• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرپشن کی تحقیقات کے لئے نیا قانون لانے پر حکومت اور اپوزیشن، میں اتفاق کے اشارے امید افزا ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس قانون کی منظوری سے پانامہ لیکس سمیت بدعنوانی کے الزامات کی موثر تحقیقات میں مدد ملے گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پانامہ لیکس کے معاملے میں تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کے معاملے میں بھی فیصلہ کن پیش رفت نظر آئے اور اس ہیجانی کیفیت کے خدشات دور کرلئے جائیں جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت اپوزیشن کی بعض جماعتوں کے تحریک چلانے کے اعلانات کے منظرنامے میں خارج از امکان نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منگل کے روز قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سے ان کے چیمبر میں ملاقات کے بعد بتایا کہ گفتگو حکومت کے تیار کردہ ’’کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2016ء‘‘ کے مسودے سے متعلق تھی۔ مذکورہ مسودہ اپوزیشن کے اس مطالبے پر تیار کیا گیا ہے کہ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے الزامات کی تحقیقات کے لئے خصوصی قانون بنایا جائے۔ مجوزہ قانون موجودہ ’’انکوائری کمیشن ایکٹ مجریہ 1956ء‘‘ کی جگہ لے گا۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ 60؍سال سے انکوائری کمیشن کا ایک ہی قانون چل رہا تھا جس کے تحت 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سانحےسے لے کر 2012ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے حوالے سے رونما ہونے والے واقعہ سمیت متعدد امور کی انکوائریاں ہوئی ہیں۔ اس قانون کو چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی ’’بغیر دانتوں کا‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ چنانچہ حکومت نے کمیشن کو موثر بنانے کے لئے نیا قانون بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خرانہ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت چند ماہ قبل مجوزہ قانون کا مسودہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن کے سامنے پیش کرچکی تھی جسے اب مزید بہتر بنایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پانامہ لیکس کے نام سے آف شور کمپنیوں کے بارے میں سامنے آنے والے بعض انکشافات سے دنیا بھر میں جو ہلچل مچی، اس کے منطقی نتائج کئی ملکوں میں سامنے آچکے ہیں اور بعض ملکوں میں تاحال تحقیقی عمل جاری ہے۔ مذکورہ دستاویزات میں وزیر اعظم پاکستان کے خاندان کے بعض افراد کے نام سامنے آنے کے بعد میاں نواز شریف اس معاملے پر قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لئے پیش کرچکے ہیں۔ مگر مجوزہ تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) پر اختلافات کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہوسکا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان 18؍مئی کو فریقین کے چھ چھ ارکان پر مشتمل جس 12رکنی پارلیمانی کمیٹی پر اتفاق ہوا تھا، اس کے کئی اجلاس ہوئے مگر حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے ٹی او آرز تسلیم نہ کئے جانے کے بعد جون میں حزب اختلاف نے بات چیت جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی مداخلت کے بعد 9؍اگست کو جو اجلاس بلایا گیا وہ بھی 8اگست کے سانحہ کوئٹہ کے باعث منعقد نہیں ہو سکا۔ پارلیمانی کمیٹی کا کوئی کنوینر نہ ہونے کے باعث وزیر خزانہ نے اسپیکر اور اپوزیشن لیڈر سے ثالثی کی درخواست کی ہے تاکہ ٹی او آرز کمیٹی کا اجلاس بلاکر حکومت کا تجویز کردہ مسودہ قانون عوام کے سامنے لایا جا سکے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف سمیت کئی جماعتوں کی طرف سے جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے اعلانات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ فریقین کے ایک دوسرے کے خلاف نااہلی ریفرنسوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جن میں سے وزیراعظم کے خلاف دائر ایک ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی مسترد کر چکے ہیں۔ عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ یہ سب چیزیںجمہوریت کا حصہ ہیں مگر بھارت اور افغانستان سے ملنے والی سرحدوں پر نظر آنے والے خطرات سمیت ملک کو درپیش چیلنجوں کا تقاضا ہے کہ قوم کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرنے سے اجتناب برتا جائے، نئے قانون پر اتفاق کے اشاروں کو باضابطہ ایکٹ کی صورت دی جائے اور ٹی او آرز پر اختلافات دور کرکے ملک میں شفاف احتساب کی روایت قائم کی جائے۔

.
تازہ ترین