• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلی تین دہائیوں سے ساری دنیا میں امارت اور غربت میں فاصلہ بڑھا ہے۔ امریکہ ہو یا یورپ ، امیر امیر تر ہوئے ہیں اور غریب غریب تر۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی یہی رجحان شدید تر حالت میں موجود ہے۔ پاکستان جہاں جاگیرداری نظام قائم تھا دولت کی تقسیم انتہائی غیر منصفانہ تھی۔ زرعی شعبے کے معیشت میں سکڑنے سے درمیانے طبقوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن غریب ترین اور امیر ترین کے درمیان خلیج بہت بڑھ چکی ہے۔دنیا میں تقسیم دولت کے بارے میں فرانسیسی نژاد معیشت دان تھامس پکٹی کی نئی تحقیق ’’اکیسیویں صدی میں سرمایہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔دولت کی تقسیم کے بارے میں بعض حلقوں میں اس شہرہ آفاق تحقیق کو کارل مارکس کے بعد سب سے زیادہ اہم سمجھا جارہا ہے۔ اس تحقیق کی بنیادیں کارل مارکس اور ان کے عہد سے بہت مختلف ہیں۔ تھامس پکٹی نے پچھلے تین سو سالوں میں دولت کی تقسیم کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔
تھامس پکٹی نے برطانیہ فرانس اور امریکہ کے اعداد و شمار کی بنیاد پر اپنے نظرئیے کی تعمیر کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تھامس پکٹی امریکہ کو فرانس اور جرمنی کی طرح کا ملک تصور نہیں کرتے کیونکہ ان کے خیال میں امریکہ میں نقل مکانی کر کے آنے والوں کی وجہ سے آبادی میں اضافہ غیر فطری رہا ہے۔ دو سو سالوں میں چند ملین کا ملک آج تین سو ملین کا مسکن بن چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں فرانس اور برطانیہ میں آبادی میں اضافے کی شرح فطری رہی ہے۔ اس کی وجہ سے مصنف نے اپنے نظرئیے کی تعمیر کے لئے فرانس اور برطانیہ کے اعداد و شمار کو زیادہ استعمال کیا ہے۔ تھامس پکٹی کا نظریہ یہ ہے کہ اگر معاشی ترقی کی رفتار کم ہو تو تقسیم دولت غیر مساویانہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے الٹ اگر معاشی ترقی کی شرح آبادی کے اضافے کی شرح سے زیادہ ہو تو تقسیم دولت زیادہ منصفانہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غریب ملکوں میں امیر اور غریب کا تفاوت نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی غریب ملکوں میں امیر بہت امیر ہوتے ہیں اور غریب بہت غریب۔ مزید برآں اگر آبادی کے بڑھنے کی شرح معاشی ترقی سے زیادہ ہو نہ صرف ملک غریب ہوتے ہیں بلکہ دولت کی تقسیم بھی خراب ہوتی جاتی ہے۔تھامس پکٹی کے مطابق برطانیہ اور فرانس میں طویل المیعاد معاشی ترقی کی رفتار تقریباً ڈیڑھ فیصد سالانہ کے قریب رہی ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں تقسیم دولت کافی غیر منصفانہ تھی۔ دو عظیم جنگوں کے بعد دولت کی تقسیم کافی حد تک منصفانہ رہی لیکن پچھلی تین دہائیوں سے صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ اب تقسیم دولت پھر سے خراب ہونا شروع ہو چکی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آنے والے زمانے میں صنعتی ممالک میں معاشی ترقی کی رفتار پھر سے ڈیڑھ فیصد کے ہی قریب ہو گی اور تقسیم دولت میں بہتری کے امکانات کافی کم ہوں گے۔اس کے برعکس چین اور ہندوستان جیسے ملکوں میں ترقی کی رفتار کہیں زیادہ تیز ہو گی کیونکہ وہ صنعتی ممالک کی سطح پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد دولت کی تقسیم کافی ہموار ہو گئی تھی۔ فلاحی نظاموں اور ٹریڈ یونینوں کی کاوشوں سے کارکنوں کی تنخواہوں میں قابل قدر اضافہ ہوا تھا۔ لہٰذا دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لے کر 1980 تک مالکان اور کارکنوں کے درمیان ایک مستقل توازن تھا۔ ملکی پیداوار میں تیس فیصد سرمایہ کاروں کو ملتا تھا اور ستر فیصد کارکنوں کے حصے میں آتا تھا۔ لیکن 1980میں ریگن کے صدر بننے کے بعد امریکہ کے نظام میں اس طرح کی تبدیلیاں لائی گئی ہیں کہ امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب غریب ترہو رہے ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ ایک فیصد امیر ترین سرمایہ دار چوبیس فیصد قومی آمدنی کے حصہ دار ہیں۔ ملکی دولت میں ایک فیصد امریکی چالیس فیصد کے مالک ہیں۔
امریکہ میں رونالڈ ریگن اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر نے نیا معاشی نظام رائج کیا جسے رد انقلاب سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر اس نئے نظام میں امیروں کو ٹیکسوں پر فراخدلانہ چھوٹ دی گئی۔ دوسری طرف ٹریڈ یونینوں کو ایک منصوبے کے تحت ختم کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکہ کے چوٹی کے پانچ یا دس فیصد لوگوں کی آمدنی میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن باقی آبادی کی آمدنی جمود کا شکار ہو گئی ہے یا پھر ان کی آمدنیاں سکڑ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ’ وال سٹریٹ قبضے‘ جیسی تحریکیں اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان میںتقسیم ہند کے وقت جاگیرداری نظام قائم تھا۔ اس علاقے کے درمیانے طبقات ہندووں اور سکھوں پر مشتمل تھے جو نقل مکانی کرکے ہندوستان چلے گئے۔ نئے پاکستان میں یا تو بڑا جاگیردار تھا اور یا کسان۔ یہ دولت کی بد ترین تقسیم تھی کیونکہ ساری زمین چند ہزار جاگیرداروں کی ملکیت تھی اور ان کے بے زمین کسانوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔البتہ وسطی پنجاب میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کی کافی بڑی تعداد تھی۔ سیاست پر بھی جاگیرداروں کا قبضہ تھا جس میں عوام کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی درمیانے طبقے کی نمائندہ کے طور پر ابھری۔ اگر 1970کے انتخابات کو دیکھیں تو پنجاب سے پیپلز پارٹی کے جیتنے والے زیادہ تر امیدواروں کا تعلق پنجاب سے تھا۔
پاکستان میں ستّر کی دہائی سے بنیادی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں۔ ایک نیا تاجر اور سرمایہ کار طبقہ پیدا ہونا شروع ہوا۔ تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی پاکستان میں درمیانے طبقات کو جلا بخشی۔ پورے پاکستان میں مشینی کا شت اور شہروں کی طرف نقل مکانی نے نئے طبقات کو جنم دیا ہے۔ جب ملک معرض وجود میں آیا تھا تو زرعی شعبہ معیشت کا 95 تھا جو کہ اب پچیس فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں نئی دولت زرعی شعبے کی بجائے دوسرے سیکٹروں میں پیدا ہو رہی ہے۔ اب ملک میں امیر ترین طبقہ سرمایہ کاروں، تاجروں اور دوسری خدمات فراہم کرنے والوں پر مشتمل ہے۔پاکستان میں بھی امیر امیر تر ہوئے اور غریب غریب تر لیکن ایک بہت بڑا درمیانہ طبقہ بھی پیدا ہوا ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان میں بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی آبادی کی ہے۔ مختلف اشاریوں کے مطابق ملک کی آدھی آبادی بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ پاکستان میں امیر طبقات ریاست کی طاقت کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔وہ مختلف پروگراموں کے حوالے سے حکومتوں سے ٹیکسوں میں چھوٹ لیتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مالی سہولتوں سے بھی فیضیاب ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بالواسطہ ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریب عوام کے کندھوں پر ہے۔ یعنی ریاست ٹیکس تو غریبوں سے لیتی ہے اور اس سے مستفیض صاحب ثروت طبقات ہوتے ہیں۔ اس لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ پاکستان میں امیر وں کی امارت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ غریب طبقات کی بد حالی بڑھ رہی ہے۔تھامس پکٹی کا نظریہ کئی پہلووں سے پاکستان میں تقسیم دولت کے تجزئیے کے لئے سود مند ہے۔ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار سست ہے جبکہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان انہی منازل سے گزر رہا ہے جن سے برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک گزرے تھے۔
تازہ ترین