• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس عمران خان کو میں جانتا ہوں وہ کبھی روایتی سیاستدان نہیں تھاوہ سیدھا ، کھرا اور سچا شخص تھا۔روایتی سیاستدانوں اور اس میں یہی فرق نمایاں تھا۔پاکستان تحریک انصاف کو 30 اکتوبر کے جس جلسے نے پاکستان کی صف اول کی سیاسی جماعتوں کی صف میں لا کھڑا کیا اس کی وجہ بھی عمران خان کا وہی کردار اور سوچ تھی کیونکہ جتنا میں جانتا ہوں انہیں کبھی وزیر اعظم بننے کا شوق نہیں رہالیکن اب مجھے یہ احساس ہو چلا ہے کہ عمران خان کو ان کے ارد گرد کے روایتی سیاستدانوں نے اُنہیں ایسی پٹی پڑھائی ہے کہ اب شاید وہ بھی یہ سوچتے ہیں کہ میرے وزیر اعظم بننے کے بعد ہی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ چند لوگوں کو علم ہے کہ کپتان شروع شروع میں سیاسی جماعت بنانے کے حق میں نہیں تھے وہ ایک پریشر گروپ تشکیل دینا چاہتے تھے جس میں ان کی خواہش تھی کہ حمید گل ،ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عبدالستار ایدھی جیسی قد آور شخصیات شامل ہوں جو حکومت کو غلط کام سے روکنے اور اصلاحی اور فلاحی کام کرنے کے لئے دباؤ ڈال سکیں ۔لیکن 1994ء میں شوکت خانم کینسر میموریل ہسپتال کے افتتاح سے پہلے ایک عالیشان اجتماع فورٹریس ا سٹیڈیم لاہور میں ہوا جس میں اہل لاہور سے شکریہ ادا کرنے کے لئے عمران خان نے خطاب کرنا تھا ۔اس تقریب میں لاہوریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ایک بڑا اجتماع دیکھ کر عمران خان سیاسی جماعت بنانے کے بارے میں سوچنے لگے ۔ عمران خان کی اس سوچ کو پختہ کرنے میں پاکستان کے ایک بہت بڑے صحافی نے اہم کردار ادا کیا اور ان کو قائل کر لیا کہ وہ جو ایجنڈا چاہتے ہیں اس کا حصول سیاسی جماعت بنائے اور پاور میں آئے بغیر ناممکن ہے ۔
عام رائے یہ ہے کہ 30اکتوبر کے جلسے میں پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری حالانکہ 1997ء کے عام انتخابات میں بھی میں نے عمران خان کے ساتھ بطور صحافی ان کی الیکشن مہم میں بہت سفر کیا تھا ان دنوں بھی کم و بیش اتنے ہی بڑے اجتماع میں دیکھے لیکن عام تاثر یہ تھا کہ اس وقت لوگ عمران خان کو بطور کرکٹر دیکھنے آتے تھے اور پیسے سمیت دیگر لوازمات ان کے پاس نہ تھے جو 30اکتوبر کے جلسے کے وقت ان کو میسر تھے ۔2013ء کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے میں 2008کے الیکشن کے متعلق چند حقائق بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ 2008ء کے انتخابات کے وقت عمران خان کی ساری جماعت الیکشن میں حصہ لینے کے حق میں تھی لیکن عمران خان بضد تھے کہ ہمیں اس الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔بعد ازاں عمران خان نے اپنے اس موقف میں لچک پیدا کی اور یہ فیصلہ کیا کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن میں حصہ لے گی تو پاکستان تحریک انصاف بھی ضرور الیکشن لڑگے گی 2008 ء کے الیکشن سے پہلے عمران خان دو تین روز کے لئے ڈیرہ غازی خان جیل میں پابند سلاسل رہے میں ان سے وہاں ملاقات کے لئے گیا اس ملاقات کے دوران انہوں نے اپنے اسی موقف کا اظہار کیا کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن لڑے گی تو ہم بھی الیکشن میں حصہ لیں گے چند روز کے بعد میں امریکہ روانہ ہو گیا وہاں میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ عمران خان ایک پریس کانفرنس میں اپنے کاغذات نامزدگی پھاڑ رہے ہیں اوران کا موقف تھا کہ یہ الیکشن غیر آئینی ہیں اس لئے میں ان میں حصہ نہیں لوں گا ۔ ملک میں واپس آنے پر جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ حامد خان نے مجھے بتایا ہے کہ یہ الیکشن غیر آئینی ہیں اور ہمیں اس میں حصہ نہیں لینا چاہیے اس لئے ہم نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں 2008ء کے الیکشن کو آئینی قرار دے دیا تھا ۔
2013ء کے الیکشن کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے جاوید ہاشمی کے بارے میں چند حقائق سامنے لانا ضروری ہے ۔ عمران خان کو ان کے بہنوئی حفیظ اللہ نیازی نے یہ بتایا کہ جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے نا خوش ہیں جس کے فوراََ بعد عمران نے حفیظ اللہ نیازی کے ذمے لگایا کہ آپ کسی بھی طرح جاوید ہاشمی کو ہماری پارٹی میں شامل کریں۔ حفیظ اللہ نیازی نے کئی ماہ کی انتھک کوشش کے بعد جاوید ہاشمی کو قائل کر لیا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں اس دوران حفیظ اللہ نیازی نے جاوید ہاشمی کے ساتھ اسلام آباد میں درجنوں نشستیں کیں اور کئی ملاقاتوں میں عمران خان خود بھی شامل رہے ۔ جاوید ہاشمی جب پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے اس روز سے ہی پی ٹی آئی میں دو دھڑے وجود میں آگئے ایک دھڑا جو جاوید ہاشمی کے ساتھ شامل ہو گیا اس میں اکثریت کارکنوں کی تھی جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت شاہ محمود قریشی کر رہے تھے جس میں اکثریت دیگر جماعتوں سے آئے ہوئے قائدین کی تھی جن میں جہانگیر ترین ، اعظم سواتی اور عبدالعلیم خان جیسے بڑے سرمایہ دار شامل تھے ۔جاوید ہاشمی جو بنیادی طور پر ایک سیاسی کارکن ہیں ان کو شروع سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ان سے ایک بڑی غلطی سرزد ہو چکی ہے لیکن انہوں نے پارٹی کے اندر رہ کر ہی پارٹی میں اصلاحات کرنے کے لئے جدوجہد کا آغاز کر دیا ۔ 2013ء کے الیکشن سے پہلے پارٹی کے اپنے انتخابات میں بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے حوالے سے جاوید ہاشمی نے چیئرمین کے سامنے اور کور کمیٹی کے اجلاس میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ۔ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید جو اس وقت لاہور کے صدر کا الیکشن لڑ رہے تھے انہوں نے ایک وفد کے ہمراہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی جس میں ثبوت پیش کیے کہ کس طرح عبدالعلیم خان نے لوگوں کو خرید کر الیکشن جیتا ہے ، چند لوگوں کو بطور گواہ بھی پیش کیا گیا لیکن کپتان نے اس پر کوئی ایکشن نہ لیا ۔ میری موجودگی میں بھی چند لوگوں نے لاہور کے الیکشن کے حوالے سے عمران خان سے بات کی اس موقع پر کپتان نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی اسی طرح الیکشن لڑ لیتے اور اپنی جیت کو یقینی بناتے ۔
2013ء کے الیکشن سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی رضاکار کے نام سے نوجوانوں کی بہت بڑی مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد نوجوانوں کو نہ صرف بطور پولنگ ایجنٹ کام کرنے کی تربیت دینا تھا بلکہ پولنگ اسٹیشن کے باہر ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے حوالے سے رہنمائی بھی فراہم کرنا تھا میری اطلاعات کے مطابق اس مہم میں 10لاکھ نوجوانوں کو تربیت دینا مقصود تھا اس مہم کے لئے جو رجسٹریشن کی گئی وہ بوگس تھی اور اس مہم کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے سابق جنرل سیکرٹری اکرم ذکی نے ایئرمارشل شاہد ذوالفقار جو انکوائری کمیشن کے سربراہ ہیں کو تحریری طور پر اس مہم میں ہونے والی کرپشن اور بے ضابطگیوں کے متعلق درخواست دی لیکن تاحال اس انکوائری کو دبا کر رکھا گیا ہے اور اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا جبکہ اس مہم کے حوالے سے متعدد شکایات بھی ریکارڈ پر آ چکی ہیں ۔
ان تمام واقعات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان کو 2013ء کے الیکشن کے حوالے سے ان کی پارٹی کے لوگوں نے جو تصویر کشی کی تھی وہ حقائق پر مبنی نہ تھی۔ تحریک انصاف کے کارکن عام ووٹر کو نہ تو حقیقی معنوں میں موبلائز کرسکے اور نہ ہی پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کامیاب ہو سکے اور میرے خیال میں پنجاب کے متعدد شہری حلقوں میں شکست کی یہی بڑی وجہ تھی میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو 2013ء کے الیکشن کے دوران پارٹی ورکرز اور ان کے سپورٹرز سے دور کر دیا گیا تھا اور وہ صرف ایک مخصوص ٹولے کے درمیان گھرے ہوئے تھے جو ان کو آج بھی گمراہ کر رہے ہیں یہ وہی ٹولہ ہے جو ان کو کہہ رہا ہے کہآپکو وزیر اعظم بننے کے مزید پانچ سال کا انتظار کرنے کی بجائے ابھی سے اس پر کام شروع کر دینا چاہئے اور پھر دھرنوں کی مہم جوئی جلد بازی میں شروع کر دی گئی۔
عمران خان اپنے پارٹی ورکرز کو مارچ کے مہینے سے ہی یہ پیغام دے رہے تھے کہ اس سال ستمبر اکتوبر میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں لہٰذا آپ اس کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ 4حلقوں کا ایشو محض اپنی احتجاجی تحریک کو عملی جامہ پہنانے کے اٹھایا گیا ہے جبکہ مقصد تمام انتخابات کو متنازع بنانا تھا تاکہ مڈ ٹرم الیکشن کی راہ ہموار کی جا سکے ۔ جن نادیدہ قوتوں نے عمران خان کو یہ پورا پلان دیا تھا ان میں صرف ریٹائرڈاسٹیبلشمنٹ کے لوگ نہ تھے ان قوتوں کا مقصد شروع میں صرف نواز شریف کو’’ کٹ ٹو سائز‘‘کرنا تھا اور یہ منصوبہ انہوں نے عمران خان سے بھی پوشیدہ رکھا ہوا تھامگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ان ہی قوتوں نے فیصلہ کیا کہ اب نواز شریف حکومت ختم کر کے نئے الیکشن کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے لہٰذا انہوں نے عمران خان اور طاہر القادری کو ایک پیج پر اکھٹا کر کے اپنے پلان بی کا آغاز کر دیا لیکن نہ عمران خان ان کی طرف سے دیے جانے والے اہداف پورے کر سکے اور نہ ہی طاہر القادری ۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمرا ن خان اور طاہر القادری ایک بند گلی میں پہنچ چکے ہیں حکومت کو انہیں واپسی کے لئے باعزت راستہ دینا چاہئے جس سے ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہواور یہ تاثر پیدا ہو جیسے بڑا بھائی ایک لڑائی کے بعد چھوٹے بھائی کی غلطیوں کونظر اندازکرتے ہوئے اس کے لاابالی پن اور اس کے غضے کو ٹھنڈ ا کردے تاکہ یہ بے فائدہ کشمکش ختم ہو اور تباہ حال ملکی معیشت کا پہیہ پھر سے ترقی کی جانب اپنا سفر شروع کر سکے۔
تازہ ترین