افغانستان کی صورت حال اب ایک زیادہ غیر یقینی مرحلے میں داخل ہورہی ہے اور وہاں کے موجودہ انتخابی بحران کا مطلب ہے کہ حالیہ نیٹو کانفرنس ، جس کا دھیان پہلے ہی دیگر جغرافیائی سیاسی حالات کی وجہ سے بٹا ہوا تھا، نے افغانستان کے ساتھ بدستور مصروف رہنے کے عزم کا اظہار کرنے سے زیادہ کوئی کام نہیں کیا حالانکہ وہ وہاں آئندہ تین ماہ میں اپنے لڑاکا مشن کے خاتمے کا اعلان بھی کرچکی ہے۔رواں ماہ کے اوائل میں ویلز میں ہونے والی اس نیٹو کانفرنس کی زیادہ تر توجہ دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) اور روس یوکرائن تنازع پر مرکوز رہی۔ لہٰذا یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ افغانستان پر جاری کردہ رسمی سے اعلامیے پرمیڈیا میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ایک سال پہلے،مغربی دارالحکومتوں میں توقعات پائی جاتی تھیں کہ یہ نیٹو کانفرنس افغانستان میں مشن کی تکمیل اور 2014 کے بعد غیر عسکری معاون مشن کا اعلان کرسکے گی اور کابل و واشنگٹن کے درمیان دوطرفہ سیکورٹی معاہدہ طے پاجائے گا، جس پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے نئے افغان صدر نے تقریب میں شرکت کرنی تھی۔لیکن ان میں سےکوئی بھی توقع پوری نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کی بجائے افغان الیکشن پر موجود تنازع اور دونوں صدارتی امیدواروں کے مابین سیاسی تعطل مسلسل جاری ہے جبکہ دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں اور الائنس 2017 کے آخر تک ملک کے ساتھ مصروف رہنے کے تربیتی مشن اور افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کو مالی مدد فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کرنے پر تیار بیٹھا ہے۔
لیکن یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اسکا انحصار اگلی افغان حکومت کی جانب سے نیٹو اور امریکہ کے ساتھ باضابطہ معاہدوں پر دستخط کئے جانے پر ہوگا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل صاف کہہ چکے ہیں کہ معاہدے پر دستخط کے بغیر کوئی مشن شروع نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ انہوں نے افغانستان کے دونوں صدارتی حریفوں کی جانب سے مشترکہ خط پڑھ کر سنایا جس میں دونوں نے الیکشن کے فاتح کا تعین ہوتے ہی سیکورٹی معاہدوں پر دستخط کرنے کی حامی بھری ہے۔نیٹو کے افغانستان کیلئے بعد2014 منصوبوں میں تاخیر اور ملک میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے طالبان نے اس غیر یقینی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بالخصوص جنوبی اور مشرقی علاقوں میں حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امکان ہے کہ طالبان سرکاری فورسز کو پسپا کرکے صوبہ ہلمند پر قبضہ کرنے والے ہیں جہاں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
اس صورت حال کے تناظر میں امریکہ میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شریک پاکستانیوں اور امریکیوں نے افغانستان میں پنپنے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں فریقوں کے نقطہ نظر میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ امریکی مقررین قدرے زیادہ پرامید تھے جب کہ بیشتر پاکستانی زیادہ پراعتماد نہیں تھے اور انہیں افغانستان کے عدم استحکام کے اثرات پاکستان پر مرتب ہونے کی پریشانی لاحق تھی۔اس پر کانفرنس میں شریک ایک شخص نے کہا کہ دونوں فریق زمینی حقائق کی الگ الگ تشریحات کررہے ہیں۔ تاہم گھٹتی ہوئی امداد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی مضمرات اور غیر ملکی افواج کے قریب انخلاء کے معاملے میں دونوں فریقوں کی تشریحات ایک دوسرےسےملتی جلتی تھیں۔ افغانستان کی جی ڈی پی میں پہلے ہی 20 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں افغان معیشت، جس کا انحصار بنیادی طور پر بیرونی امداد پر ہے،کی حالت مزید پتلی ہوگئی ہے۔ نیز ایک امریکی مقرر کے مطابق سرمائے کی ملک سے باہر منتقلی سے معیشت کساد بازاری سے اب شدید مندی کی طرف جارہی ہے۔شرکاء نے اس پر بات پر اتفاق کیا کہ زبوں حال معیشت اور سیاسی غیر یقینی مل کر ایک تباہ کن سلسلہ شروع کرسکتی ہے جس کے ملک کے سیاسی استحکام پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
2014 کے بعد افغان فورسز کی ڈٹے رہنے کی صلاحیت پر معمولی اتفاق رائے دیکھا گیا۔ کابل سے حال ہی میں لوٹنے والے ایک امریکی نے کہا کہ افغان نیشنل آرمی ہر لحاظ سے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے اور اس نے صدارتی الیکشن کے دونوں مراحل کا محفوظ انعقاد یقینی بنایا ہے۔ لیکن اس نے اپنے تجزئیے میں کئی انتباہات بھی شامل کئے۔اس سال افغان نیشنل آرمی کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا جس نے افغان ہائی کمان کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے کہ کیا یہ جنگ ہمیشہ اسی طرح چلتی رہے گی۔ نیز افغان فوج کا انحصار بدستور امریکی فضائی حملوں پر ہے۔ لہٰذا ان کی لڑنے کی صلاحیت اس پر منحصر ہوگی کہ کیا 2014 کے بعد بچی کھچی مغربی فورس کی جانب سے فضائی مدد فراہم کی جاتی ہے یا نہیں۔ نیز افغان دفاعی ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس، بارودی سرنگیں تباہ کرنے کی صلاحیتیں اور لاجسٹک معاونت بھی درکار ہوگی۔مذکورہ امریکی نے بتایا کہ سب سے اہم انتباہ یہ تھا کہ اگر موجودہ سیاسی بحران جاری رہا تو افغان فوج نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوسکتی ہے۔ ان خدشات کا اظہار کئی پاکستانی شرکاء نے بھی کیا جنھیں افغان فوج کی سالمیت اور داخلی حملوں کے امکانات کے حوالے سے اپنے امریکی ہم منصبوں سے زیادہ تشویش لاحق تھی۔
اسی طرح، طالبان کے احیاء کے امکانات سے متعلق تجزیوں میں بھی اختلاف نظر آیا۔ ایک امریکی مقرر نے کہا کہ طالبان نے کسی ضلع یا بڑے شہر پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوئی پیشرفت نہیں کی کیونکہ امریکی اسپیشل آپریشن فورسز بدستور طالبان کے خلاف حملے کررہی ہیں جس سے ان کے کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
کئی پاکستانی شرکاء نے ایک مختلف موقف کا اظہار کیا تاہم اس نکتے پر سب کا اتفاق تھا کہ طالبان کے پاس 2014 کے بعد کابل پر قبضہ تو دور ملک پر دھاوا بولنے کی بھی صلاحیت نہیں۔ لیکن کئی پاکستانی شرکاء کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مستقبل کے لئے اپنی بندوقوں کو خاموش رکھا ہوا ہو۔
لیکن کانفرنس کے شرکاء کو سب سے زیادہ تشویش افغانستان کے موجودہ سیاسی بحران پر لاحق تھی۔ چونکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی دو مرتبہ ثالثی میں الیکشن آڈٹ اور شراکت اقتدار پر کرایا جانے والا معاہدہ ایک بار پھر ٹوٹتا نظر آرہا ہے، اس حوالے سے کانفرنس کے شرکاء زیادہ پرامید نظر نہیں آئے۔ ایک امریکی مقرر نے امید ظاہر کی کہ ایک فوری حل اب بھی ممکن ہے لیکن اس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس حل کا پائیدار بنیادوں پر نفاذ کافی دشوار ثابت ہوگا۔ اس نے خبردار کیا کہ اگر سیاسی بحران طویل ہوا تو یہ ملک میں نسلی بنیادوں پر کشیدگیوں کو جنم دینے کی وجہ بنے گا۔شرکاء نے اتفاق کیا کہ دونوں حریفوں کے درمیان سمجھوتے پر پہنچنے کی کوششوں کو پیچیدہ بنانے والے وہ کمزور اتحاد ہیں جن کی وہ سربراہی کررہے ہیں۔ دونوں اتحادوں میں موجود عناصر ایک دوسرے کے لئے گنجائش نکالنے سے انکاری ہیں۔ تاہم شرکاء نے اس پر اتفاق کیا کہ افغانستان میں وار لارڈز سمیت کوئی بھی 1990 کی دہائی والی صورت حال کی واپسی نہیں چاہتا اور کانفرنس میں ایسے کسی بھی منظر نامے کا امکان بالکل مسترد کردیا گیا۔
پاکستانی شرکاء کا کہنا تھا کہ ایک کامیاب سیاسی انتقال اقتدار کا انحصار کیری معاہدے کے نفاذ سے زیادہ اس کے قانونی جواز اور سب سے اہم طور پر طالبان کے ساتھ سیاسی مصالحت پر ہوگا۔ درحقیقت طالبان کے ساتھ سیاسی مفاہمت یا سیاسی گنجائش ایک ایسا پہلو تھا جو امریکی فریق کے پیش کردہ نقطہ نظر میں موجود نہ تھا۔ایک پاکستانی مقرر نے نشاندہی کی کہ مصالحتی کوششیں اس وقت معطل ہیں لیکن کرزئی کے بعد والے افغانستان میں اس عمل کی تجدید کا موقع سامنے آسکتا ہے۔ اس مباحثے میں جو سوال تشنہ رہا یہ تھا کہ کیا امریکہ کا ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی میں بعد از انخلاء کوئی مفاد موجود ہے اور کیا اس کی مددگار فورس کا مشن مذاکرات کی بجائے لڑائی ہوگا۔اس مباحثے کے دوران میری جانب سے اٹھایا گیا ایک نکتہ یہ تھا کہ ٹریک ون (اعلیٰ سطح کے فوجی و سیاسی قیادت کے رابطے) سرکاری رابطے میں، پاکستانی اور امریکی فریقین نے اب تک اپنے منظرناموں پر بات چیت یا ان کا تبادلہ نہیں کیا ہے کہ افغانستان میں آئندہ کیا حالات پیش آسکتے ہیں۔ تاحال دونوں فریقوں نے یقیناً ان منظر ناموں پر اچھی طرح سوچ بچار ضرور کی ہے ۔
لیکن ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تجزیوں کا تبادلہ نہیں کیا۔ لیکن اگر مستقبل کے تعاون کی توقعات پر پورا اترنا ہے اور دونوں ممالک اپنی بعد 2014 کی حکمت عملیوں کو مربوط کرنا چاہتے ہیں تو ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔علاقائی دشمنیوں کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ افغانستان میں بھارت کے فوجی کردار سے متعلق پاکستانی خدشات پر امریکی فریق نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم اس بات پر دونوں نے اتفاق کیا کہ زیادہ سے زیادہ علاقائی مشاورت کا عمل آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اور یہ کہ علاقائی ممالک کے مابین ایک دوسرے کے سیکورٹی خدشات کے حوالے سے مفاہمت پیدا کرکے علاقائی دشمنیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔مباحثے میں شمالی وزیرستان میں جاری پاکستان کے فوجی آپریشن کا بھی تذکرہ ہوا اور اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں سے متعلق حوصلہ افزا تجزئیے سامنے آئے۔ اس بات بھی اتفاق ہوا خاص طور پر پاکستانی وفود کے مابین کہ ان کامیابیوں کو پائیدار بنانے کی ضرورت ہے اور افغانستان میں جنم لینے والی غیر یقینی صورت حال کے تناظر میں سرحد پر مزید سختی کرتے ہوئے اسے مستحکم بنانا ہوگا۔ ان کوششوں میں فاٹا کو باقی پاکستان کے ساتھ مرکزی دھارے میں لانے کا عمل بھی شامل ہے۔ صرف پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے ہی کانفرنس کا مرکزی خیال نہیں تھے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سے متعلق دیگر نتیجہ خیز امور پر بھی بات چیت کی گئی۔ جس کے نتیجے میں دلچسپ بصیریت افروز باتیں اور نقطہ نظر سامنے آئے۔ مثال کے طور پر ایک امریکی مقرر نے یہ نکتہ اٹھایا کہ واشنگٹن کو چاہئے کہ پاکستان کو مستقبل میں وسیع ایشیا پالیسی کے زاوئیے سے دیکھے نہ کہ صرف انسداد دہشت گردی یا افغانستان کے محدود زاوئیے سے۔ اس مقرر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایشیا کی کہانی سے باہر نہیں کیا جاسکتا۔ایک اہم سوال جسے حقیقی جواب کی تلاش میں چھوڑ دیا گیا یہ تھا کہ ان متصادم عمومی آراء کو کیسے ہم آہنگ بنایا جائے جو دونوں دارالحکومتوں میں ایک دوسرے کے متعلق بدستور جاری ہیں۔