• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ دس دنوں کے دوران جو اعصاب شکن ماحول پیدا ہو چکا ہے اور جو انداز اور رویّے اختیار کئے جا رہے ہیں انہوں نے پوری دنیا کے اندر پاکستان اور اہل پاکستان کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ معاشی اور سیاسی صورتحال جس تنزلی کا شکار ہو رہی ہے اس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام آباد دھرنے میں بیٹھے ہوئے سیاسی قائدین کم از کم کسی اور کا نہیں تو اپنے ان کارکنوں کا ہی احساس کر لیں جو سخت گرمی اور حبس کے موسم میں عورتوں اور بچّوں کو ساتھ لئے اس کٹھن امتحان سے گزر رہے ہیں۔ جب ٹی وی اسکرینوں پر دھرنے میں موجود چھوٹی چھوٹی بچیوں، بچّوں، عورتوں اور بوڑھوں کے چہروں کو دیکھتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کیا یہ وطن عزیز پاکستان کے شہری نہیں ہیں اور کیا انسانیت کے ناتے ہمارے سیاسی اور مذہبی قائدین اس طرح کے اجتماعات میں عورتوں، بچّوں اور بوڑھوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ واپس چلے جائیں یا ہم اپنی سیاست کی خود غرضی میں اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں اس بات کا ادراک ختم ہو گیا ہے کہ اس شدید موسم میں ان لوگوں پر کیا بیت رہی ہو گی؟ اگر ہم عمران خان اور طاہر القادری کے مطالبات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ان مسائل کوحل پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے کیونکہ پاکستان میں ایک آئین اور دستور ہے اور اگر اس آئین اور دستور سے بالاتر ہو کر کوئی قدم اٹھایا جائے گا تو اس کے مضر اثرات ماضی کی طرح کئی سالوں تک اس قوم کو بھگتنے ہوں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں الیکشن میں مختلف انداز میں دھاندلی ہوتی ہے لیکن عمران خان کا یہ الزام کہ 2013ء کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر دھاندلی کی ہے، کے کوئی شواہد ابھی تک کسی مناسب فورم پر پیش نہیں کئے جا سکے ہیں۔ اب ان کا یہ مطالبہ کہ وزیراعظم مستعفی ہو جائیں اور نئے الیکشن کروائے جائیں کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں نے عمران خان کے اس مطالبے کو یکسر مسترد کیا ہے لیکن عمران خان بضد ہیں کہ وہ میاں نواز شریف کا استعفیٰ لئے بغیر اسلام آباد سے نہیں جائیں گے۔ جب کہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ کس بنیاد پر استعفیٰ دیں؟ انہوں نے سپریم کورٹ کا کمیشن قائم کر دیا ہے اور وہ کمیشن جو فیصلہ کرے گا وہ ان کے لئے قابل قبول ہو گا۔
دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری ہیں جو انقلاب کا نعرہ لے کر آئے ہیں اور پاکستان میں موروثی سیاست اور جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سیاست کے خاتمے کی بات کرتے ہیں لیکن جب ہم ان کے اردگرد ان ہی لوگوں کو دیکھتے ہیں جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک مختلف پارٹیوں میں روپ بدل بدل کر جاتے ہیں اور اقتدار کی کرسی پر فائز ہونے کے لئے وہ جمہوریت اور مارشل لاء کا امتیاز کئے بغیر اپنے مفادات کو اوّلیت دیتے ہیں تو طاہر القادری کے اس انقلاب کو سمجھنا ہر ذی عقل کیلئے سمجھ سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ طاہرالقادری کا ایک اور مطالبہ ان کے کارکنوں کے قتل کے حوالے سے ہے جس کو پورا کیا جانا چاہئے لیکن جب ہم طاہرالقادری کی طرف سے ایف آئی آر کے لئے دیئے گئے ناموں پر غور کرتے ہیں تو انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ماسوائے سیاست کے اس میں اور کچھ نظر نہیں آتا۔ ہم روز اوّل سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ایف آئی آر کا اندراج ہونا چاہئے اور ماڈل ٹائون سانحہ کے مجرموں کو گرفتار ہونا چاہئے لیکن کیا بے گناہ انسانوں کے خون پر سیاست کرنا اور اپنے مخالفین پر قتل جیسا گھنائونا الزام لگانا درست عمل ہے؟ اس پر قوم کو اور صاحب بصیرت لوگوں کو سوچنا چاہئے۔ اسلام آباد میں دیئے گئے دھرنوں کے حوالے سے ایک اور افسوسناک پہلو اس کا فرقہ وارانہ انداز میں دیکھا جانا اور مولانا فضل الرحمن کے بارے میں عمران خان کے متشددانہ بیانات ہیں جس سے ملک میں اشتعال کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی و مذہبی جماعت یا سیاسی و مذہبی کارکن مارشل لا کا نفاذ نہیں چاہتا لیکن اگر ہم صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح نظر آ رہی ہے کہ ایک طرف سیاسی قیادت ابھی تک ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے اور دوسری طرف اس کا ایک خوفناک پہلو فرقہ وارانہ تشدد کے انداز میں پیدا ہو رہا ہے جس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مختلف الخیال ذہن رکھنے والے لوگ رہتے ہیں، یہاں پر مختلف مکاتب فکر اور مختلف مسالک کے لوگ آپس میں مل جل کر رہ رہے ہیں اور گزشتہ چند دنوں کے دوران جو متشددانہ رویّے دیکھے گئے ہیں اگر ان پر قابو نہ پایا گیا اور ان کی اصلاح کی کوشش نہ کی گئی تو پھر بڑے افسوس اور دکھ سے یہ بات کہنی پڑے گی کہ آگ کا کوئی مسلک اور مذہب نہیں ہوتا اور آگ بغیر تفریق کے سب کو جلا دیتی ہے اور یہ مذہبی اور سیاسی قیادت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کو جو سب کا ہے اس آگ سے بچانے کے لئے کوشش کریں۔ سیاسی معاملات ہوں یا مذہبی ان کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ موجودہ جتھے بندی اور ضد وطن عزیز کو تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے جبکہ مفاہمت اور مذاکرات پاکستان اور پاکستانیوں کو ایک بہتر مستقبل کی طرف لے جانے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کا ایک آئین موجود ہے جو بہت محنت سے پاکستان کے اکابرین نے بنایا تھا، اگر اس آئین اور دستور سے بالاتر ہو کر کوئی قدم اٹھایا گیا تو تاریخ میں موجودہ مذہبی و سیاسی قائدین کیلئے کوئی اچھے الفاظ نہیں لکھے جائیں گے۔ سیاسی مطالبات کو سیاسی انداز میں حل کیا جانا چاہئے۔ سیاسی اور مذہبی معاملات کو تشدد کے ذریعے حل کرنے کی کوشش اسلامی، اخلاقی اور قانونی طور پر بھی درست نہیں ہے۔
تازہ ترین