• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میں 15 جولائی 2016 کی ناکام فوجی بغاوت پر دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں کی طرف سے منائے جانے والے جشن کا جوش وخروش اب آہستہ
آہستہ مفقود ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت ترکی میں بغاوت کو کچلنے کے نام پر جس طرح سیاسی مخالفین اور اختلاف رائے کو کچلا جا رہا ہے ، اس نے جمہوریت پسندوں کو مایوس کر دیا ہے ۔ یہ خبر کس قدر خون گرما دینے والی تھی کہ ترکی کے نہتے عوام فوجی ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں اور انہوں نے باغی فوجیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ٹینکوں سے باہر نکل کر آئیں اور عوامی طاقت کے آگے اپنے ہتھیار ڈال دیں ۔ ترکی میں صرف فوجی بغاوت ناکام نہیں ہوئی تھی بلکہ پاکستان سمیت تیسری دنیا میں جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کرنے والے عوام کی مایوسی کو شکست ہوئی تھی لیکن اب یہ مایوسی فوجی باغیوں کی جگہ ان کے ٹینکوں پر سوار ہو گئی ہے اور یہ ٹینک آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ان ٹینکوں کو اب روکنے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ جو کام فوجی آمروں نے کرنا تھا ، وہ صدر رجب طیب اردگان کر رہے ہیں ۔ فوج ، پیرا ملٹری اور سویلین فورسز ، عدلیہ ، درس گاہوں اور دیگر سرکاری اداروں سے ہر اس شخص کو ملازمت سے نکالا اور گرفتار کیا جا رہا ہے ، جس پر طیب اردگان کے مخالف ہونے کا شبہ ہے ۔ صرف یہی نہیں نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات بھی بند کیے جا رہے ہیں ۔ طالب علموں ، وکلاء اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے ۔ جیلوں میں اب توگنجائش بھی نہیں رہی ہے ۔ جمہوریت کی جگہ فسطائیت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا ، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ ہم پاکستانیوں کا ترکی سے بہت گہرا رشتہ ہے ۔ یہ ہم غیر منقسم ہندوستان کے مسلمان ہی تھے ، جنہوں نے 1919 ء میں شروع ہونے والی ’’ تحریک خلافت ‘‘ کے ذریعہ سلطنت عثمانیہ کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں سب سے زیادہ سرگرمی دکھائی ۔ 1299 ء میں قائم ہونے والی سلطنت عثمانیہ کو ’’ دولت ابد مدت ‘‘ یعنی ہمیشہ قائم رہنے والی سلطنت کہا جاتا تھا لیکن یہ سلطنت 1923 میں ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گئی ۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے جنگ عظیم اول میں برطانیہ کا ساتھ اس لیے دیا کہ سلطنت عثمانیہ جنگ میں شریک ہو گئی تھی ۔ ہم نے بنیادی طور پر ترکوں کا ساتھ دیا اور اس وقت عرب دنیا کو ناراض کیا کیونکہ عرب دنیا میں تصور یہ تھا کہ تحریک خلافت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عربوں پر ترکوں کی بالادستی قائم رہے ۔ ہم ہندوستان کے مسلمان سلطنت عثمانیہ کی عظمت کے رومان میں تھے اور اس کی عظمت کو مسلمانوں کی عظمت سے تعبیر کرتے تھے ۔ قسطنطنیہ اور غرناطہ کی عظمت نے ہندوستان کے مسلمانوں میں احساس تفاخر پیدا کیا اور آج پاکستان کے کچھ لوگوں میں مذہب کے نام پر دنیا کو فتح کرنے کا جنون بھی اسی احساس تفاخر کا نتیجہ ہے ۔ علامہ اقبال کی شاعری اور نسیم حجازی کے ناول سلطنت عثمانیہ کی عظمت سے رومانوی اظہار ہیں ۔ تحریک خلافت کا ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ قوم بنانے اور ایک الگ ’’ اسلامی ریاست ‘‘ کو معرض وجود میں لانے میں بہت اہم کردار ہے ۔ اسی سلطنت عثمانیہ کو ترکوں نے خود اپنے ہاتھوں سے دفن کیا حالانکہ اس سلطنت کی وجہ سے 700 سال تک ترکوں کو دنیا پر حکمرانی کا موقع ملا تھا اور انہوں نے اس سلطنت کے بدلے ’’ ترک قوم ‘‘ کے طور پر اپنی شناخت حاصل کی اور یہ کہا کہ وہ مسلمان بھی ہیں لیکن سب سے پہلے ترک ہیں ۔ سلطنت عثمانیہ تو ختم ہو گئی لیکن ہم آج بھی سلطنت عثمانیہ کی رومانویت میں ہیں اور رجب طیب اردگان کی شکل میں صلاح الدین ایوبی کو تلاش کر رہے ہیں ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنی شناخت حاصل نہیں کر سکے ہیں ۔ بظاہر تو ترکی میں بغاوت کو کچلنے کے لیے جلا وطن ترک رہنما فتح اللہ گولن کے مذہبی انتہا پسند حامیوں کا صفایا کیا جا رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ ہمارے لوگوں کے ذہن میں صلاح الدین ایوبی کا جو تصور ہے ، اس تصور پر طیب اردگان سے زیادہ فتح اللہ گولن پورا اترتا ہے ۔فتح اللہ گولن کی اسلامی تحریک عالمگیر ہے ۔ چونکہ ہماری نفسیات فاتحین کو ہیرو ماننے والی ہے ، اس لیے ہم طیب اردگان کو ہی فی الحال صلاح الدین ایوبی مان رہے ہیں ۔ ترکی میں اصل لڑائی طیب اردگان اور فتح اللہ گولن کی نہیں ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ مذہب کے نام پر دائیں بازو کی سیاست کرنے والے ان دونوں رہنماؤں کے درمیان اقتدار کے حصول کی رسہ کشی موجود ہے ۔ ترکی میں اصل لڑائی جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے بنائی گئی سیکولر اسٹیبلشمنٹ اور اس کی مخالف مذہبی سیاسی قوتوں کے درمیان ہے ۔ کمال اتا ترک کا تجربہ یہ تھا کہ زوال پذیر سلطنت عثمانیہ کے خلفاء کی پان اسلامک تحریک کی وجہ سے نہ صرف سلطنت عثمانیہ نہیں بچ سکی بلکہ ترکی تقسیم بھی ہو گیا اور اس پر اتحادیوں نے قبضہ بھی کر لیا ۔ مصطفی کمال اتاترک نے ترکی کی آزادی کے لیے جنگ لڑی اور یہ جنگ جیتی اور ترکی میں ایک نیا سماجی اور سیاسی نظام نافذ کیا ، جس کا بنیادی جوہر سیکولرازم اور مغرب سے قربت تھا ۔ اتاترک نے ترکی میں صدیوں سے رائج سب کچھ اچانک تبدیل کر دیا ۔ اس کے خلاف جو ردعمل ہوا ، اس میں مذہبی قوتیں طاقتور ہوئیں ۔ وہ مختلف طریقوں سے اقتدار میں آئیں لیکن اتاترک اسٹیبلشمنٹ نے ا نہیں چلنے نہیں دیا ۔ طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( اے کے پی ) نے دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ جمہوریت کا راستہ اختیار کیا ۔ اے کے پی نے سخت گیر اسلام پسندوں کو معتدل بنایا لیکن طیب اردگان یہ نعرہ بھی لگاتے رہے کہ ’’ مسجدیں ہماری بیرکس ہیں ، گنبد ہمارے ہیلمٹ ہیں ، مینار ہماری سنگینیں ہیں اور مومن ہمارے سپاہی ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی نعرہ لگایا کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیا جائے گا ۔ یہ دونوں نعرے ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ ان کی مقبولیت کسی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں بلکہ جدلیاتی مادیت اور سیاسی معیشت کو سمجھنے والے یہ جانتے ہیں کہ ترکی میں سرمایہ دارانہ نظام اور مسلم سرمایہ داروں کے مفادات کا نتیجہ ہے ۔ یہ سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے اور بین الاقوامی مارکیٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اے کے پی طرز کی سیاسی جماعت چاہتے تھے ۔وہ ترکی میں سیکولر ازم کے مقابلے میں تھیوکریسی ( ملا شاہی ) کو رائج نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ اے کے پی ان کے لیے رول ماڈل تھی لیکن اے کے پی کی مقبولیت ’’ مسجدیں ہماری بیرکس ہیں ‘‘ کے نعروں سے ہوئی اور اس وقت بھی بغاوت کو کچلنے کے نام پر درحقیقت ترقی پسند اور سیکولر قوتوں کا خاتمہ کیا جا رہا ہے اور طیب اردگان زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرکے طویل عرصے تک ترکی پر حکومت کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ اس کے لیے انہیںسیاسی مجبوری کے طور پر زیادہ سے زیادہ انتہا پسندانہ موقف کی طرف جانا پڑے گا ۔ یہ بات خود ترکی کے سرمایہ داروں کے لیے بھی نقصان دہ ہو گی ۔ ترکی کے ارد گرد عرب دنیا سے بنیاد پرستی کے بڑے بڑے طوفان اٹھ رہے ہیں ۔ دولت اسلامیہ ( آئی ایس ) اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے صلاح الدین ایوبی تیار بیٹھے ہیں ۔ اگر طیب اردگان نے سیاسی مخالفین کو کچلنے کا یہی انداز جاری رکھا اور اپنے شخصی اقتدار کے لیے فتح اللہ گولن کے حامی بنیاد پرستوں اور سیکولر عناصر کے مقابلے میں اپنے بنیاد پرست حامی عناصر پر انحصار بڑھایا تو ارد گرد بیٹھے کئی صلاح الدین ایوبی ترکی میں پیش قدمی کریں گے اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا ۔ جمہوریت کی ہر شکل آمریت سے بہتر ہے لیکن جمہوریت کے نام پر جمہوری اقدار اور اختلاف رائے کو کچلنے کے بھی نتائج اچھے نہیں ہوتے ہیں ۔


.
تازہ ترین