• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انیس سو تہتر پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین سال تھا جب ملک کو ایک متفقہ دستور یا سپریم لا آف دی لینڈ ملا تھا۔ اس میں دائيں بائيں سینٹر کے منتخب نمائندوں سب ہی کے دستخط شامل تھے۔ وفاق پرست، مذہبی سیاست کار بھی، قوم پرست، مرکزیت پسند یا صوبائی خود مختاری کے سب سے بڑے چیمپئن بھی۔ اس وقت کی حزب اختلاف چاہے خان عبد الولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی یا نیپ ہو،یامولانا مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام،یاجماعت اسلامی جس کی اسمبلی میں نمائندگی پروفیسر غفور کررہے تھے۔ انیس سو تہتر کے آئین پر دستخط نہ کرنے والے فقط تین اراکان قومی اسمبلی تھے جنہوں نے بہرحال اختلاف کرتے ہوئے، جو کہ جمہوریت کا اپنا حسن ہوتا ہے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا اور اپنے دستخط نہیں کئے تھے وہ تھے تب نیپ کے بلوچ رہنما خیر بخش مری، پاکستان پیپلزپارٹی کے باغی رکن احمدرضا قصوری اور میرعلی احمد تالپور، تب آنیوالے دنوں میں ان اراکان کو بھٹو اور ان کی پالیسوں سے اختلاف اور بغاوت پر بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی تھی۔ میں خود پاکستان کے آئین کا کوئی بڑا مداح نہیں رہا کہ وہ ایک غیر سیکولر،اقلیتوں کے کئی حقوق کے ضمانت محدود یا نہ دینے والی دستاویز ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے تک صوبائی خودمختاری بھی محدود بتائی گئی تھی۔ لیکن صوبوں کے حدود اربع کا تعین ان کے مابین وسائل و ترقی کی تقسیم کی ضمانت ضرورموجود تھی۔ یہ اور بات تھی کہ جب سابقہ مشرقی پاکستان بڑا صوبہ تھا تو اس پر پیئرٹی نافذ کی گئی تھی۔ جمہوری طریقوں سے اس آئين میں ترامیم کرنے کی بڑی گنجائش موجود ہے لیکن اس کا واحد فورم شاہراہ دستور پر پارلیمان ہائوس ہے نہ کہ شاہراہ دستور اور پاکستان کی سڑکیں اور سڑک چھاپ خود ساختہ قائدین ۔ اسی سڑک پر آویزاں بورڈ ’’شاہراہ دستور‘‘ پر لکھا ہے ’’یہ شارع عام نہیں‘‘ لیکن ابھی جمہوریت جو واقعی اس ملک میں پہلے ہی غریب کی ایک کچی دیواررہی ہے اسی پر شاہراہ دستور کی جو درگت بنائی گئی ہے اس پر وہی شعر صادق آتا ہے۔
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے اس کو گھر کا رستہ بنادیا
ملک میں دہشت گردی جو کہ سب جانتے ہیں کس کی دین ہے کی وجہ سے شاہراہ دستور ریڈ زون ایریا میں شامل تو کردی گئی لیکن اصلی تے وڈے چوہدریوں نے اسے اپنے خاص الخاص لیڈروں کے ذریعے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ بنایا ہوا ہے۔ یہ ٹوپی ڈرامہ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ ملک کی سپریم کورٹ کی آہنی ریلنگ پر کپڑے سوکھ رہے ہیں۔ سرکاری ٹیلیویژن پر قبضے کا ڈرامہ بھی ہوا۔ نہ علامہ طاہر القادری نہ لینن ہیں نہ اسلام آباد پیٹرس برگ ہے جس میں زار کا محل ہے۔ نہ یہ ہزاروں بلوائی روسی پرولتاریہ۔ مگر پھربھی ان کے بلوائی کارکنوں نے اسلام آباد کا وہی حال کرنا ہے جو لینن کے پرولتاریوں نے زار کے محل کا کیا تھا۔ وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو پی پی پی کی حکومت میں اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل کی کافی شاپوں میں سندھیوں کو دیکھ کر بھنویں چڑہاتے تھے۔ غریب سندھی جو پاکستان میں جمہوریت کے بعد گیارہ سالہ ملک میں بحالیٔ آمریت بحالی کے رہنمایانہ کردار تھے۔ لیکن سندھی حکمرانوں نے کیا کیا؟ انکے چمچوں نے وی آئی پی لائونجز میں الٹیاں کیں۔ سندھ میں ہر شعبے اور خاص طور تعلیم کے شعبے میںبھی تباہی کی۔ لیکن سندھ پی پی پی کا موجودہ بحران میں کردار قابل تعریف ہے۔ بلکہ سندھ پی پی پی اور پنجاب پی پی پی فرق صاف ظاہر ہے۔
پی پی پی کے سید خورشید شاہ جنہوں نے پی پی پی کے گزشتہ تینوں ادوار حکومت میں بہتی گنگا سے اتنے لعل و جواہر مال و زر ڈھویا ہے کہ ان کی سات کیا سترہ نسلیں بیٹھ کر عیش کرسکتی ہیں اسمبلی میں جمہوریت کے حق میں جوش خطابت میں کہہ گئے کہ وہ اسلام آباد کی ہرعمارت کو آگ لگا سکتے ہیں لیکن آئین کو نہیں ۔ ان کے اسی جملے کی پہلی بات یقیناً قابل تعریف مگر آخری مضحکہ خيز لگی۔
خیر تو انیس سو تہتر کی آئین پر متفقہ طور پر سبھی اراکین پارلیمان کے دستخط حاصل کرنا واقعی جوئے شیر لانا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیپ کے بلوچ اور پٹھان ارکان کے دستخط کروانے پر ان کو رضامند کرنے کو ذو الفقار علی بھٹو نے سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی خدمات حاصل کرنے کو ان سے ملاقات کی۔غوث بخش بزنجو، ولی خان، عبدالحئی بلوچ ،حمزہ خان سمیت کئی نیپ اراکین نے تہتر کے آئین پر دستخط کئے۔
آئین پر دستخط کرنے والے نیپ کے اراکین کے خلاف ان کے ساتھیوں نے کوئٹہ نیپ کنونشن میں احتجاج کیا تو کئی نے انکے خلاف پمفلٹ بانٹے تھے۔
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ بلوچ لیڈر اور سیاستدان جمہوریت اور جمہوری یا انتخابی عمل کو نہیں مانتے انکے لئے اطلاعاً عرض ہے وہ کوئی رات بیچ میں سسٹم سے آزردہ نہیں ہوئے ۔ ملک کو خدا حافظ سے اللہ حافظ میں بدلنے اور کہنے میں کئی سال اور پروسیس لگا ہے۔ وگرنہ انیس سو ستر کے انتخابات میں تین اراکان قومی اسمبلی تب نو بحال کئے صوبے بلوچستان سے منتخب ہوکر آئے تھے جن میں تمام ملک میں سب سے زیادہ ووٹوں کی تعداد لیکر آنیوالے خیر بخش مری،خان آف قلات کے بیٹے کو شکست دینے والے غریب متوسط طبقے کے عبدالحی بلوچ اور خیر بخش مری کی خوشدامن جنیفر موسیٰ شامل تھیں۔ پھر کیا ہوا کہ جناح صاحب کے سب سے بڑے مداح اور وفاق پسند بلوچ سیاستدان نواب اکبر بگٹی کے ساتھ جو بلوانوں اور ملک کے سب سے بڑے اور وڈے چوہدریوں نے کیا وہ موجودہ بحران کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تصور کریں کہ اسلام آباد کی ریڈ زون میں سندھی یا بلوچ قوم پرست پر امن احتجاج کا بھی کبھی سوچ سکتے ہیں؟ اور بلوچستان میں تو آزادی اور انقلاب کی بات کرنے والوں کو ان کی کاروں سمیت زندہ جلادیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی تصور کریں کہ اگر آج ملک میں یہ ریفرنڈم کرایا جائے کہ کون ریاست یا وفاق کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ سندھ اور بلوچستان کا فیصلہ باقیماندہ پاکستان سے مختلف نہ ہو۔
یہ اور بات ہے کہ متفقہ آئین کی ابھی سیاہی بمشکل خشک ہونے پائی تھی کہ ذو الفقار علی بھٹو کے اسپیکر نے انکی گسٹاپو فیڈرل سیکورٹی فورس کے ذریعے حزب اختلاف کے اراکین کو اسمبلی ہال سے باہر اٹھوا کر پھنکوا دیا تھا۔
اسی آئین کے خلاف نئوں آئین نہ کھپے کی تحریک جئے سندھ کے نوجوانوں نے چلائی ۔ سندھ یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن کے موقعے پر آئین پر احتجاج کرنے والے جئے سندھ کے نوجوانوں اور آئین تہتر کے ایک مصنف مانے جانے والے حفیظ پیرزادہ جو اس وقت وفاقی وزیر قانون تھےکے درمیان تلخ کلامی کے بعد جئے سندھ کے نوجوان اسماعیل وسان نے پیرزادہ کو تھپڑ ماردیا جس کے بعد ہونیوالا ریاستی تشدد جس کے اثرات کئی سال سندھ کی سیاست اور تعلیم پر رہے باقی ایک تاریخ ہے۔
لیکن اصل تھپڑ تو اس ملک کو فوجی آمر ضیاء الحق نے آکر مارا جس نے کہا ’’آئين کیا ہے بس کاغذ کا ٹکڑا جسے جب چاہے پھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے کیونکہ اصل طاقت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے پاس ہے۔ ‘‘پھر آپ نے دیکھا کہ فوجی آمر نے آئین کی اصلی شکل بگاڑ دی۔ آج کے پارلیمان میں کتنے ہیں کہ جنھوں نے یا جن کے بزرگوں نے ضیاءالحق کی آٹھویں ترمیم کے بل پر دستخط کئے۔ پھر آمریت در آمریت ایل ایف او تک فوجی یعنی فوجی آمر پرویز مشرف تک پھر وہ عمران خان تھے کہ طاہرالقادری آمرکے دھاندلی شدہ غیر جماعتی پارلیمان کا حصہ رہے۔ لیکن آمریتوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ آئین کی کتنی ہی شکل بگاڑلیں لیکن اس کے آرٹیکل چھ اور چھ الف سے جان نہ چھڑا سکے۔ وہ پھانسی کے پھندے کی طرح ان کو خوابوں میں بھی دکھتا اور پریشان کرتا ہوگا۔
نواز شریف کی حکومت کا پہلا دن ہی تب سے گنا جائے گا جب انہوں نے فوجی آمر کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ اور چھ الف کے تحت کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہی وہ ان کی حکومت کا آخری دن بھی بنانا چاہتے ہیں۔ وہ جو صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں پر چلمن کو شاہراہ دستور بنا رکھا ہے اس آئین سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ وہ آئین کے جس کے تحت منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والے تختہ دار تک پہنچ سکتے ہیں اور جس کے تحت بقول سندھ کے معروف قانون دان کے نہ مزید صوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ اسی لئے وہ تہتر کے آئین سے فرار چاہتے ہیں۔ پارلیمان کو نازی جرمنی کے دنوں میں ریشتاغ پارلیمان کی طرح آگ لگانا چاہتے ہیں۔ اب وہ فیصلہ تاریخ کر چکی ہے کہ باغی یہ پردے سے باہر اور پردہ نشیں ہیں کہ جن کی تصاویر حرام ہیں یا کہ ہر دور کے ایک بہادر آدمی جاوید ہاشمی جیسے لوگ۔
میاں صاحب کو نہ ڈکٹیشن لینی چاہئے اور نہ ہی استعفیٰ دینا چاہئےبلکہ وہ ملک اور پنجاب کی ایک نئی تاریخ لکھنے جارہے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو۔ ملک کی تمام کی تمام سیاسی قوتیں پارلیمان کے اندر پارلیمان کے باہر ان کے ساتھ ہیں۔
تازہ ترین