• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل تو باتوں کا موسم ہے۔ہر شخص باتیں کر رہا ہے۔ ادھر چندروز ہوئے باتوں باتوں میں کسی ہم نشیں نے ایک ایسے ملک کا ذکر کیا کہ گویا اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے۔اور و ہ ملک،ہائے وہ ملک، وہ دنیا زمانے سے نرالا اور انوکھا ملک کہ نام ہے جس کا سوئٹزرلینڈ۔ کیسا عجوبہ ہے جسے کچھ تو قدرت نے اپنے ہاتھ سے تراشا ہے اور جو کسر رہ گئی تھی اسے انسان نے اپنے ذہن سے سنوار کر پورا کیا ہے۔ فردوس اگر روئے زمیں پر ہوتی تو یوں ہوتی۔ کیا پہاڑ، کیا وادیاں، کیا پھولوں کے جھنڈ، کیا چشمے، کیا جھرنے اور کیا جھیلیں جو نیلگوں آسمان کو ویسا ہی نیلا آئینہ دکھا رہی ہیں اور اس کے کنارے ہوا میں ڈولتے نیلے پیلے اودے اور گلابی پھول اس کی سطح کو یوں چھو رہے ہیں جیسے اس کے نرم و نازک تلووں کو سہلا نے کے بعد سر اٹھا کر دیکھ رہے ہوں کہ شہزادی کو ہنسی آئی کہ نہیں۔
باتو ں باتوں میں کسی نے سوئٹزرلینڈ کا نام لیا تو میرے ذہن نے یادوں کی کتاب کے پرانے ورق الٹ الٹ کر میرا دل شاد کردیا۔ سوئٹزرلینڈ کی ایک عجب بات یہ ہے کہ اسے دیکھ کر روح جتنی سرشار ہوتی ہے ، اسے سوچ کر بھی دل و دماغ میں اتنی ہی جولانی بھر جاتی ہے۔ میں اس معاملے میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے دو مرتبہ وہاں جانے کا موقع ملا۔ پہلی بار تو جب میں صحافت کا ایک کورس کرنے برطانیہ گیا تو ایک روز ترنگ آئی اور سوئس حکومت کوخط لکھ ڈالا کہ واپسی میں رک کر آپ کا ملک دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں تو لکھ لکھا کر بھول بھی گیا کہ ایک روز نہایت عمدہ لفافے میں اتنا ہی نفیس جواب آیا کہ شوق سے آئیے ، آپ ہمارے مہمان ہوں گے۔اس بات کو پچاس برس ہوا چاہتے ہیں۔ میں جنیوا کے ہوائی اڈے پر اترا جہاں ایک نوجوان میرا انتظار کر رہا تھا۔ بس، اس کے بعد میں جتنے روز بھی وہاں ٹھہرا ، ہر مقام پر کوئی نوجوان آتا اور میرا ہاتھ تھام لیتا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ حسین وادیاں اور ان کے اندر آباد چھوٹی چھوٹی بستیاں۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا ،رنگین تصویروں میں یہی جھیلوں کے دور والے کناروں پر آباد قصبے اور پانی کی سطح پر ان کا سایہ ہی دیکھا تھا، کہیں لہروں پر ڈولتا ہوا اور کہیں ساکت اور منجمد سایہ۔ میں نے چھوٹے بچّوں کی طرح مچل کر کہا کہ وہ پہاڑی ڈھلانوں پر بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکان اور ان کی کھڑکیوں میں لٹکتی ہوئی بیلیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میری بات سن کر ہر نوجوان ہنسا اور بولا کہ ہر شخص بڑے شہر ،بڑی عمارتیں اور بڑے بازار دیکھنا چاہتا ہے، تم انوکھے مہمان ہو لیکن سچ پوچھو تو تم ہمارے ملک کے حسن کے سچے قدر دان ہو۔ بس اس کے بعد یوں لگا کہ انہوں نے پورا ملک میرے لئے کھول کر کہا کہ یہ سب آپ کا ہے ، جہاں چاہیں چلے جائیے۔ یہی ہوا۔ میں چھوٹے چھوٹے قصبوں میں گھومتا پھرا۔ اب میں آتا ہوں اپنی اصل بات کی طرف۔ میں ایک قصبے میں اترا جہاں پہاڑی پر بنا ہوا نفیس ہوٹل تھا جس کی سیڑھیاں اتر کر نیچے جھیل تک جاتی تھیں اور ساری آبادی اسی جھیل کے کنارے تھی۔ اگلی صبح میں نہا دھوکر اترا اور بستی میں گیا۔ بستی تو موجود تھی لیکن آبادی لا پتہ تھی۔ سڑکوں پر صفائی کرنے والا عملہ نظر آیا جو پہلے ہی سے صاف ستھری پڑی ہوئی سڑکوں پر یوں صفائی کر رہا تھا جیسے انہیں چمکانے کی کوشش کر رہا ہو۔ میں نے ان میں سے ایک خاکروب سے پوچھا کہ قصبے کے لوگ کہاں گئے۔ میرا خیال تھا کہ جاروب کش میری انگریزی کیا خاک سمجھے گا۔ مگر میں اس وقت سہم کر رہ گیا جب اس نے کسی انگریز پروفیسر کے انداز میں پہلے ’گُڈ مارننگ ، سر ‘ کہہ کر احساس دلایا کہ یہ کلمات پہلے مجھے کہنے چاہئیں تھے اور پھر اتنی ہی رواں انگریز ی میں بتایا کہ اس وقت قصبے کی پارلیمان کا اجلاس ہو رہا ہے، ساری آبادی وہاں بحث میں حصہ لینے گئی ہے کیونکہ انہیں کوئی نیا قانون منظور کرنا ہے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ اب کیا کہوں، میرے منہ سے یہ توصیفی کلمات نکلے کہ آپ بہت اچھی انگریزی بولتے ہیں۔ کہنے لگا کہ میں برطانیہ میں ریاضی کا استاد رہ چکا ہوں اس کے علاوہ آپ کو ابھی اندازہ نہیں کہ جس ملک میں آپ کھڑے ہیں اس کی سرحدیں پانچ ملکوں سے ملتی ہیں اور یہاں اکثر لوگ پانچ زبانیں بول سکتے ہیں۔ پھر وہ بولا کہ آئیے آپ کو کافی پلاؤں۔ میں نے کہا کہ یہاں تو اس وقت سارے کاروبار بند ہیں، کافی کہاں ملے گی۔ کہنے لگا کہ ایسی خود کار مشینیں بن گئی ہیں کہ ان میں سکّہ ڈالئے اور اپنی مرضی کا مشروب نکال لیجئے۔ہم ایک خالی پڑے ہوئے کیفے میں گئے۔ مشین سے کافی کے دو پیالے نکالے اور ایک بڑی کھڑکی کے قریب بیٹھ گئے تاکہ سامنے والی جھیل سے اٹھنے والے بادلوں کا نظارہ کرتے رہیں ۔
اس کے بعد جو کچھ میں نے سنا، میرے کانوں کو آج تک اس پر یقین نہیں۔ ریاضی کے سابق استاد کا نام مجھے یادنہیں۔ فرض کیجئے اس کانام ڈیوڈ تھا۔ اس کی بھوری بھوری گھنی مونچھوں پر لگے ہو ئے کافی کا جھاگ پونچھنے کے لئے میں نے اسے ٹشو پیپر پیش کیا جسے لے کر اس نے مجھے محظوظ کرنے کے لئے پانچ زبانوں میں شکریہ کہااور پھر حیران ہو کر بولا کہ تم نے ابھی تک اس قصبے کی پارلیمان کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔ میں نے حیران ہو کر کہا کہ قصبے کی پارلیمان؟ ڈیوڈ بولا کہ تم نے جمہوریت کا ذکر بہت سنا ہوگا، کبھی یہ بھی سنا ہے کہ جمہوریت دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک بالواسطہ جمہوریت ہو تی ہے جس میں لوگ اپنے نمائندے چنتے ہیں اور ملک کا نظام وہی نمائندے چلاتے ہیں۔ ایک بلا واسطہ جمہوریت بھی ہوتی ہے جس میں ملک کا ہر باشندہ پارلیمان کا نمائندہ ہوتا ہے، وہ ملک کے ہر قانون کو للکار سکتا ہے یہاں تک کہ ملک گیر آئین میں جب چاہے ردو بدل کا معاملہ اٹھا سکتا ہے۔ میرے چہرے پر حیرت کی لہر دوڑ گئی ہوگی جو ڈیوڈ مسکرایا۔ میں نے کہا کہ کیا دیکھ رہے ہو میرے چہرے پر۔ کہنے لگا کہ اس بار تمہاری مونچھوں پر کافی کا جھاگ لگا ہے۔بس پھر اس کے اندر کا استاد جاگ اٹھا اور اس نے بڑی مہارت سے دس منٹ میں سوئٹزرلینڈ کی جمہوریت کا سبق پڑھا دیا۔کہنے لگا کہ اس ملک میں تمہاری طرح دو چار نہیں، چھبیس صوبے ہیں جوکینٹن کہلاتے ہیں، یہ کینٹن مرکز کے بنائے ہوئے قانون کو للکار سکتے ہیں، قانونی پیچیدگیوں پر پچاس ہزار کے دستخط کراکے ریفرنڈم کرا سکتے ہیں اور ایک لاکھ لوگوں کے دستخط حاصل ہو جائیں تو آئین میں تبدیلی کراسکتے ہیں۔ یوں بھی روزمرہ کے معاملوں پر سال میں چار بار تو ووٹنگ ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دس برسوں میں اکتیس مرتبہ ووٹنگ ہوئی کیونکہ عوام نے ایک سو تین سوال اٹھائے تھے۔ قصہ سنگین ہو تو ساٹھ فی صد تک آبادی ووٹ ڈالتی ہے۔ اب تو خیر ڈاک سے بھی ووٹ ڈالنے کی سہولت ہے۔ اس پر میں نے ڈیوڈ سے کہا کہ شاید اسی لئے تم مقامی اسمبلی میں نہیں گئے اور کام پر آگئے ہو۔ کہنے لگا کہ خود ہاتھ اٹھا کر ووٹ دے آیا ہوں۔ شہر کی صفائی بھی ضروری ہے۔(اسے نصف ایمان کی خبر نہیں تھی)۔ میں حیران ہوا کہ اس نے ہاتھ اٹھا کر ووٹ دیا۔ کہنے لگا کہ پرچی بھی ڈال سکتے ہیں اور اپنا ووٹ لیٹر بکس میں ڈالنا تو بہت آسان ہے۔ میں نے کہا کہ اس میں تو دھاندلی بھی ہوتی ہوگی۔ بولا’’کیا؟ میں سمجھا نہیں‘‘۔ میں نے کہا’’کچھ نہیں۔ جانے دو‘‘۔ بتانے لگا کہ سارے ووٹ ہاتھ سے گنے جاتے ہیں البتہ کہیں کہیں تو حق میں یا مخالفت میں آنے والی پرچیاں اس ترازو میں تولی جاتی ہیں جس میں سونے کا وزن کیا جاتا ہے۔ یہ کام پانچ چھ گھنٹے میں ہوجاتا ہے۔
ہم رخصت ہونے لگے۔ڈیوڈ بولا کہ کسی سوئس بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھول جاؤ۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ تمہارے پاس کتنی دولت ہے۔ میں نے ہنس کر کہا’’ ڈیوڈ تم شریر بھی ہو۔ ہمارے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، بُری بات‘‘۔ وہ بھی ہنسا اور اپنا جھاڑو نما بڑا سا برش اُٹھا کر کام پر چلا گیا۔
پھر کیا ہوا۔ ابھی دو برس ہوئے ہمارے لندن کے ایک سودس دوستوں نے سوئٹزرلینڈ کی سیر کو جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم لوگ دو کوچوں میں بھر کر گئے اور ایک پُر فضا علاقے کا ایک خاصا بڑا ہوٹل ہمارے آنے سے بھر گیا۔ ہوٹل والے تو ہمارے لئے حلال گوشت کی تلا ش میں نکل گئے اور ہم علاقے کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے۔ ہمارے ڈرائیور ہمیں جس شہر میں لے گئے اس کا نام انٹر لاکن تھا۔ شہر دنیا بھر کے سیاحوں اور ملک کے بڑے بینکوں سے بھرا ہوا تھا۔ اپنی طرف کے صاحبِ حیثیت کنبے بازاروں میں ٹہل رہے تھے۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ان سب نے سیرسپاٹے کے لئے اسی شہر کو کیوں چنا ہے کہ ہمارے ایک ساتھی کا دس بارہ سال کا بیٹا اپنے باپ سے بولا۔’ بابا۔ میرا خیال ہے ہم ان بینکوں کو لوٹ سکتے ہیں‘ ۔ اس کی بات سن کر ہم سب چونکے۔ بابا نے کہا ’ کیوں بیٹے، کیوں لوٹ سکتے ہیں؟ ‘ جواب ملا۔’ اس لئے بابا کہ ان میں رکھی ہوئی ساری دولت اصل میں ہماری ہے‘۔
ہم سب چپ ہو گئے۔ یوں کہ کہیں کوئی سن نہ لے۔
تازہ ترین