• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
14اگست 1947ء کی رات قیام پاکستان کے بعد ہماری تاریخ کا اگلا نمایاں سنگ میل 1965ء کی جنگ ہے‘ جس میں ہماری فوج نے غیرمعمولی شجاعت‘ مہارت اور تیز رفتاری کے ساتھ تین گنا بڑے دشمن کی طرف سے اچانک مارے جانے والے شب خون کا پامردی سے مقابلہ کیا کہ اسے رسوا ہو کر ہماری سرحدوں سے پسپا ہونا پڑا۔ جنگ کے ہنگام میں عوام کی شرکت اس قدر پرجوش اور والہانہ تھی جوں وہ فتح کا جشن منانے نکلے ہوں۔ اس جنگ کی نمایاں یادوں میں ایک ’’بی آر بی‘‘ نہر پر پاکستانی فوج کی ایک چھوٹی سے ٹکڑی کا انڈیا کی ڈویژن بھر فوج کا بڑی کامیابی سے راہ روکے رکھنے کا غیرمعمولی واقعہ بھی ہے۔ اس دفاعی دستے کی قیادت پاک فوج کے میجر عزیز بھٹی شہید کر رہے تھے‘ جنہوں نے 6 سے 12ستمبر تک آنکھ جھپکے بغیر اپنا فرض یوں نبھایا کہ دشمن کے ٹینک کا گولہ لگنے سے شہید ہوئے اورساتھ ہی دشمن کی پسپائی اور شکست کا باب تحریر کرگئے۔ عزیز بھٹی دہرے اعزاز کے ساتھ پاک فوج کا حصہ بنے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اعزازی شمشیر کے ساتھ شامل ہوئے‘ دوسرا اعزاز یہ حاصل ہوا کہ اعزازی شمشیر انہیں قائد ملت لیاقت علی خان کے ہاتھوں عطا کی گئی تھی۔ عزیز بھٹی بہادری‘ دلیری‘ جفاکشی اور مہارت کے ساتھ کامیاب دفاع کرتے ہوئے وطن سے محبت اور وفاداری نبھاتے ہوئے شہید ہو کر رخصت ہوئے توبھی سب سے بڑا تمغہ ’’نشان حیدر‘‘ سینے پر سجا رکھا تھا اور مرتبہ شہادت کی رفاقت بھی میسر تھی۔
کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے‘ لیکن یوں ہر قدم‘ نقش بہ نقش دہرانے کی دوسری کوئی مثال تاریخ میں مذکور نہیں‘ جس طرح پاکستان میں دہرائی گئی ۔تھوڑی سے مدت اور ایک ہی خاندان میں، میجر محمد شریف کے بیٹے‘ میجر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر ) کے بھانجے شبیر شریف گورنمنٹ کالج لاہور سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کرپاک فوج میں شمولیت کیلئے مقابلے کے امتحان میں شامل ہوئے اور انہیں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت کیلئے طلب کر لیا گیا۔ فوجی تعلیم کے امتحانوں‘ تربیت اور جسمانی قوت و مشقت کے کڑے اور جان لیوا مقابلوں کے بعد اپنے ماموں عزیز بھٹی کی طرح شبیر شریف بھی اعزازی تلوار کے مستحق قرا ر پائے۔ اس طرح یہ نوجوان فوج میں شمولیت کا اعلیٰ ترین اعزاز اپنے پہلو میں لئے پاک فوج میں بطور ’’سیکنڈ لیفٹیننٹ‘‘ شامل ہو گیا۔ 1965ء کی جنگ کے چھ سال بعد روایتی دشمن بھارت کی طرف سے پاکستان پر جنگ مسلط کر دی گئی‘ تب تک شبیر شریف میجر کے عہدے پر پہنچ چکے تھے اور انہیں اوکاڑہ کے قریب محاذ جنگ پر بھیج دیا گیا۔ ان دنوں احسن رشید(شوکت خانم اسپتال کے بور ڈآف گورنرز کے رکن اور تحریک انصاف کے بانی رہنما) پی ایس او کراچی میں ہوا کرتے تھے‘ انہیں اوکاڑہ سے اپنے جگری دوست ‘ ہم مکتب و ہم جماعت میجر شبیر کا خط ملا ‘ اس میں لکھا تھا کہ عنقریب میں دفاع وطن کے فر ض میں شہید ہوجائوں گا‘ میری درخواست ہے کہ آپ میرے اہل خاندان کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ مجھے گجرات اپنے گائوں میں دفن کرنے کی بجائے‘ لاہور میانی صاحب کے قبرستان میں اس جگہ دفن کریں جس کی نشاندہی پہلے ہی کر چکا ہوں۔ ان کے دل میں شہادت کی تمنا اتنی شدید تھی کہ اس خواہش کی شدت اور ارتکاز نے ان کی مافوق العادت صلاحیت کو جگا دیا جس کی وجہ سے کوئی شخص (بعض اوقات) اپنی امید و آرزو کے مستقبل کو نمایاں دیکھ سکتا ہے۔ مذکورہ خط ان کی اس صلاحیت پر واضح دلیل ثابت ہوا
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
مگر یہاں پر شہادت کی خواہش‘ دوستی میں محبت کی ایک افسانوی اور لازوال داستان بھی ہے۔ میجر شبیر شریف کے ایک عزیز دوست کسی دکھ کی شدت اور مصیبت کے بوجھ کو سہار نہ سکے اور خودکشی کرکے اپنے غم سے نجات پاگئے۔ شبیر کو اپنے دوست سے بڑی محبت تھی‘ اس کے غیرمتوقع انجام کا غم نوجوان فوجی افسر کے دل کا گھائو بن گیا۔ ابن شریف کو پورا علم تھا کہ خودکشی حرام ہے اور اللہ سے ناامیدی کو کفر مانا گیا ہے اس لئے خودکشی کرنے والے کی آخری زندگی زیادہ المناک اور پرورد ہوگی‘ جواں سال شبیر کو دوست کا انجام بے چین رکھتا ہے۔ کسی صوفی یا عالم نے شبیر سے کہا کہ اگر خودکشی کرنے والے کی قبرکے ساتھ کوئی شہید دفن ہو جائے تو شہید کی قبر پر اللہ کی جو رحمت و مغفرت اترتی ہے اس کی برکت سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ہمسایہ قبر کے مکین کو بھی پار لگا دے گی۔ اس بات نے دوست کیلئے دوست کے دل کو شہادت کی تمنائوں سے بھر دیا جو آخرکار پوری ہوئی اور میجر شبیر شہید ہو کر اپنی وصیت کے مطابق مرحوم دوست کے پہلو میں آسودہ ہو گیا۔ صرف چھ سال کے عرصے میں ایک دفعہ پھر اس خاندان کے جری سپوت نے فوج میں اپنا سفر اعزازی شمشیر سے شروع کر کے شہادت کے بعد سینے پر نشان حیدر کے تمغے پر تمام کیا۔ یہ نوجوان پاک فوج کا واحد افسر ہے جس نے اعزازی شمشیر کے ساتھ بہادری کے دونوں اعلیٰ ترین اعزاز ’’ستارہ جرأت‘‘ اور ’’نشان حیدر‘‘ حاصل کئے۔ عزیز بھٹی اور شبیر شریف دونوں کے بارے میں ان کے فوجی رفقاء‘ ٹریننگ دینے والے اساتذہ اور قیادت کرنے والے افسروں کا اتفاق تھا کہ یہ فوج میں رہتے ہوئے ضرور ہی اعلیٰ ترین منصب تک رسائی پا جائیں گے لیکن دونوں تا دیر انتظار نہیں کرسکے اور عین جوانی میں فوج کی سپہ سالاری کے منصب سے بھی بہت بڑے‘ اعلیٰ اور کبھی نہ ختم ہونے والے مقام پر براجمان ہو گئے مگر جاتے ہوئے اپنا وارث چھوڑ گئے جو ان کے دوستوں اور استادوں کی خواہش اور پیش گوئی کے مطابق فوج کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچ سکے۔ 28 نومبر 2013ء کو پاکستان کی فوج کی قیادت سنبھالنے والے جنرل راحیل شریف انہی شہیدوں کے وارث ہیں۔ میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے اور میجر شبیر شریف شہید کے چھوٹے بھائی‘ وہ بجا طور دعویٰ کر سکتے ہیں کہ
سو برس سے ہے پیشہ آباء سپاہ گری!
جنرل کیانی کے جانشین کا مسئلہ درپیش ہوا تو نواز شریف نے علاوہ اپنے سیاسی رفقاء کے احسن رشید سے جنرل راحیل شریف کے بارے میں پوچھا تھا‘ احسن رشید نے کہا‘ راحیل میرے چھوٹے بھائیوں کی طر ح ہے‘ اس کے بارے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک پیشہ ور فوجی افسر ہے‘ جس کو اپنے خاندان کی طرح سیاست سے کچھ غرض نہیں۔ وہ نہایت دیانت دار، قناعت پسند مگر فوج کے پیشہ ورانہ امور میں ماہر، دلیر اور مرد میدان‘ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں سستی نہ ہچکچاہٹ، اگر اسے قیادت کی ذمہ داری سونپ دی گئی تو آپ اسے ہمیشہ اپنی سپاہ کے درمیان‘ جنگ کے میدان میں ہر وقت موجود پائو گے۔ یہ بات پتھر کی لکیر ہے کہ اگر راحیل شریف فوج کا سربراہ ہوا تو وہ دہشت گردوں کے خلاف قدم ضرور اٹھائے گا‘ حکومت چاہے یا نہ چاہے‘ وہ اپنے ماموں عزیز بھٹی اور بھائی شبیر شہید کو ’’آئیڈلائیز‘‘ کرتا ہے‘ دنیاوی معاملات میں اس کو الگ رکھے گا لیکن فوج کے مسئلے میں حساس اور صاحب عمل ہے۔ احسن رشید کی زبانی جو سنا وہ اپنے لفظوں میں لکھ دیا۔یہ سب وزیراعظم کو بھی یاد ہوگا جب جنرل سپہ سالار مقرر ہو گئے تو احسن صاحب نے راولپنڈی میں ان سے تفصیلاً ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد ایک نجی محفل میں ہمیں بتایا کہ ’’شدت پسندوں‘ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہونے والی ہے‘ کوئی چاہے نہ چاہے‘ اس لئے کہ فوج کا سربراہ اپنے جوانوں کی مصیبت‘ عوام کے ناحق بہائے جانے والے خون کو نظرانداز نہیں کرے گا۔‘‘ بعد کے دنوں میں ان کی رائے حرف بہ حرف ثابت ہوئی۔
فوج کے سربراہ نے عائد کی گئی ذمہ داریوں کو دلجمعی اور دیانت داری سے ادا کیا۔ قوم اور فوج کی ہر مصیبت اور ضرورت کے وقت سب سے پہلے اور سب سے آگے نظر آیا۔ ان ڈھائی برسوں میں پوری قوم کو فوج کی طرف سے ہمیشہ اچھی خبریں ملیں۔ فوج کے ساتھ عوام کی محبت آج ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ راحیل شریف پاک فوج کی تاریخ کے سب سے مقبول رہنما ہیں۔ جنرل راحیل کے پس منظر میں دو شہیدوں کے خون کی مہک اور نشان حیدر کی منزلت نے ان کی محبت کو عقیدت کی حد میں بدل دیا‘ قوم کی طرف سے یہ اکرام کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ اس پس منظر کے ساتھ جب جنرل راحیل شریف نے اپنی سپہ سالاری کی مدت ختم ہونے سے تقریباً ایک سال پہلے ’’جنوری‘‘ میں جب یہ کہا کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتے‘ اس سے ادارے میں قیادت کا تسلسل متاثر ہوتا ہے۔ اس اعلان کے چھ ماہ بعد مہنگے دانشوروں کے مبہم تبصرے بدنیتی نہیں تو پھر اور کیا ہے؟


.
تازہ ترین