• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں سیاسی افراتفری عروج پر تھی، بعض سیاستدانوں کی طرف سے وفاقی دارالحکومت کا محاصرہ کرلیا گیا تھا، جہاں سرکاری دفاتر میں اہم امور تعطل کا شکار ہوچکے تھے،کاروبار مملکت میں تسلسل ختم ہورہا تھا ٗ سول نافرمانی کی کال دے دی گئی تھی، بیرون ملک پاکستانیوں کو ہدایات دی جا رہی تھیں کہ بینکوں سے لین دین ختم کرکے غیرقانونی ذرائع سے رقوم پاکستان بھیجی جائیں، دوست ممالک کو انتباہ کیا جا رہا تھا کہ اگر موجودہ حالات میں حکمرانوں کو کسی بھی قسم کا قرضہ دیا تو اس کی ادائیگی نہیں کی جائےگی اور نہ ہی کسی سمجھوتے پر عملدرآمد کیا جائےگا،پارلیمنٹ میں زبردستی گھسنے اور سرکاری عمارتوں کو اپنی تحویل میں لئے جانے کی دھمکیاںدی جا رہی تھیں، معیشت کا پہیہ رک چکا تھا اور روزانہ احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کی وجہ سے اربوں روپےکے نقصانات کی خبریں منظر عام پر آرہی تھیں اسلام آباد میں سفارتی کمیونٹی خوف و ہراس کا شکار ہوکر اپنے گھروں اور دفاتر میں مقید ہوچکی تھی، غیرملکی سربراہان پاکستان کے دورے منسوخ کررہے تھےاورسفارتی سرگرمیاں معطل ہوچکی تھیں، سیاستدان اور حکمران جن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اصلاحِ احوال کے لئے اپنا کردار ادا کرتے... نظر آنے والی کوششوں کے باوجود وہ اپنے متقاضی کردار میں کامیاب اور سرخرو نہ ہوئے۔
عزیزہموطنو!ایسی صورتحال پیدا کرکے قومی ادارے کو مجبور کردیا گیا کہ وہ قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے لئے اپنا کردار آئین کی چھتری میں رہتے ہوئے ادا کرنے کی کوشش کرے تاہم اگر صورتحال کے پیش نظر اس حوالے سے تجاوز بھی کرنا پڑا تو اُس پر سوچا جائے گا...خدشات اورواقعات کے پیش نظر مفروضے پر مبنی یہ تصوراتی خطاب اللہ نہ کرے ٹھیک ہو۔ خدا نہ کرے کہ ایسی نوبت آئے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہےکہ دھرنوں کے قائدین با لخصوص عمران خان نے اپنے خطاب میں ایسے اقدامات کی کال دیکرحالات اورجوازپیداکردیئےہیں۔انکے یہ بیانات واقعی کسی کو جواز فراہم کرنے کے لئے ہیں یا صورتحال کو انتہا پر لے جاکر حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کے لئے؟ شاید اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ٗ لیکن عمران خان کی جانب سے ایمپائر کی انگلی اٹھنےکی باتیں اور ان کے ہم خیال شیخ رشید کا واضح الفاظ میں بار بار فوج کو دعوت دینا شبہات کو تقویت پہنچاتا ہے۔تاہم اسلام آباد کے بعض باخبر حلقے مفروضے کی بنیاد پر بھی اس تھیوری کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیںکہ ’’دھرناقائدین‘‘ نے ’’ اسکرپٹ رائٹر ‘‘کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ 10لاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع کرلیں گے جس پر ’’ اسکرپٹ رائٹر‘‘ کی جانب سے بھی یقین دہانی کرادی گئی تھی کہ ٹھیک ہے ۔اگر اسلام آباد میں دس لاکھ لوگ نہ سہی نصف بھی جمع کرلئے گئے تو حکومت کو رخصت کردیا جائے گا اوراقتدار ان کے حوالے کردیا جائے گا ۔لیکن لاکھوں تو دور کی بات تعداد 50ہزار تک بھی نہ پہنچی سکی جس پر عمران خان اپنے ’’ذاتی جہاز والے دوست‘‘ پرسخت برہم ہوئے جن کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ ’’جب نومن تیل ہی نہ ہوا تو پھر اقتدار کی رادھا کیسے ناچے‘‘ اس لئے اگر ا سکرپٹ میں تبدیلیاں ہورہی ہیں تو شاید یہ خبر غلط نہیں کیونکہ اس مرتبہ کچھ لوگ شیروانیاں نہیں بلکہ جدیدوضع قطع کے سوٹ سلوانے کے موڈ میں ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف جو باربار حیرت کااظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے توڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میںبے شمار ترقیاتی کاموں کی بنیاد رکھی۔انتہائی تیزی کے ساتھ ملک میں تعمیروترقی کے پنجسالہ منصوبوں پرعملی پیش رفت کاآغاز کیا،پوری برق رفتاری کے ساتھ عوام کی فلاح وبہبود کے کام شروع کئےپھر یہ اچانک کیاہوگیا،ان کے خلاف اتنی منظم منصوبہ بندی کے ساتھ اتنی مؤثر مہم کیسے شروع ہوگئی۔ ہوسکتا ہے کہ اب آہستہ آہستہ ان پریہ عُقدہ کھل رہا ہو،گتھیاں سلجھ رہی ہوں کہ یہ صرف اپنوں کاہی نہیں بلکہ اپنے دکھائی دینے والے بیگانوں کابھی کام ہے کہ ایوان میں دوتہائی اکثریت کے بوجھ تلے دبے وہ کسی سے شکوہ شکایت کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔
’’اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں ورنہ پارلیمنٹ ان کااحتساب کرے گی اور اگر پارلیمان نے احتساب نہ کیاتو پاکستان مصر کی طرح’’ التحریرسکوائر‘‘ بن جائے گا،عوام کاقانون حرکت میں آئے گااورپھر انہیں بچنے کاموقع بھی نہیں ملے گا‘‘۔ یہ ارشادات محترم شہباز شریف کے ہیں جوانہوں نے 28اکتوبر 2011ء کولاہورمیں سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف نکالی جانے والی ریلی کے شرکاء سے خطاب کے دوران کہے تھے۔یہی نہیں بلکہ انہوں نے سابق صدر سے عہدہ نہ چھوڑنے کی صورت میں لاہور کے بھاٹی چوک میں الٹالٹکانے کی بات بھی کی تھی اورپیٹ پھاڑ کرعوام کاپیسہ نکالنے کی بھی۔یہ بھی درست ہے کہ جس وقت یہ سطور تحریر کی جارہی تھیں اس وقت سابق صدرآصف علی زرداری اوروزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف دونوں ہی الگ الگ سرکاری مصروفیات کے حوالے سے چین میںموجودتھے۔اگران دونوں شخصیات کی ملاقات چین میں ہوئی بھی ہے تو اسے منظرعام پرآنے میں وقت لگے گا...اوریہ بھی ریکارڈ کاحصہ ہے کہ خود وزیراعظم صاحب سابق صدر کے بارے میںکیا خیالات رکھتے تھےاورکن جذبات کااظہار کرتے تھے لیکن پھر لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کو جو امریکہ، برطانیہ اوردبئی میں وہاں کی اہم شخصیات سے ملاقاتوں میں مصروف تھے درخواست کرکے پاکستان بلا لیا گیا... رائے ونڈ میں ظہرانے کی دعوت دی گئی اورہیلی پیڈ سے قیامگاہ تک وزیراعظم خودگاڑی ڈرائیو کرکے انہیں لائے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ صرف میاں نواز شریف ہی نہیں بلکہ آصف علی زرداری کاحافظہ بھی بہت تیز ہے۔ جس طرح ماضی میںمیاں نواز شریف بعض باتوں سے اپنی یادداشت تازہ کرتے رہتے تھے اسی طرح آصف علی زرداری بھی سینےمیں بہت کچھ دبائے بیٹھے ہیں۔ اسی لئے دانندگان راز کاتویہ بھی کہنا ہےکہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کوبند گلی میںداخل کرنے میں بعض دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ...پیپلزپارٹی کی’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ اور’’برادرانہ مشوروں‘‘ کابھی بڑا عمل دخل ہے اوراس بات کاگلہ شکوہ 25اگست کوپارلیمنٹ ہائوس میں قومی اسمبلی اورسینیٹ میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوںکے پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس میں مسلم لیگی ارکان نے کر ہی دیا... اور واشگاف الفاظ میں خورشید شاہ کی موجودگی میں کہا کہ حکومت کو اس مقام پر لانے میں پیپلز پارٹی کا بڑا کردار ہے وغیرہ وغیرہ اور خورشید شاہ یہ الزامات سن کر ’’زیرمونچھ‘‘ مسکراتے رہے۔ جب حالات زیادہ خراب نہیں ہوئے تھے اور بہتری کی گنجائش موجود تھی تو کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین وزیراعظم نوازشریف کی حمایت تو کررہے تھے۔ لیکن اگر مگر کے ساتھ حالات بگڑ گئے تو اب....
ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے آئے
گائوں کا چوہدری اپنے مخالف کو راستے سے ہٹانے کے لئے پہلے اس کے لئے بدترین حالات پیدا کرتا ہے، مقدموں میں الجھاتا ہے۔
جب مخالف پوری طرح بے بس ہوجاتا ہےتو پھر اسے زیر بار کرنے کے لئے بھاگتا دوڑتا اسکی مدد کے لئے آجاتا ہے، اسکی ضمانت بھی دیتا ہے اور اپنی واہ واہ بھی کراتا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اور وزیراعظم جن کی مصروفیات اور ترجیحات نے انہیں قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے دور رکھا اب چار دن تک مسلسل اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔ روزانہ قیاس آرائی ہوتی رہی۔ امکان ظاہر کیا جاتا رہا کہ وزیراعظم ایوان میں خطاب فرمائیں گے،تیاریاںمکمل ہوئیں،وفاقی دارالحکومت میں متعین غیر ملکی خبر رساں اداروں کے نمائندوں کو بھی مدعو کرلیا گیا۔ ایوان میں وزیراعظم کے ڈیسک پر مائیک نصب کرنے کے انتظامات بھی کئے جاتے رہے۔خدا خدا کرکے بدھ کو وزیراعظم نوازشریف نے ایوان میں آئے اور انہوں نے بھرپور انداز سے انتہائی پراعتماد لہجے میں خطاب کیا۔کم از کم ان کی جماعت کے ارکان اور کارکنوں میں ...اور شائد عوامی سطح پر بھی ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے لوگوں کیلئے ان کی یہ تقریر خاصی حوصلہ افزا تھی...یہ صورتحال اطمینان بخش ہے کہ کسی اور سے پہلے خود وزیراعظم نے تقریر کردی۔اور آخر میں دو خبریں... عمران خان کی نئی پیشکش جس پر آگے چل کر انہیں شدید ندامت کا سامنا ہوگا ۔ ایڈیشنل سیکرٹری (ریٹائرڈ) افضل خان نے اسلام آباد انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ انہیں بعض افراد کی جانب سے جان کا خطرہ ہے اس لئے انہیں سکیورٹی فراہم کی جائے ... دوسری خبر ہے کہ سندھ اور دوسرے شہروں کے بعد اب اسلام آباد میں بھی کالے بچھوئوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور گزشتہ ہفتے 60 گرام کا ایک بالوں والا بچھو 40 لاکھ روپے کا فروخت ہوا ہےجبکہ چھوٹے بچھو بھی اپنے وزن کے حساب سے لاکھوں اور ہزاروں روپے میں فروخت ہورہےہیں۔ واضح رہے کہ بعض غیر ملکی طبی محققین نے خاص قسم کے سانپوں اور کالے بچھوئوں کے تریاق سے کئی مہلک بیماریوں کا علاج دریافت کیا ہے چونکہ پاکستان میں مطلوبہ زہریلے بچھوئوں اور سانپوں کی بہتات ہے اس لئے ان کی خریدوفروخت عروج پر ہے اور بعض ’’سرمایہ کاروں‘‘ نے تو خاص قسم کے بچھوئوں کی خریداری کیلئے خطیر رقم مختص کی ہے۔
تازہ ترین