آئی ایس آئی ایس کے نام سے انتہا پسند تنظیم نے عراق کے شہر موصل اور شام کے صوبہ عمر علی کے قرب وجوار کے علاقوں پر قبضہ کرکے اسلامی مملکت کے نام سے حکومت بنا رکھی ہے ۔یہ تنظیم شام کے بعض بجلی گھروں پر قبضے کرکےوہاں بجلی کی تقسیم اوربلوں کی وصولی کررہی ہے ۔اس کےزیر قبضہ علاقوں سے تیل کی فروخت بھی اس کا ذریعہ آمدنی ہے۔علاوہ یہ نوادرات کی کھدائی کروا رہی ہےجس پر یہ دریافت کنند گان سے خمس وصول کرتی ہے۔خمس کی شرح بھی نوادرات اور علاقوں کے حساب سے مختلف ہے ۔خمس20 سے% 60تک وصول کیا جا رہا ہےجس کےتعین کا اختیار تنظیم مقامی کمانڈروں کے پاس ہے ۔مشرق وسطیٰ قدیم ترین تہذیبوں کی آماجگاہ ہے، یہاں میسو پوٹیمیائی ، اشوری،رومی اوراسلامی ادوار کی قدیم ترین تحریروں اور قیمتی نوادرات کے مدفن ہیں اورعمارتوں کی شکل میں بھی قدیم ترین تاریخی آثار موجودہ ہیں۔ دریائے فرات کے کنارے اور قرب و جوار میں قیمتی نوادرات، سونے چاندی کے زیورات کے بھاری خزانوں کے دفینے بھی موجودہ ہیں ۔ ان علاقوںمیں کھدائی کیلئےیہ لوگ عراق کے پیشہ ور افراد کوجن کے پاس تجربہ اور بھاری مشینری ہوتی ہے کو ٹھیکہ دیتے اور لائسنس جاری کرتے ہیں اورخمس کے علاوہ بھی بھاری حصہ وصول کرتے ہیں۔
یوںنوادرات کی اسمگلنگ ترکی کے راستے دنیا بھر میں پھیلائی جا رہی ہے ۔ بشار الاسدکے خلاف یہ جنگ کرنے کے بہانے یہ شام میں داخل ہوئے ،پہلے انہیں القائدہ سمجھا گیا مگر انہوں نے القائدہ سے اپنی شناخت الگ رکھی ،ان کی اس الگ شناخت کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان پر توجہ دی اورسالوں یہی تاثر رہا کہ یہ امریکہ کےا سپانسرڈ ہیں ۔ایک سال قبل انہوں نے شام کے صوبے عمر علی اور قرب و جوار کے علاقوں پر قبضہ کر لیا ۔اور ظلم کی نئی شناخت کے ساتھ نمودار ہوئے ۔دو امریکی صحافیوں کو گرفتار کر لیا ۔ امریکہ نے کچھ دن قبل ان پر ڈرون حملے کئے تو انہوں نے دونوں صحافیوں کے گلے کاٹ کر ویڈیو اپ لوڈ کردی جس کے حقیقی ہونے کی تصدیق امریکی ایجنسیوں نے کر دی ہے ۔ صدراوباما نے دہشت گردوں سے نمٹنے کا اعلان کر دیا ہے وہ یوکرائن اور ملحقہ ریاستوں کے دورے پر تھے جہاں روسی مداخلت سے حالات بدلے بدلے سے ہیں ،یوکرائن نے نیٹو میںشمولیت کی درخواست دیدی ہے ۔اوباما آئی ایس آئی ایس سے نمٹنے سے پہلے یوکرائن کے بحران کا حل چاہتے تھے مگر مذکورہ واقعےسے ان پر دبائو بہت زیادہ آگیاہے اب انکی ترجیح آئی ایس آئی ایس کا خاتمہ ہے ۔
مگر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کیا القائدہ کا خاتمہ ہوچکا۔ اس کاجواب نفی میں ہے اور یہی سوال اوباما کے سامنے ہے۔اکثر تجزیہ نگاروںکی رائے ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی آئی ایس آئی ایس تو شاید ختم ہو جائے مگر دہشت گرد ادھر ادھر بکھر جائینگے،پھر انہیں ڈھونڈھنا مشکل ہو گا ۔ القائدہ اور آئی ایس آئی خود کو فاصلے پہ رکھے ہوئے ہیں مگر کہیں ٹکرائو بھی نہیں ،نظریاتی اتحاد بھی نظر آتا ہے ۔بھارت میں القائدہ 20 سال سے گھسنے کی کوشش میں تھی مگروہاں اس کے تشخّص کی وجہ سے جگہ نہیں بن رہی تھی جبکہ آئی ایس ا آئی ایس چار ماہ قبل بھارت سے ہائرنگ میں کامیاب رہی ہے ۔ القاعدہ نے بھارت برما اور دیگر ملحقہ ممالک کیلئے پانچویں ونگ کی لانچنگ کا اعلان کیا ہے ممکن ہے اس لانچنگ میں آئی ایس آئی ایس کی نئی ہائرنگ معاون ہو۔ آئی ایس آئی ایس والوںکا رویہ بہت زیادہ پُر تشدد ہےگو دونوں کی قیادت اور شناخت الگ الگ ہے مگر نظریاتی اختلاف نظر نہیں آتا ۔
آئی ایس آئی ایس کا ذریعہ آمدنی بین الاقوامی تہذیبی ورثے کی لوٹ کھسوٹ ہے ۔کچھ بین الاقوامی تنظیمیں اقوام متحدہ سے ان قیمتی نوادرات کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنیکی درخواستیں کر رہی ہیں ،مہذب معاشروں میں ان کی خرید نہیں ہو گی جس سے کھدائی کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔ نوادرات کی کھدائی اور عمارتوں کی توڑ پھوڑ سے نہ صرف بین الاقوامی قیمتی تاریخی ورثہ تباہ ہو گا خصوصا شامیوں کی زندگیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو نگے ۔یہ نوادرات شامی معاشرے میں تصادم کو روکنے اور مصالحتی رویوں کی افزائش میں بھی معاون ہیں۔ شامی صدیوں سے تاریخ میں رہ رہے ہیں وہ پرانی تہذیبوں کے امین ہیں۔وہ پرانے شہروں اور حق ہمسائیگی کے حامل خاندانی نظام میں رہنے کے عادی ہیں ۔تاریخی مسجدوں اور گرجا گھروںمیں عبادت کرتے ہیں ،صدیوں پرانے بازاروںمیںخرید وفروخت کرتے ہیں ۔ جنگ کے خاتمے کے بعد تہذیبی ورثے کی عدم موجودگی میں انہیںمصالحت سے رہنے میں دقت ہو گی ۔یہ ورثہ شامیوں کو سیاست ،مذہبی تشخص اور فرقہ پرستی سے بالا بنا تا ہے جس سے مصالحت کے رویئے پنپتے ہیں۔یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھے اور تہذیبی ورثے کو بچائے جو انتہا پسندوں کا ذریعہ آمدنی بھی ہے ۔
مغرب کا رویہ بھی سمجھ سے بالا تر نظر آتا ہے ۔احتیاط کے پردے میں دیر جس سے فیصلے اپنی اہمیت کھو جاتے ہیں۔ابتداء میں یہ پندرہ بیس ہزار لوگ تھے اب ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکاہے اگر القائدہ اور آئی ایس آئی ایس کو مشترک فرض کر لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب اور اس کے اتحادی حقیقی کنٹرول میں کامیاب ہو جائینگے۔صدر اوباما نے نیٹو سے خطاب میں کہا یہ قتل و غارت ہمیں تقسیم نہیں کر سکتی ،ہم متحد ہیں اور ہمارے اتحادی ہماری پشت پر ہیں۔ملتے جلتے الفاظ وزیر خارجہ جان کیری نے دہرائے ہیں مگر سوال اپنی جگہ تشنہ ہے،کیا کامیابی ہو گی ۔ابتداء میں خبریں اڑائی گئیں داعش، مملکت اسلامیہ کی پشت پر ایک عرب ملک ہے مگریہ افواہ ہی نکلی مشرق وسطٰی میںغیر جمہوری صدارتوں کے خلاف لہر سے سکوت توٹوٹ گیا مگر کیا امن قائم ہوا ۔ تیونس اوریمن میں افرا تفری برقرار ہے،شام عراق لیبیا جنگوں کی زد میں ہیں۔القاعدہ کو شکست نہیں ہوئی تو پھر کیا پایا کیا کھویا ۔مغرب سب کچھ امن کے نام پر کر رہا ہے مگر امن کوسوں دور ہٹتا جا رہا ہے ، مغرب انسانیت کا علمبردار ہے اور انسانت کے تحفظ کا دعویدار ہے مگر انسانیت غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسا کیوں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ افراتفری سے بھرپور یہ منظر نامہ ہی مغرب کا مطمح نظر ہو۔