ملک پر سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ ان کی برسی چند ہفتے قبل تقریباً خاموشی سے گزر گئی۔ لیکن سامنے آنے والے تبصروں نے اس نکتے پر مناسب روشنی نہیں ڈالی کہ آخر کس طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سیاہ ترین دور نے سب سے پائیدار وراثت چھوڑی۔
فضائی حادثے میں اپنی موت کے ڈھائی عشرے سے زائد عرصے بعد بھی ضیاء کی تکلیف دہ وراثت کئی زاویوں سے آج بھی زندہ ہے۔ یہ وراثت نہ صرف ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی حرکیات پر اثر انداز ہوئی ہے بلکہ اس نے طرز حکمرانی کی کئی عادات و اطوار کی داغ بیل بھی ڈالی جو کئی سال سے مسلسل قائم دائم ہیں۔ضیاء کا دور شاید پاکستان کی مابعد تاریخ اور سیاسی تقدیر کے لئے انتہائی نتیجہ خیز تھا۔ کئی تکلیف دہ مسائل جنھوں نے بعدازاں ملک کو پریشان کیا یا تو اس دور میں پیدا ہوئے تھے یا پھر ضیاء کی پالیسیوں کے نتیجے میں مزید شدید ہوگئے۔ لہٰذا موجودہ دور کی حرکیات کے پہلوؤں کو سمجھنے کے لئے اس دور کی اہم خصوصیات کو دہرانا زیادہ سبق آموز ہوگا۔ اول تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جنرل ضیاء اس قدر طویل عرصے تک (1977 تا 1988) اقتدار پر اس لئے فائز رہے کیونکہ وہ تفریق زدہ سیاسی ماحول کو استعمال کرنے میں ماہر تھے۔ انہوں نے بھرپور طریقے سے ذوالفقار علی بھٹو کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان شدید تفریق کو استعمال کیا جس نے 1977 کی فوجی بغاوت کا راستہ ہموار کیا اور اسے قابل جواز بنایا۔ ضیاء کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی تدبیر سے انہیں بھٹو مخالف سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل ہوگئی۔ لیکن انہوں نے ملک کے ہر اول کردار کے لئے مغربی حمایت حاصل کرکے اپنی مقامی پوزیشن بھی مضبوط کرلی تاکہ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کو پسپا کیا جاسکے۔
ملکی و بین الاقوامی عوامل کا ہیرپھیر کرکے ضیاء نے اپنے حقیقی 90 روزہ آپریشن کو ایک طویل سیاسی سفر میں تبدیل کرلیا، 1977 اور 1979 میں دو بار الیکشن کا وعدہ کیا اور پھر اپنے وعدے سے پھر گئے۔ انہوں نے جبر و استبداد کے ساتھ قول سے فوراً پھرنے کو بھی اپنا شعار بنالیا۔اس صفت کی وجہ سے انہیں’’ اپنا آخری اعلان منسوخ کرتا ہوں‘‘ کی شہرت ملی جس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے مخالفین کو بھی غیرمتوازن رکھا۔ ضیاء نے بھاری اکثریت سے منتخب ملک کے پہلے وزیراعظم کو پھانسی چڑھانے کو بہت معمولی سمجھا۔ لیکن اپنی تمام تر سازشوں جنھوں نے ان کے اقتدار کو دوام بخشا کے باوجود وہ پاکستانی سیاست سے بھٹو کا اثر و رسوخ مٹانے میں ناکام ہوگئے۔ ضیا کے اقتدار کے4 اہم پہلو ملک کے لئے انتہائی دور رس نتائج کے حامل تھے اور چاروں کے چاروں ضرررساں تھے۔ پہلا اور سب سے اہم پہلو: جن بیرونی اور اندرونی پالیسیوں پر انہوں نے عملدرآمد کیا ان کے ملاپ کے نتیجے میں ملک میں مذہبی شدت پسندی اورعسکریت پسندی میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ قومی سیاست میں مذہب کا اثر و نفوذ آزادی کے بعد ہی شروع اور رواں دواں ہوگیا تھا، لیکن صورتحال اس وقت ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگئی جب جنرل ضیاء نے ملک اور اس کے قانونی و تعلیمی نظام کو اسلامی بنانے کے خود تفویض کردہ مشن کا آغاز کیا۔ اپنے اقتدار کو جائز بنانے کے لئے اسلام کو استعمال کرکے ضیاء نے سیاست اور مذہب کو اس انداز میں باہم مدغم کردیا جس کا مقصد معاشرے کو مذہبی اور فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا تھا۔ اس کے نتائج یہ نکلے کہ معاشرے میں انتہا پسند اور عدم برداشت کے رجحانات پیدا ہوئے جنھوں نے ملک میں تفریق پیدا کی۔ فرقہ پرستی کی جڑیں بھی انہی پالیسیوں میں پنہاں ہیں۔
طویل ترین افغان جنگ کے اثرات کے ساتھ اکٹھے ہوکر ان پالیسیوں سے مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہوا اور عسکری تنظیمیں بنیں جن میں سے کچھ کو خارجہ پالیسی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ ضیاء کے تحت، افغانستان سے روس کو نکالنے کی امریکی زیر قیادت کوششوں سے پاکستان کے تعلق نے ملک کو ناخواستہ مضمرات والی جنگ میں دھکیل دیا جس کے سبب ملک اور خطے کو کانٹوں کی فصل کاٹنی پڑی۔ افغان جنگ میں کئی تذویراتی غلطیاں کی گئیں جن میں سب سے نمایاں غلطی کمیونزم سے لڑنے کے لئے مذہب کا استعمال تھی۔ اس نے مذہبی عسکریت پسندی کا ان چاہا ردعمل پیدا کیا جس نے نہ صرف پڑوس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ خود پاکستان کو غیر مستحکم کیا۔ ضیاء حکومت یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہی کہ اس جنگ میں شمولیت کس طرح عدم استحکام کے گوناگوں ذرائع درآمد کرے گی جو خود پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیں گے۔
امریکی ہدایت پر چلائی جانے والی مہم میں متعدد مسلم ممالک کے ہزاروں شہریوں کی افغان جہاد میں حصہ لینے کیلئے حوصلہ افزائی کی گئی۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے بعد میں القاعدہ بنالی۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ سرد جنگ کے آخری تصادم کا نتیجہ نائن الیون حملوں کے جواب میں21 ویں صدی کی پہلی فوجی مداخلت کی صورت برآمد ہوا۔ عسکریت پسندی کے علاوہ، افغان جنگ نے پاکستان کو بہتیرے مسائل کا شکار کردیا جن میں اسلحہ ومنشیات کی فراوانی، مدارس کی تعداد میں بیش بہا اضافہ اور بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد شامل تھی جس کے نتیجے میں یہ دنیا میں نقل مکانی کرنے والی آبادی کا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اور یہاں آج بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہاجرین موجود ہیں۔ ضیاء کی وراثت کا دوسرا مہلک پہلو ان کی جبر و استبداد کی پالیسیوں سے پیدا ہونے والا سیاسی و اداراتی شکست و ریخت کا عمل تھا۔ اس نے پاکستان کو ادارتی طور پر تہی داماں کردیا اور جمہوری اقتدار کی بنیادوں کو کمزور بنایا۔ سیاسی سرگرمیوں کی طویل ممانعت، سیاسی جماعتوں پر پابندی، عدلیہ کی آزادی پر حملہ، آزادی صحافت پر قدغن ان سب نے سیاسی ادارہ سازی کا عمل کمزور کیا۔ ایک شدید انتشارکے شکار معاشرے میں موجود کمزور سیاسی اداروں نے بعد از ضیاء دور میں حکمرانی کو ایک خوفناک چیلنج بنادیا۔ اگرچہ سول بیوروکریسی کو سیاست زدہ بنانے کا سلسلہ بھٹو کے دور میں ہی شروع ہوگیا تھا تاہم ضیاء کے اقدامات نے ملک کے انتظامی انتشار میں مبتلا ہونے کی رفتار مزید تیز کردی۔ ایک اہل سول سروس ،جو طویل عرصے تک ملک کے انتظامی امور چلاچکی تھی، کے سیاسی استعمال سے لامحالہ ریاست کی استعداد کار کمزور ہوئی۔ سیاسی مقاصدحاصل کرنے کیلئے انتظامی اور پولیس مشینری کو استعمال کرکے انہیں خراب کیا گیا جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی میں کافی زوال آیا۔
ضیاء کی وراثت کے تیسرے پہلو کا تعلق ان مضمرات سے متعلق ہے جنہوں نے ان کی تنگ نظر اور غیر سیاسی بنانے کی پالیسیوں سے جنم لیا۔ اس سے مراد کئی چیزیں ہیں۔ ایک مورخ کی حیثیت سے عائشہ جلال نے قائل کرنے کی حد تک ثابت کیا ہے کہ عصبیت کی سیاست میں نسلی یا علاقائی اصطلاحوں میں عوامی مطالبات کی ادائیگی کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کو تقسیم کرنے کے لئےمختلف سیاسی، نسلی اور مذہبی تنظیموں کو مضبوط اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ان اقدامات نے قومی سیاست کو کمزور کرکے عصبیت کے رجحانات پروان چڑھائے جنھوں نے معاشرے کو مزید انتشار میں مبتلا کردیا۔ مقامی سیاست کو فروغ دے کر قومی امور کو جان بوجھ کر بالائے طاق رکھ دیا گیا جس کی وجہ سے ایک نئی صنف کے سیاست دان سامنے آئے۔ سرپرستی کے خواہشمند یہ سیاست دان ایک نئے اور سیاسی بھاؤ تاؤ والے نیٹ ورکس، جو ریاستی وسائل تک رسائی مثلاً زمین، بینکوں کے قرضے اور ترقیاتی فنڈز پر مبنی تھے کے ذریعے حکومت سے جڑے ہوئے تھے۔
اس کے بدلے میں پشت پناہی اور مقامی اثر و رسوخ رکھنے والے ان سیاست دانوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ 1985 کے بعد والی غیر جماعتی سیاست قومی رجحانات سے محروم رہے۔ جس کی وجہ سے سیاست کے رنگ کے ساتھ ملک کا سیاسی کلچر ہی بدل گیا۔ سرکاری وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے انتخابی عہدے کے حصول کی کوششیں کرنا سیاست کا بنیادی مقصد بن گیا۔ اس کے کئی نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے۔ ذاتی مفادات کے حصول کے لئے سرکاری عہدے کا ناجائز استعمال، وسیع عوامی مقصد کے بغیر سیاسی غلبہ، قومی خزانے کا ضیاع، سرکاری بینکوں اور اداروں کا مسلسل گھاٹے میں جانا، اور آخر کار پورے نظام میں کرپشن کا سرایت کرجانا۔ اس بارے میں جلال کہتی ہیں سیاست پیسہ بنانے کا کاروبار ضیاء کے دور میں بنی۔
ضیاء کے ورثے کا چوتھا پہلو ان کے دور میں معیشت کے تباہ کن انتظام و انصرام سے متعلق ہے جو اس نوعیت کی تھی کہ اس میں پاکستان کی دیرینہ مالیاتی بحرانوں، مالی عدم توازنوں اور قرضوں کی جڑیں ملتی ہیں۔ 1980 کی دہائی میں سالانہ جی ڈی پی نمو اوسطاً 6 فیصد تھی۔ لیکن اعداد و شمار کی حد تک یہ متاثر کن نمو بڑی تعداد میں قرضے لے کر اور طبعی و سماجی اثاثے خرچ کرکے حاصل ہوئی تھی۔ مزید برآں، نمایاں مغربی معاونت اور سمندر پار پاکستانیوں سے ملنے والے زر مبادلہ کے اتفاقی طور پریکجا ہونے والے عوامل کے ذریعے پیداواری شعبوں اور انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے کا ایک غیر معمولی موقع ضائع کردیا گیا۔ بلکہ اس کی بجائے موجودہ اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اس نعمت غیر مترقبہ کو ہی استعمال کرلیا گیا۔
اس دور کے معاشی مینیجرز کی جانب سے ہونے والی مالی بدنظمی نئی انتہاؤں تک پہنچ گئی جب 1984-85 میں اخراجات کل آمدنی سے زیادہ ہوگئے۔ یہ ملکی بجٹ کی تاریخ میں ایک موڑ تھا۔ ٹیکس مرکز کو بڑھانے یا اخراجات میں کمی کرنے پر غیر آمادہ حکومت نے نہ صرف ترقیاتی کاموں بلکہ اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی بھاری قرضے لینے شروع کردئیے۔ وسائل کا غیر مستحکم عدم توازن ،جو بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن دونوں میں خسارے کے صورت دکھائی دیا، کے بیج درحقیقت ضیاء دور میں ہی بوئے گئے تھے۔اس نے ایک بری روایت قائم کی جس پر ان کے بعد آنے والی سویلین اور فوجی حکومتوں نے عمل کیا ۔ یعنی ایسی ساختی اقتصادی اصلاحات ، جو ایک پائیدار معیشت قائم کرسکتی ہوں، کو نظر انداز یا انہیں ملتوی کرنے کے لئے بیرون ملک سے امداد وصول کی جائے۔ لہٰذا تاخیر کا شکار یا عدم اصلاحات نے ملک کو بیرونی انحصار، مالیاتی کوتاہی اور مالی بحرانوں کے ایک ایسے گورکھ دھندے میں پھنسا دیا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے متواتر بیل آؤٹس لازم ہوگئے۔ضیاء سے سیاسی طور پر فیض یاب ہونے والے اکثر لوگ معاشی نمو اور سیاسی استحکام کو ان کے دور کے مثبت پہلو قرار دیتے ہیں۔ لیکن تباہ حال معیشت، زیادہ پرتشدد اور انتشار کا شکار معاشرہ اور عوام کی خدمات کرنے میں انتہائی کمزور ریاستی ادارے اس دعوے کوغلط ثابت کرتے ہیں۔