• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تو طے یہ ہوا ....اگر وزیراعظم نواز شریف اپنے منصب پربرقرار رہنا چاہتے ہیں توانہیں بہرحال اس کی قیمت توادا کرنی پڑے گی۔ اپنے اختیارات کااپنی مرضی سے استعمال کا خمیازہ تو بھگتنا پڑے گا۔ خودداری، عزت نفس اور باوقار اندازسے حکمرانی کرنے والوں کو ہی نہیں بلکہ عام زندگی میں بھی ایسے رویوں اور باوقار طرز عمل اختیار کرنے والوں کو اس کی قیمت چکانی ہوتی ہے۔اوریہ سلسلہ ایک مرتبہ کی ادائیگی سےختم نہیں ہوتا۔تاوان اورلگان وصول کرنےوالے کمزور کرکے ذراسی خطاپر باربار چوٹ لگاتےہیں۔اس لئے یہ فیصلہ کرناہوتاہے کہ زندہ کس انداز سے رہناہے۔اور قرائن یہ بتارہے ہیں کہ انہوں نے اس حوالے سے ’’حتمی ‘‘فیصلہ کرلیاہے۔
1977-76کاواقعہ ہے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو آزادکشمیر کےپہلے دورے پردارالحکومت مظفر آباد گئے تو فرائض منصبی کی ادائیگی کےلئےان کے ہمراہ جاناہوا۔دودن کی مصروفیات سے فارغ ہوئے تو کشمیر کی حکومت کابڑا اصرار تھاکہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کاچونکہ آزادکشمیر کاپہلادورہ تھا اس تناظر میں آزادکشمیر کے وزیراعظم کاخصوصی انٹرویو کرلیاجائے۔ اگلے روز ناشتے پرملاقات طے ہوئی بھٹو صاحب کے دورے کی کوریج کےلئے آنے والے کم وبیش تمام صحافی حضرات ناشتے پرموجود تھے اوروزیراعظم عبدالحمیدخان پہلے سے وہاں موجود تھے ...ان کی ’’عاجزانہ طبعیت اورسادگی ‘‘ کے بارے میں اخبار نویسوں کوپہلے ہی بریف کردیا گیاتھا۔ناشتے پربھرپور غیررسمی گفتگو ہوئی۔پھر انٹرویو شروع ہوا تواسی دوران عبدالحمید خان صاحب نے پہلو میں ایستادہ ملازم سے کہاکہ ۔بھئی اخبار والے چائے بہت پیتے ہیں اس لئے گرماگرم چائے لاؤ کافی دیر گزرنے کے بعد بھی چائے نہیں آئی توایک اخبار نویس نے خوشدلی سے کہا...وزیراعظم صاحب آپ نے چائے کاحکم دیاتھا توانہوں نے سامنےرکھی گھنٹی زور زور سے بجانی شروع کردی۔لیکن نہ چائے آئی نہ ملازم ۔تما م اخبار نویس ششدر رہ گئے لیکن ایسا محسوس ہوتاتھا کہ وزیراعظم صاحب کےلئےیہ کوئی نیا واقعہ نہیں تھا کیونکہ کچھ دیربعد ملازم چینی کے بغیر چائے لیکر آیا تووزیراعظم نے اظہار مسرت کرتے ہوئے سب کوچائے پینے کےلئے کہا۔لیکن جب تک ملازم چینی لیکرآیا۔چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی۔
انٹرویو کے دوران میںآزاد کشمیرکے چیف سیکرٹری (جنہیں اصل حکمران سمجھا جاتا تھا) غالباََاجلال حیدر زیدی تھے۔وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کے ہمراہ آئے انہوں نے اخبار نویسوں سے معذرت کی اور دو فائلیں وزیراعظم صاحب کے سامنے رکھ دیں۔ وزیراعظم نے دونوں فائلوں پرپہلے دستخط کئے اورپھر چشمہ لگا کہ نفس مضمون پر ایک سرسری سی نظر ڈالی۔ چیف سیکرٹری تھینک یو کہہ کر روانہ ہوئے۔ تووزیراعظم نے فخریہ انداز میں فرمایا... دیکھا آپ نے لوگ باتیں کرتے ہیں کہ میں بے اختیار وزیراعظم ہوں۔چیف سیکرٹری فائلوں پر دستخط کرانے کے لئے میرے پاس آیا تھا اور بار بار تھینک یو کررہا تھا...بعد میں معلوم ہوا کہ ایک وزیراعظم عبدالحمید خان پر ہی کیا موقوف کم و بیش آزادکشمیر کے تمام وزرائے اعظم اسی طرح ’’سادگی اور عاجزی ‘‘ سے حکمرانی کرتے ہیں۔ اس لئے شازونادر ہی آزادکشمیر کے وزیراعظم کے خلاف کارروائی کا ماحول بنایا جاتا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف اقتدار میں رہ کر خودکو بااختیار اور بلاشرکت غیرے حکمران سمجھنے کی دومرتبہ قیمت ادا کرچکے ہیں۔ وہ سکیورٹی اور اسٹرٹیجک پالیسی کے معاملات۔ پڑوسی ملکوں بالخصوص بھارت اور افغانستان سے پالیسی وضع کرنے کے امور میں مختلف ترجیحات اور سوچ رکھتے ہیں ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ یہ ۔اور اس طرح کے بےشمار معاملات میں وہ ہدایت تو دور کی بات مشاورت کے بھی پابند نہیں ہیں۔ ایسا ہی کچھ محمدخان جونیجو اور میرظفراللہ خان جمالی نے بھی سوچنا شروع کردیا تھا۔
دھرنوں کے دوران وزیراعظم کے برادرخورد میاں شہبازشریف اور ان کے بااعتماد اور دیرینہ دوست چوہدری نثار علی خان نے چیف آف آرمی اسٹاف سے دومرتبہ ملاقاتیں کیں۔ پہلی ملاقات میں یہ تصدیق چاہی کہ کیا دھرنے والوں کو بخشا ہوا اعتماد فوج کا عطاکردہ ہے... جس پر انہیں بتایا گیا بلکہ یقین دہانی کرائی گئی کہ فوج حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والوں کے ہرگز ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی وہ خود حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ یقیناً یہ طویل ملاقات محض چندجملوں پر ختم نہیں ہوئی ہوگی۔
بہرکیف اس ملاقات کے بعد ہی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے ایک پریس کانفرنس میں بھرپوراعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’’میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسلام آباد میں جو کھیل تماشہ لگا ہوا ہے اس کے پیچھے کوئی اور تو ہوسکتا ہے....لیکن فوج ہرگز نہیں‘‘ لیکن دھرنے والوں کے لہجے میں سختی، مطالبات میں اضافہ اور اعتماد میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ دودن کے وقفے کے بعد میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی ایک ملاقات آرمی چیف سے پھر ہوئی، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہی دوحکومتی شخصیات نے وزیراعظم کی جانب سے کچھ یقین دہانیاں کرائیں، جس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ترجمان کا ایک بیان جاری ہوا ۔
جس میں انہوں نے موجودہ تعطل میں فریقین کو صبروتحمل اور تدبر سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’معاملات کو وسیع تر قومی اور عوامی مفاد میں بامقصد مذاکرات سے حل کیا جائے‘‘ پھر چیف آف آرمی اسٹاف کے حوالے سے بھی ان کی اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ معاملات حل کرنے میں تاخیر نہ کی جائے ... اور پھر پارلیمنٹ ہائوس میں گھسنے، وزیراعظم کو گریبان سے پکڑنے، ارکان پارلیمنٹ کو شکار کرنے جیسے تمام دعوے اور دھمکیاں مذاکرات میں بدل گئیں۔ اس لئے اب ان ’’دھرنا قائدین‘‘ کے بارے میں کیا کہا جائے اور دھرنے کے بارے میں کیا لکھا جائے، اس بارے میں اب کچھ مختلف عرض ہے۔ وفاقی دارالحکومت کا طبقہ اشرافیہ ہی نہیں بلکہ عام شہری بھی جو ’’انقلاب‘‘ کے مفہوم سے ناآشنا تو تھے ہی۔اب انقلاب کے نام سے بھی بیزار اور بدظن ہوچکے ہیں وہ اپنے شہر ٗاپنی گلی اور اطراف میں پھیلے ہوئے ان ’’انقلابیوں اور جنونیوں‘‘ سے تنگ آچکے ہیں جوعلی الصبح ہاتھوں میں لوٹے تھامے اور کندھوں پر تولیے ڈالے مسواک کرتے ہوئے ’’مطلوبہ مقام‘‘کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور بعض اوقات حالت مجبوری میں دروازے پر دستک دینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور التجائیہ انداز میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ’’حاجت روائی‘‘ کی درخواست کرتے ہیں ظاہر ہے یہ صورتحال اسلام آباد کے پرتعیش اور مہنگے ترین سیکٹرز میں تو نہیں ہے کیونکہ دھرنوں کے مقامات ان سیکٹرز سے خاصے فاصلے پر ہیں... لیکن آبپارہ چوک، سیرینا ہوٹل چوک میں جب دھرنے دیئے جارہے تھے تو اطراف میں واقع آبادیوں اور بالخصوص اسلام آباد ’’جاسمین روز گارڈن ‘‘جو ہر وقت مختلف اقسام کے پھولوں سے مہکتا رہتا تھا کئی دن تک متعفن رہا دھرنے کی جگہ تبدیل ہوکر جب پارلیمنٹ ہائوس کے باہر منتقل ہوئی تو پولیس نے درجن بھر انقلابیوں کو جن میں نصف جنونی بھی شامل تھے پارلیمنٹ ہائوس میں داخل ہونے کا راستہ تلاش کرنے کی جستجو میں پکڑ لیا۔ تاہم شواہد کی تصدیق ہونے کے بعد انہیں فوری طور پر رہا اس لئے کرنا پڑا کیونکہ وہ کئی دنوں بعد باضابطہ طور پر ’’غسل وغیرہ وغیرہ‘‘ کرنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لئے پارلیمنٹ سے استفادہ کرنے کے خواہشمند تھے۔ اسی طرح پارلیمنٹ سے ملحقہ ویرانیوں میں اس حوالے سے بعض ’’ضرورتمندوں‘‘ کو بھی رنگے ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر ہر دو فریقین کو مختلف نوعیت کی ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم جہاں وفاقی دارالحکومت میں بعض علاقوں کے شہری باریش انقلابیوں سے بیزار رہے وہیں وہ ’’نوجوان جنونیوں‘‘ کی راہ دیکھتے بھی نظر آئے ۔اگر کسی کے موبائیل فون کی چارجنگ ختم ہوگئی ہو، میک اپ فریش کرنا ہو یا پھر خود فریش ہونا تو صرف گھر کے ہی نہیں ۔بلکہ دل کے دروازے بھی کھلے ہیں اور بعض تو میزبانی کے جوش جنون میں اتنے آگے جاتے دکھائی دیئے کہ انہوں نے مہمانوں کے لئے کمرے بھی خالی کردیئے۔ ان میں ایسے میزبان بھی شامل تھے جنہوں نے میزبانی کے بھرپور تقاضوں کے پیش نظر اپنے ہی گھر والوں سے پورا گھر خالی کرالیا اور ایسے ایسے شاندار عذر تراشے اور غیریقینی صورتحال کا حوالہ دیکر خدشات کی ایسی منظر کشی کی ،خوف وہراس میں مبتلا کیا کہ انہوں نے ٹیکسی منگانے میں قدرے تامل نہ کیا اور ازخود ہی یہ مجبوری بھی ظاہر کر دی کہ جب تک ’’دھرنے والے اسلام آباد سے چلے نہ جائیںپلیز ہمیں لینے نہ آنا‘‘۔
تازہ ترین