• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ ہفتے اپنی پارٹی کے بعض لوگوں کی جانب سے تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور ایک مرحلے پر پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہونے کا بھی فیصلہ کیا لیکن کارکنوں کے بے حد اصرار پر انہوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا ۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنے خطاب میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم کے کچھ لوگوں کے بارے میں زمینوں پرقبضوں اور دیگر ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی رپورٹیں مل رہی ہیں اور کچھ لوگ اپنی معاشی حیثیت سے بڑھ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ الطاف حسین نے پارٹی کے اندرونی مسائل ،مبینہ تنظیمی خلاف ورزیوں اور بے قاعدگیوں کا جس طرح جلسہ عام میں ذکر کیا ہے ، اس طرح کوئی دوسرا سیاسی لیڈر نہیں کر سکتا ہے ۔ اس پر مختلف حلقوں کی مختلف رائے ہو سکتی ہے ۔ مخالف حلقے یہ پروپیگنڈہ کر سکتے ہیں کہ پارٹی میں بہت گڑ بڑ ہے اور اس کے قائد خود بے قاعدگیوں کا اعتراف کر رہے ہیں لیکن ان حلقوں کو اس بات کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا چاہئے ۔ یہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ ہے، جو ہر کوئی نہیں کر سکتا ۔ ایک پارٹی کا لیڈر اپنی پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنا چاہتا ہے ۔ وہ ان سیاسی رہنماؤں سے بہتر ہے، جو اپنے لوگوں کی کمزوریوں اور خرابیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں ۔ کارکنوں کے سامنے اگر کوئی پارٹی لیڈر اپنے لوگوں کے مختلف معاملات کی نشاندہی کرتا ہے تو اس سے لیڈر کی نیک نیتی ثابت ہوتی ہے ۔ یہ پارٹی کے اندر احتساب کا ایک موثر طریقہ ہے ، جو پاکستان کی کسی دوسری پارٹی نے اختیار نہیں کیا ہے ۔ تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں اور بے قاعدگیوں کا ارتکاب کرنے والوں کا اس سے بڑا احتساب نہیں ہو سکتا کہ انہیں اپنی پارٹی کے وسیع تر حلقوں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم نے پارٹی عہدیداروں ، رہنماؤں اور کارکنوں کے اثاثوں کی تشخیص کے لئے بھی ایک کمیٹی قائم کر دی ہے ، جو اس بات کا پتہ چلائے گی کہ بعض رہنماؤں کی حقیقی آمدنی کیا ہے اور ان کا معیار زندگی کیا ہے ۔ یہ کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کسی رہنما یا عہدیدار کو اہم ذمہ داری ملنے سے پہلے اس کے اثاثے کیا تھے اور اب ان اثاثوںمیں کیا کمی بیشی ہوئی ہے ۔ اس طرح کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ہے ۔ ایم کیو ایم کے قائد نے اپنی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے بعض لوگوں کو یہ بھی کہا کہ وہ اپنی گردنوں سے سریہ نکال دیں کیونکہ سیاسی کارکن حاکم نہیں بلکہ عوام کا خادم ہوتا ہے ۔ اس طرح کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کوئی اور نہیں کر سکتا ہے ۔
ایم کیو ایم سے کچھ لوگوں کو سیاسی اور نظریاتی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ پارٹی کے اندر احتساب کا ایسا عمل کسی دوسری سیاسی جماعت نے شروع نہیں کیا ہے ۔ حالانکہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی اس طرح کے معاملات ایم کیو ایم سے کہیں زیادہ ہوں گے لیکن دوسری تمام جماعتیں ان معاملات کی پردہ پوشی کرتی ہیں ، جو کسی صورت بھی قابل ستائش عمل نہیں ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے بے شمار ایسے لوگ ہیں ، جن کے سماجی اور معاشی پس منظر سے عوام اچھی طرح واقف ہوتے ہیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ لوگ کروڑ پتی یا ارب پتی بن جاتے ہیں ۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر تیزی سے ان کے پاس دولت کہاں سے آئی ؟ اس سوال کا انہیں کوئی جواب نہیں ملتا ہے اور وہ یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ سیاست صرف کرپشن کا نام ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ذمہ دار کی کرپشن کی باتیں بہت زیادہ ہونے لگتی ہیں اور ان جماعتوں کی قیادت اس شخص کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیتی ہے لیکن عوام کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اصل مسئلہ کیا ہے ۔ اگر پارٹی کارکنوں اور عوام کو بتا دیا جائے تو پھر کوئی دوسرا کرپشن کی جرأت نہیں کرے گا ۔ لوگوں سے یہ باتیں اس لئے چھپائی جاتی ہیں کہ کرپشن کا سلسلہ جاری رہے اور کارکنوں یا عوام کو احتساب کرنے کا موقع نہ ملے ۔
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن کسی غیر سیاسی قوت کی طرف سے مداخلت نہیں ہوئی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آمرانہ حکومتوں اور فوجی مداخلتوں کا زمانہ بیت گیا ہے تو غلط نہ ہو گا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے لوگ جمہوریت سے مطمئن نہیں ہیں ۔کرپشن اور بیڈ گورننس کے معاملے پر پاکستان کے عوام زیادہ حساس ہو چکے ہیں اور اگر کرپشن کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ پاکستان میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے ۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے اپنے کارکنوں میں یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ پارٹی قیادت کے قریب صرف وہ لوگ ہیں ، جو زیادہ کمائی کرکے دیتے ہیں ۔ عام لوگ بھی سیاست دانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دولت کے حوالے سے اب سر عام سوالات کر رہے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور عوام میں سیاسی رہنماؤں کی کرپشن کے حوالے سے جو تاثر پیدا ہو رہا ہے ، اسے ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایم کیو ایم کی طرز پر پارٹی کے اندر احتساب کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔ اس طرح کا احتساب کارکنوں کو بھی مطمئن کرے گا اور عوام میں پیدا ہونے والی بے چینی کا بھی خاتمہ کرے گا ۔ اس کے لئے اسی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، جس اخلاقی جرأت کا مظاہرہ ایم کیو ایم کے قائد نے کیا تھا ۔ ان کی باتوں پر تنقید کرنے کے بجائے ان باتوں کے مثبت پہلوؤں پر غور کرنا چاہئے ۔ لوگوں کا سیاسی شعور بہت بلند ہو چکا ہے ۔ اب اصل حقائق کو عوام سے چھپایا نہیں جا سکتا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں جمہوری نظام کو قابل قبول بنانے اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر احتساب کا ایک خود کار نظام وضع کیا جائے ۔ کرپشن میں ملوث اور غلط کام کرنے والوں کے لئے اس سے بڑی سزا اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ انہیں احتساب کے لیے کارکنوں اور عوام کی عدالت میں کھڑا کر دیا جائے ۔ ایم کیو ایم کے قائد کی یہ اخلاقی جرات قابل ستائش ہے ۔
تازہ ترین