور مقتدر دانشور نجم سیٹھی جیسی شخصیات شامل ہیں۔ ملک کا عام شہری جن لوگوں کے وجود میں اپنے شب و روز کا تحفظ تلاش کرتا ہے ان کی ایسی ’’بدنامی‘‘ اسے کس طرح ایڈجسٹ ہوسکتی ہے، اس کے خیالات اور احساس تحفظ کے تو سارے محلات مسمار ہو جاتے ہیں، درست ہے، یہ عمران خان کے الزامات ہیں لیکن ان الزامات کے جارحانہ تسلسل نے نواز لیگ کی موجودہ منتخب حکومت کے جائز پن (Validity) کا جنازہ نہیں نکال دیا؟ ابتدا ہی میں چار حلقوں کی بات مان لینے سے اس قیامت صغریٰ کو ٹالا جاسکتا تھا جس کے آثار ’’ن‘‘ حکمرانوں کے سروں پر آن پہنچےہیں، بسا اوقات قومی اجتماعی بحران میں روٹین کی قانونی موشگافیوں کے بجائے آئین کی روح کو ترجیح دی جاتی ہے اور آئین کی روح یہی تھی کہ عمران کے پہلے اعتراض پر ہی نواز حکومت دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کا اعلان کردیتی، اس وقت ہم سب ایک ایسی انتظار گاہ میں بیٹھےہیں جسے چاروں طرف سے شعلوں نے گھیر رکھا ہے!
تازہ ترین