• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں بننے والے پاک بحریہ کے سب سے بڑے جنگی جہاز کو سمندر میں اتارنے کی تقریب کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں مضبوط جمہوری اور معاشی طور پر فعال و متحرک پاکستان کو اپنا وژن قرار دیتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کے دفاع، اسٹرٹیجک پالیسی اور ملکی استحکام پر کسی بھی قیمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔پاک چین اقتصادی راہداری کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے قوم کو یقین دلایا کہ اس سے پاکستان ہی نہیں پورے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ کراچی شپ یارڈ میں برادر مسلم ملک ترکی کے تعاون سے بنائے گئے 17 ہزار ٹن کے فلیٹ ٹینکر کی مقررہ وقت سے ووماہ پہلے تیاری کو یوم آزادی کا تحفہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کراچی سے گوادر تک مضبوط میری ٹائم سسٹم بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت تمام تکنیکی شعبوں میں خود انحصاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ گوادر کو مرکز بناکر علاقائی تجارت اور ٹرانس شپمنٹ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فوائد کے حصول کو حکومت کا عزم قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس کے نتیجے میں پورے علاقے میں ترقی کا نیا باب شروع ہوگا جس کے لیے ہمارے پاس باصلاحیت نوجوانوں کی شکل میں بہترین افرادی قوت موجود ہے۔پاکستان نیوی فلیٹ ٹینکر کو وزیر اعظم نے بجا طور پر پاک ترکی دوستی کی مستقل نشانی قرار دیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں میں جنگی جہازوں اور دیگر دفاعی سازوسامان کی تیاری میں تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی ۔نیول حکام کے مطابق 17ہزار ٹن کا وار شپ فلیٹ ٹینکر پاک بحریہ کی لاجسٹک ضروریات پوری کرنے میں مددگارثابت ہوگا جبکہ اس پر موجود ہیلی کاپٹروں کے ذریعے دشمن کے جہازوں اور آبدوزوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکے گا۔بلاشبہ ناقابل تسخیر ملکی دفاع ہماری قومی سلامتی کا لازمی تقاضا ہے۔ بھارت کی شکل میں پاکستان کو روز اول ہی سے ایسا پڑوسی ملا ہے جس نے اس کی وجود کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا ۔کشمیر یوں کو حق خود اختیاری دینے کا وعدہ پورا کرنے کے بجائے طاقت کے بل پر ان پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی پالیسی اختیار کرکے بھارت نے خطے میں مستقل طور پر جنگ کی فضا قائم کررکھی ہے۔سات دہائیوں سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ بھارتی حکمرانوں کی اسی سوچ کی وجہ سے جاری ہے۔ بھارتی ریشہ دوانیوں ہی کے سبب آج پاکستان کی مغربی سرحد بھی پوری طرح محفوظ نہیں۔ افغانستان میں بھارتی قونصل خانے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی تربیت گاہوں کا کام انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ چمن بارڈر پر گزشتہ روز افغان باشندوں کے ایک گروہ کی جانب سے فرینڈ شپ گیٹ پر حملہ اور پاکستانی پرچم کا جلایا جانا جس کے بعد پاکستانی حکام کی طرف سے پاک افغان سرحد غیر معینہ مدت کے لیے بند کردی گئی، اس تشویش ناک صورت حال کا تازہ ترین مظاہرہ ہے۔ان حالات میں پاکستان کے دفاع کو آخری حد تک مضبوط بنایا جانا ملک کی سا لمیت اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے لازمی ہے۔حکومت دفاع اور معیشت کی ترقی کے لیے جو اقدامات کررہی ہے، وہ یقیناًوقت کی ضرورت ہیں لیکن معاشی ترقی کے لیے حکومتی منصوبوں کے نتائج کو وسائل رکھنے والے طبقات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ عوام کی براہ راست فلاح و بہبود کا ذریعہ بننا چاہیے ۔ نیزیہ کہ کسی بھی قوم کی پائیدار ترقی کے لیے سب سے بنیادی ضرورت پورے ملک کے لیے قومی ضروریات کے مطابق یکساں نظام تعلیم کی تشکیل اور نفاذ ہے جس میں غریب اور امیر سب کے بچے صرف اہلیت کی بنیاد پر آگے جاسکیں۔ترکی میں رجب طیب اردوان کی جس حکومت نے ملک کو عشروں سے جاری انحطاط سے نکال کر خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا، اس نے تعلیم کواپنی اولین ترجیح بناکر ہی یہ نتائج حاصل کیے ہیں۔ ملائیشیا کو پسماندگی سے نجات دلا کر ترقی یافتہ ملکوں میں شامل کرنے والے مہاتیر محمد کی کامیابی کاراز بھی یہی ہے۔دفاع اور معیشت کی مضبوطی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اسی نسخے کو اپنا کر پائیدار ترقی اور استحکام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

.
تازہ ترین